” اب کے میں ریاست مدینہ کے نام پر مارا جاؤں گا”

میں جب پہلی مرتبہ ماراگیا تھا تو اس وقت بہت چھوٹا تھا ،نوزائیدہ ہی سمجھ لیں ۔میرے ”معمار” کو زیارت شہر سے واپسی پر کراچی میں ایک خراب ایمبولینس میں سوار کرادیا گیا اور کچھ دنوں بعد میں نے خبر سنی کہ ملت کا پاسبان ہمیں تنہا چھوڑ گیا ہے ۔میں ابھی اس صدمے کے زیر اثر ہی تھا کہ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں قائد ملت کو گولی ماردی گئی ،وہاں خان لیاقت علی خان سپرد خاک ہوئے، یہاں میں بے آسرا ہوگیا ۔اب ملک غلام محمد میرا حاکم تھا ۔ایک ایسا شخص جس کی زبان سے الفاظ بھی واضح طور پر ادا نہیں ہوتے تھے ۔یہ بیمار شخص مجھ یتیم اور بے آسرا کی حاجت روائی کیا کرتا ،اس کے اپنے چونچلے تھے اور اس کی اپنی ہی ایک دنیا تھی ،جس میں وہ مگن تھا ۔خدا خدا کرکے میں ”دور غلامیت” سے نکلا تو مملکت خداداد کا تخت ایک کھلونا بن گیا۔کوئی چھ ماہ کھیلا تو کسی نے ایک سال زور آزمائی کی ،کوئی مہینوں میں ہمت ہار بیٹھا تو کسی کو ہفتوں نے ہی نڈھال کردیا۔خواجہ ناظم الدین ،محمد علی بوگرا ،چوہدری محمد علی ،حسین شہید سہروردی ،آئی آئی چندریگر ،فیروز خان نون اور پھر اسکندر مرزا ،میں نے کچھ سالوں میں اتنے حاکم دیکھے کہ میرا دماغ شل ہوگیا ،میری حالت میں رتی برابر فرق نہیں آیا ،میں مفلس تھا اور مفلس ہی رہا ۔اقتدار کی اس رسی کشی نے مجھے موت کی گہری نیند سلادیا ۔
اب میں ”دور ایوبی” میں زندہ تھا ۔مجھے بتایاجارہا تھا کہ پچھلے سب حکمران غلط تھے ۔قوم کا اصل غم گسار تو اب آیا ہے ۔دیکھنا سب کچھ کیسے بدلتا ہے ۔میں صنعتوں کا جال بچھادوں گا ،میں اپنی رعایا کو مالا مال کردوں گا ،میں ہی قوم کا مسیحا ہوں اور مجھے ہی رہنمائی کے لیے چنا گیا ہے ۔یہ باتیں سن کر میرے مردہ جسم میں جان پڑگئی ۔جینے کی امنگ لوٹ آئی ۔وقت بیتا جارہا تھا ۔قریباً ایک دہائی گزر گئی اور میں ایک مرتبہ پھر نڈھال ہوگیا ۔مجھے غشی کے دورے پڑنے لگے ،مجھے یاد ہے کہ آخری سانسیں لیتے ہوئے طبیب کے یہ الفاظ میں نے واضح طور پر سنے تھے کہ یہ ”صنعتی ترقی کے نام پر مارا گیا ”روٹی ،کپڑا اور مکان کہیں دور سے آتی اس آواز نے میری آنکھوں میں ایک مرتبہ پھر امید کے چراغ روشن کردیئے ،میں پھر جی اٹھا ۔”میرا ایک بازو کٹ چکا تھا” لیکن مجھے ایسا لگا کہ اب میرے خوابوں کی تعبیر نزدیک ہی ہے لیکن میری بدنصیبی تھی کہ میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی تھی ۔مجھے روٹی نہیں بھوک ملی ،کپڑا نہیں بے لباسی ملی اور مکان نہیں قبر ملی اور اب کی مار میں ”روٹی کپڑا اور مکان ” کے نام پر مارا گیا ۔
میں نے کسی سے سنا کہ کوئی مرد مومن مرد حق آگیا ہے ۔ملک میں شریعت کا نفاذ ہوگا ۔ایک مثالی ریاست بس قائم ہی ہونے والی ہے ۔یہ سب سن کر میرے مردہ جسم میں جان پڑگئی،میں تن کر کھڑا ہوگیا ۔آخر وہ چارہ ساز آہی گیا جس کا مجھے انتظار تھا ۔اب میرے تمام زخم رفو ہوں گے ۔میرے خشک ہونٹوں پر ایک مرتبہ پھر مسکراہٹ نے جگہ لے لی لیکن میرے ساتھ اس مرتبہ ماضی سے بھی بہت برا ہوا ۔میرے جسم پر اتنے زخم لگے کہ میں شمار ہی بھول گیا ۔تعصب ،لسانیت اور فرقہ واریت کی وہ آگ لگی کہ الامان ۔۔الحفیظ ۔میرا دل کراچی بھیڑیوں کے حوالے کردیا گیا اورصوبوں کو قوم پرستی کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ۔میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھرا اور ”مرد مومن مرد حق کی شریعت کے نام پر مارا گیا ”
مجھے پھر کسی نے صدا لگائی ،میرے کانوں نے سنا کہ دور آمریت بیت گیا ہے ۔نوجوان قیادت آگئی ہے ۔اب ملک بدلے ہی بدلے گا ۔مجھے سہارا دے کر پھر اٹھایا گیا لیکن یہاں تو ایک حشر برپا تھا ۔لوٹ مار کی وہ داستانیں سننے کو مل رہی تھیں کہ سنتا جا اور شرماتا جا ۔کوئی بنت بھٹو تھی ،کوئی ابن شریف تھا ۔یہ باریاں لیتے رہے ،یہ سنورتے رہے اور میں اجڑتا رہا ۔یہ دس سال بھی بیت گئے اور اب کے میں ”جمہوریت کے نام پر مارا گیا” ۔مجھے کسی نے کہا کہ آنکھیں کھولو ،ایک ”کمانڈو” آگیا ہے ۔اب تمہاری بگڑی قسمت سنورے گی ۔اب احتساب ہوگا ،انصاف کا بول بالا ہوگا اور میں بھی کیاکروں ،میری امید ہی نہیں مرتی ،میں ایک مرتبہ پھر بیدار ہوگیالیکن اب سوچتا ہوں کہ میں آنکھیں بند ہی رکھتا تو اچھا تھا ۔یہ وہ دور جب ایک ٹیلی فون کال پر ملک کے فیصلے ہوجایا کرتے تھے ۔قوم بیٹیاں اور بیٹے چند ٹکوں کے لیے دشمنوں کے حوالے کردیئے گئے ۔میری آنکھیں پتھر کی ہوگئیں ۔وقت مجھے کیا کیا دکھا رہا تھا ، میں لرکھڑا کر گرپڑا اور اب کی بار میں ”سب سے پہلے پاکستان” کے نام پر مارا گیا ۔میری سماعتیں کمزور ہوچکی تھیں ۔کہیں سے جمہوریت بہترین انتقام ہے کی آواز آتی تو کوئی تجربہ کار حکومت کی صدا لگاتا تھا ۔میں خاموش ہی رہا ۔مجھے کسی کااعتبار نہیں رہا تھا ۔میں بول بھی کیسے سکتا تھا ۔میرے حاکم لٹیرے نکلے تھے ،میرا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا تھا ۔میں نے جب بھی تریاق مانگا میری رگوں میں مزید زہر انڈیل دیا گیا ۔
مجھے اچانک ایسے لگا کہ کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا ہو ،جگانے والے نے مجھے کہا کہ آنکھیں کھولو ،وہ وقت آہی گیا ہے ،جس کا تمہیں انتظار تھا ۔ایک نیا حاکم آگیا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنائے گا ۔یہ سن کر مجھے ایسا لگا کہ میرے پورے جسم میں بجلی دوڑ گئی ہے ۔میں نے پہلے اپنے کسی حاکم سے نہیں سنا تھا کہ وہ میرے ملک کو ریاست مدینہ بنائے گا ۔مجھے تو نئی زندگی مل گئی تھی ،میں مر کر ایک بار پھر جی اٹھا ۔میں اب نئے حاکم کے ساتھ تھا ۔میری آنکھیں ریاست مدینہ کی تلاش میں تھیں لیکن یہ کیسی ریاست مدینہ تھی ؟؟ یہاں بھی ظلم کا بازار گرم تھا ۔یہاں بھی طاقتور کے لیے الگ اور کمزور کے لیے الگ قانون تھا ،اس حاکم کے درباری بھی وہی تھے جو پچھلے حاکموں کے تھے ۔غریب کا چولہا پہلے بھی ٹھنڈا تھا ،غریب کا چولہا اب ٹھنڈا ہے ۔انصاف پہلے مہنگا تھا ،انصاف اب بھی مہنگا ہے ۔روٹی کا حصول پہلے بھی مشکل تھا اور روٹی کا حصول اب اس سے زیادہ مشکل ہے ۔میرا بخت پہلے بھی تاریک تھا ،میرا بخت اب بھی تاریک ہے ۔میں اعتراف کرتا ہوں ،میرے ساتھ ایک مرتبہ پھر دھوکا ہوگیا لیکن اس مرتبہ میرا دکھ بین کررہا ہے ۔میرے چاروں طرف کی چیخیں بلند ہورہی ہیں اور بستر مرگ پر مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اب کے میں ”ریاست مدینہ کے نام پر مارا جاؤں گا”

حصہ

جواب چھوڑ دیں