ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ایک طرف تو پولیس کے اعلیٰ افسران اور حکومت کی جانب سے پولیس کلچر میں تبدیلی اور اصلاحات کے دعوے کئے جارہے ہیں جبکہ دوسری طرف پولیس بھرپور ڈھٹائی سے ٹارچر سیلز کا استعمال کر تے ہوئے ظلم و سفاکیت کی بدترین مثالیں قائم کررہی ہے۔ اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان ٹارچر سیلز میں زیادہ تر ان غریب لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جن کے پاس ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا کوئی مناسب ذریعہ موجود نہیں ہوتا۔ پولیس تشدد سے صلاح الدین کی ہلاکت کے بعد گزشتہ روزضلع وہاڑی کے علاقہ لڈن میں پولیس کے نجی ٹارچر سیل میں غریب خاتون کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تفصیلات کے مطابق مقامی بااثر زمیندار ایاز خان کے گھر سونا چوری کی واردات ہوئی جس کا مقدمہ نمبر 598 تھانہ لڈن میں درج ہوا، اس پر لڈن پولیس نے محلہ امام بارگاہ کی رہائشی ظہوراں بی بی نامی غریب خاتون کو چوری کے الزام میں گرفتار کیا اور نجی ٹارچر سیل میں لیجا کر پولیس اہلکار مبینہ طور پر خاتون کو دو روز تک تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ ٹرینی سب انسپکٹر طاہر چوہان اور اے ایس آئی یونس سمیت دیگر ان کے ساتھی خاتون کو مبینہ طور پر برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے رہے، اہلکاروں نے سیڑھی پر لٹکائے رکھا، خاتون کے اعضائے مخصوصہ پر ضربات لگاتے رہے اور بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے، حالت غیر ہونے پر پولیس اہلکاروں نے کسی بھی کاروائی سے باز رکھنے کیلئے خاتون کے ورثاء سے دس کروڑو روپے کا پرونوٹ لیا اور گھر کے باہر چھوڑ کر چلے گئے۔ جبکہ خاتون پر بدترین تشدد کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی۔ جس پر آرپی او ملتان وسیم احمد خان ڈی پی او وہاڑی کے ہمراہ رات گئے متاثرہ خاتون کے گھر پہنچے اور صورتحال دریافت کی۔ عوام آر پی او ملتان کے سامنے لڈن پولیس کے خلاف پھٹ پڑے۔ آر پی او ملتان کے سامنے متاثرہ خاتون زاروقطار روتے ہوئے بتایا کہ مجھے سول کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے گھر سے اٹھایا اور نجی ٹارچر سیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس پر آر پی او ملتان نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو کسی پر ظلم کی ہرگز اجازت نہیں جاسکتی اور وزیر اعلیٰ کے احکامات کی روشنی میں فوری ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔ بعد ازاں پولیس تشدد میں ملوث افراد کے خلاف دفعہ354,337,342 سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے ڈی ایس پی سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ مرکزی ملزم حاجی یونس اے ایس آئی تاحال مفرور ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ تبدیلی کے دورمیں بھی پولیس کلچرتبدیل نہ ہوسکا ہے، اور پولیس بدستوربااثرافرادکے ہاتھوں کھلونابنی ہوئی ہے۔اس سے قبل بھی یہی پولیس اہلکار اسی چوری کے الزام میں سہیل نامی ایک نوجوان کو مبینہ تشدد کا نشانہ بناچکے ہیں جو نشتر ہسپتال ملتان میں زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا ہے۔قبل ازیں بھی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے رحیم یار خان میں بنک کی اے ٹی ایم توڑنے کے مقدمے میں ماخوذ ایک مخبوط الحواس شخص کی پولیس تشدد کی وجہ سے ہلاکت کے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لئے کمیشن مقرر کرنے کے لئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھ دیا ہے۔ اسی طرح لاہور میں بھی ایک نوجوان پر چوری کا الزام لگا اور وہ اپنی صفائی دینے کے لئے خود پولیس سٹیشن چل کر گیا،لیکن اسے بھی کسی نجی عقوبت خانے میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔آئی جی پولیس نے اپنی ایک وڈیو میں اس واقعہ کی تحقیقات کا اعلان تو کیا ہے لیکن اگر تحقیق کا ڈول ڈالا جاتا ہے تو ایسی کوئی تحقیق صرف اس پہلو سے نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی ملزم پولیس تشدد سے مرا یا طبعی موت، بلکہ اصل تفتیش تو یہ ہونی چاہئے کہ جن پولیس افسران نے نجی عقوبت خانے بنا رکھے ہیں اس کا اختیار اُنہیں کس قانون کے تحت حاصل ہے؟ لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہے یہاں گورنر اور وزیراعلیٰ بھی بیٹھتے ہیں، ہائی کورٹ ہے، چیف سیکرٹری اور دوسرے اعلیٰ افسر یہاں موجود ہیں،آئی جی پولیس بھی یہیں قیام فرماتے ہیں ان سب کی موجودگی میں اور ان کی ناک کے عین نیچے کسی اے ایس آئی یا ایس آئی نے اگر نجی عقوبت خانے بنا رکھے ہیں تو لڈن جیسے پسماندہ علاقوں کے حالات کیا ہوں گے۔ یہ عقوبت خانے پولیس کے پورے نظام کی بدنامی کا باعث ہیں جہاں زیر حراست افراد پر تشدد کر کے ان سے بھاری رقمیں وصول کی جاتی ہیں۔ ساہیوال میں پولیس نے ایک ہی خاندان کے افراد کو دہشت گردی کے نام پر قتل کر ڈالا، آج تک اس خاندان کو انصاف نہیں ملا،اب رحیم یار خان کے واقعہ پر جوڈیشنل کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا ہے،حالانکہ کمیشن کا دائرہ کار محدود نہیں بہت وسیع ہونا چاہئے یہ جو تھانے بکتے ہیں اور بعض افسر بھاری بولیاں دے کر پُر کشش تھانے خرید لیتے ہیں،اس کی پوری کہانی بھی کوئی جوڈیشل کمیشن بنا کر سامنے لانی چاہئے،لیکن پولیس تو ہر روز کوئی نہ کوئی نیا گل کھلا رہی ہے۔لاہور ہی میں گزشتہ روز ایک بوڑھی عورت آئی جی پولیس سے ملنے کی کوشش میں ایک پولیس افسر سے بے عزتی کروا بیٹھی، اس عمر رسیدہ خاتون کو جو لاٹھی کے سہارے چل رہی تھی، بجائے اس کے کہ پولیس افسر اُسے اپنے اعلیٰ افسر سے ملانے کے لئے سہولت فراہم کرتا، اُلٹا اس کے ساتھ بدتمیزی کی اور جس لاٹھی کے سہارے وہ چل رہی تھی وہ اس سے چھین کر پھینک دی، جب شہریوں کو اپنے افسران تک رسائی ہی حاصل نہیں ہوگی تو انہیں انصاف کیسے میسر آسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تھانوں میں بندے مارنے اور نجی ٹارچر سیل میں شہریوں پر تشدد کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے اور مقدمات کی تحقیق دور جدید کے مطابق سائنسی بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ یہاں المیہ ہے کہ آئی جی پنجاب نے تھانوں میں میں سی سی ٹی وی کیمرے تو لگوا دیئے مگر وہ خود شہریوں کی پہنچ سے دور اور ان کے مسائل سے لاعلم ہیں، اور نجی ٹارچر سیل ختم کرنا بھی شاید ان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔
٭……٭……٭
151 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
تاریکی میں ڈوبتی دنیا
معاشرہ افراد کی مرہونِ منت ترتیب پاتا ہے، افراد اپنی تربیت بہترین اطوار پر کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بہتر سے بہتر کی تلاش جاری ہے۔ تہذیبوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان دفن شدہ تہذیبوں میں سے ان کے رہن سہن اور دیگر طور طریقوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور باقاعدہ یہ ثابت بھی کیا جاتا ہے کہ ان تہذیبوں میں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ وقت کا تو نہیں، انسان کے طور طریقے ہر دور میں بدلتے رہتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ انسانیت کی تذلیل جیسے واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ جان کر دکھ ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے کسی قسم کی عبرت حاصل نہیں کرتا یا پھر ہر انسان اس سوچ کا حامل ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ صحیح ہے اسے ویسا ہی کرنا تھا جیسا وہ کر رہا ہے لیکن وقت سوچ میں تبدیلی لے آتا ہے پھر پچھتاوالادے لادے زندگی گزر جاتی ہے۔
ہمارے پیارے بنی ﷺ کے چچا کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھتیجا جو کہہ رہا ہے وہ بلکل صحیح ہے لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کو کیسے ترک کردیں۔ آج احساس کو بھی شرمندگی کا سامنا ہوگاکیونکہ وہ اپنی شدت کھوچکا ہے اور کسی اندھیری کال کوٹھری میں سسکیاں لے رہا ہوگا۔ ہم مادہ پرست لوگ ہیں جہاں احساسات کا تعلق کیمرے کی آنکھ کو دیکھانے کیلئے تو امڈ آتے ہیں لیکن حقیقی دکھ اور تکلیف سے باز رہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ دنیا اتنی رنگ برنگی ہوگئی ہے کہ پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے اور وہ سب سامنے آموجود ہوتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں، منظر بدل لیتے ہیں۔
اب کسی کے لئے بھی ساری دنیا میں یہ کہنا ناممکن ہے کہ دنیا ایک خوبصورت جگہ ہے اور یہاں رہنے کیلئے کسی خوبصورت کونے کا انتخاب کر کے وہاں رہ لیا جائے، انسان نے اپنی تباہی کیلئے ایسا ایسا سامنا تیار کر رکھا ہے کہ جب اسے استعمال کیا گیا تو وہ وہاں بھی پہنچ جائے گا جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوگی، یعنی جب تباہی کا عمل شروع ہوگا تو کوئی بھی اس تباہی سے کیسے محفوظ رہ سکے گا۔ دنیا نے ایک نا ایک دن ختم ہونا ہے اور مسلمانوں کے عقیدے کیمطابق اب قیامت کے قریب کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں، اب یقینا قیامت آئی کھڑی ہے۔ فلسطین میں ہونے والا ظلم کسی ایسی ہی منزل کی جانب حتمی پیش قدمی کہا جاسکتا ہے۔ کوئی بولنے سے ڈر رہا ہے اور کوئی ایسے ڈھڑلے سے بول رہا ہے کہ اسے گولی سے مارا جا رہا ہے، ظالم اپنے قبیلے کے پر امن لوگوں کو مارنے سے بھی نہیں چوک رہا۔ پچھلے زمانوں میں یہ کام مخصوص لوگوں کے ذمے ہوا کرتا تھا لیکن آج تو سب، سب کچھ کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔
پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں بجلی کی تخفیف قوت (لوڈشیڈنگ)اس قدر ہوتی ہے کہ ملک کا اکثر حصہ تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جو ہمیں تاریکی...
۔23 مارچ کا یادگار دن
قوموں کی زندگی میں بعض لمحات بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں جو اپنے نتائج اور اثرات کے اعتبار سے خاصے دور رس اور تاریخ کا دھارا موڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں، 23 مارچ کا یادگار دن ہماری قوم کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اسکی ایک تاریخی حیثیت ہے کہ سنہ 1940ء میں لاہور کے تاریخی شہر میں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے نمائندوں نے قائد اعظم کی زیر صدارت ایک تاریخی اجتماع میں حصول پاکستان کی قرار داد منظور کی تھی۔ تا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے مسلم قومیت کی بنیاد پر ایک آزاد ملک حاصل کیا جا سکے۔ جس پر نہ غیر ملکی استعمار کے تاریک سائے پڑیں اور نہ ہی ہندو اکثریت اور چیرہ دستیاں مسلمانوں کے ارفع مقاصد کی راہ میں حائل ہونے پائیں۔ مسلمانان برصغیر اپنے لئے ایک الگ وطن اسی لئے چاہتے تھے جہاں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ایک مثال اسلامی معاشرہ تشکیل دیں جہاں اسلامی عدل و انصاف کا دور دورہ ہوا اور جو عصر حاضر میں سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی قوتوں سے پسی ہوئی انسانیت کیلئے مشعل راہ ثابت ہو۔ اس عظیم مقصد کے لئے 23مارچ 1940ء کولاہور میں بادشاہی مسجد کے قریب ایک وسیع و عریض میدان میں لاکھوں مسلمان اکٹھے ہوئے اور بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق نے ایک قرار داد پیش کی جس کی تائید تمام مسلمانوں نے دل و جان سے کر دی جس سے ان کی قسمت کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس دن لاہور میں مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا اعلان کیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ہم ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد خطوں کی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔
23 مارچ کو قرار داد کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ قوم کو ایک واضح نصب العین مل چکا تھا اور خوش قسمتی سے قائد اعظمؒ جیسے مدبر قائد میسر تھے جن کی قیادت سحر انگیز اور ولولہ انگیز ہونے کے علاوہ سیاست میں صداقت اور دیانتداری کی علمبردار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک مسلمانان ہند مسلم لیگ کے پرچم تلے متحد ہو چکے تھے۔ 1945ء میں وائسرائے ہند لارڈ ویول نے مسلم لیگ اور مطالبہ پاکستان کی مقبولیت اور دوسری جماعتوں کی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے انتخابات کروائے۔ کانگرس کے ایماء پر بننے والے مسلمانوں کے نام نہاد متحدہ محاذ کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کو تاریخی فتح حاصل ہوئی اور مسلم لیگ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت بن کر سامنے آئی اور اس طرح حصول پاکستان کی منزل قریب سے قریب تر ہو گئی۔ اکتوبر 1946 ء میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مسلم نمائندگان کی قیادت خان لیاقت علی خان نے کی ادھر حکومتی ایوانوں میں قائد اعظم ؒمسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اور قیام پاکستان کیلئے سیاسی جنگ لڑ رہے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔3 جون کو تقسیم ہند کے...
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
I do agree with all of the concepts you’ve introduced for your
post. They are really convincing and will definitely work.
Still, the posts are very brief for starters. Could you please extend them a
bit from next time? Thank you for the post.
Its not my first time to pay a visit this website, i am visiting this website dailly and get nice data from here every day.
I do not even understand how I ended up right here, however I thought this post was great.
I do not recognise who you might be however definitely you are going to a famous blogger should you are not already.
Cheers!
Excellent post. I used to be checking constantly this blog and I am inspired!
Extremely helpful info specially the ultimate phase 🙂 I maintain such information much.
I used to be seeking this certain information for a long time.
Thank you and good luck.
What’s up to all, how is all, I think every one is getting more from this web page, and your views are pleasant in favor
of new visitors.
I was able to find good info from your blog posts.
It’s an awesome post for all the web visitors; they will
get advantage from it I am sure.
After going over a number of the blog articles on your site, I seriously like your way
of blogging. I saved as a favorite it to my
bookmark site list and will be checking back in the near future.
Take a look at my web site too and let me know your opinion.
Somebody essentially help to make seriously articles I might state.
This is the first time I frequented your web page and to this point?
I surprised with the research you made to make this particular submit extraordinary.
Fantastic activity!
Hi, after reading this remarkable article i am too happy to share my knowledge here with mates.
Good post. I learn something totally new and challenging on blogs
I stumbleupon everyday. It will always be exciting to read articles from other writers and practice something from other web sites.
I do not even know how I ended up here, but I thought this post was good.
I do not know who you are but certainly you’re going to a famous blogger if
you aren’t already 😉 Cheers!
Thanks a bunch for sharing this with all of us you
really realize what you are talking about! Bookmarked.
Please also consult with my website =). We may have a
link exchange contract between us
Whats up very nice site!! Man .. Excellent .. Wonderful ..
I’ll bookmark your blog and take the feeds also?
I am happy to find a lot of useful info here within the post,
we need work out more techniques in this regard, thank you
for sharing. . . . . .
It’s going to be ending of mine day, but before end I
am reading this great post to improve my know-how.
A motivating discussion is definitely worth comment.
I do think that you should write more on this subject, it
may not be a taboo matter but usually people don’t speak about such topics.
To the next! Many thanks!!
Yes! Finally something about website.
Hello there, You have done a great job. I will definitely digg it and personally suggest to my friends.
I am confident they’ll be benefited from this site.
Hey! This is kind of off topic but I need some advice from an established blog.
Is it very hard to set up your own blog? I’m not very techincal but I can figure things out pretty quick.
I’m thinking about setting up my own but I’m not sure where to start.
Do you have any ideas or suggestions? Thanks
If you are going for finest contents like
myself, only go to see this web page all the time as it gives quality contents, thanks
Hi, i read your blog from time to time and i own a similar one and i was just wondering if you get a lot of
spam feedback? If so how do you stop it, any plugin or anything you
can recommend? I get so much lately it’s driving me crazy so any support is very much appreciated.
Thank you, I’ve just been looking for info about this topic
for a while and yours is the best I’ve discovered so far.
But, what about the conclusion? Are you sure about
the supply?
I have been exploring for a little for any high-quality articles or blog posts on this sort of space .
Exploring in Yahoo I finally stumbled upon this site.
Reading this info So i’m satisfied to express that I’ve a very just right uncanny feeling I
discovered just what I needed. I most indisputably will make certain to do not fail to remember this website and provides it a glance on a relentless basis.
It’s perfect time to make some plans for the future and it
is time to be happy. I’ve read this post and if I could
I wish to suggest you few interesting things or suggestions.
Maybe you could write next articles referring to this article.
I desire to read even more things about it!
Keep on writing, great job!
Do you mind if I quote a couple of your posts as long as I provide credit and sources back
to your webpage? My blog site is in the exact same
area of interest as yours and my users would genuinely
benefit from some of the information you provide here.
Please let me know if this alright with you. Thanks!
Appreciate the recommendation. Let me try it out.
I think this is among the most important info for me.
And i am glad reading your article. But wanna remark on few general things, The web
site style is ideal, the articles is really nice : D. Good job, cheers
Hi my friend! I want to say that this article is awesome, nice written and include almost all vital infos.
I would like to look more posts like this .
Thanks for your marvelous posting! I certainly enjoyed reading it,
you happen to be a great author. I will be sure to bookmark
your blog and may come back sometime soon. I want to encourage
you to continue your great posts, have a nice
afternoon!
I’m very pleased to uncover this web site. I want to to thank you for your time just for this wonderful read!!
I definitely savored every little bit of it and i also have you bookmarked to look at new stuff on your web
site.
Hi! I just wanted to ask if you ever have any issues with hackers?
My last blog (wordpress) was hacked and I ended up losing a few months of hard work due to no back
up. Do you have any methods to stop hackers?
I always emailed this website post page to all my associates, because if like
to read it then my links will too.
Thanks a lot for sharing this with all of us you really understand what you’re talking approximately!
Bookmarked. Kindly additionally visit my web site =).
We could have a hyperlink trade contract between us
Thanks , I’ve recently been looking for info about this subject for
a while and yours is the best I’ve came upon so far. But, what in regards
to the bottom line? Are you certain in regards to the source?
Hurrah, that’s what I was seeking for, what a material! existing here at this weblog, thanks admin of this site.
Usually I don’t read post on blogs, but I
would like to say that this write-up very forced me to check out and do it!
Your writing taste has been amazed me. Thanks, quite great post.
Please let me know if you’re looking for a article writer for your weblog.
You have some really good posts and I think I would be
a good asset. If you ever want to take some of the
load off, I’d really like to write some material for your blog in exchange for a link back to mine.
Please blast me an email if interested. Thank you!
Thanks for sharing your thoughts about website.
Regards
Nice blog! Is your theme custom made or did you download it from somewhere?
A design like yours with a few simple adjustements would really make my blog
shine. Please let me know where you got your design. Cheers
I was wondering if you ever considered changing the structure of
your blog? Its very well written; I love what youve got to say.
But maybe you could a little more in the way of content so people could connect with it better.
Youve got an awful lot of text for only having one or two pictures.
Maybe you could space it out better?
When I initially commented I clicked the “Notify me when new comments are added” checkbox and now each time a
comment is added I get several e-mails with the same comment.
Is there any way you can remove people from that service?
Cheers!
My partner and I stumbled over here by a different web page and thought I might check things out.
I like what I see so now i’m following you.
Look forward to looking into your web page yet again.
Howdy, I think your site might be having internet
browser compatibility issues. When I look at your site in Safari,
it looks fine however, if opening in IE, it has some overlapping
issues. I simply wanted to provide you with a quick heads up!
Other than that, excellent website!
Magnificent web site. Plenty of useful information here.
I am sending it to a few pals ans additionally sharing in delicious.
And naturally, thanks in your effort!
Hello There. I found your blog using msn. That is a really neatly
written article. I’ll make sure to bookmark it and return to learn extra of your helpful information. Thank you for the post.
I will definitely comeback.
Very good article! We are linking to this great content on our
website. Keep up the good writing.
I am sure this paragraph has touched all the internet viewers,
its really really pleasant paragraph on building up new weblog.
I like it when individuals come together and share views.
Great website, keep it up!
Hi there to every one, because I am genuinely keen of reading this webpage’s post to be
updated regularly. It includes nice stuff.
First off I want to say superb blog! I had a quick
question that I’d like to ask if you don’t mind. I was interested to know how you center
yourself and clear your thoughts prior to writing. I have had
trouble clearing my thoughts in getting my thoughts
out. I do take pleasure in writing but it just seems like
the first 10 to 15 minutes tend to be wasted simply just trying to figure out how to begin. Any suggestions or tips?
Appreciate it!
Hi there friends, nice post and good urging commented here,
I am in fact enjoying by these.
You actually make it appear really easy with your
presentation but I find this matter to be actually something that I
believe I would by no means understand. It kind of feels too complex
and extremely huge for me. I am taking a look ahead on your next put up, I’ll try to get the cling of it!
Do you mind if I quote a few of your articles as long as I provide credit and sources back to your webpage?
My blog is in the very same area of interest as yours and my users would truly benefit from a lot
of the information you provide here. Please let me know
if this alright with you. Thanks!
Excellent items from you, man. I’ve take note your stuff prior to and you are just extremely magnificent.
I actually like what you have bought here, certainly
like what you are saying and the best way during
which you say it. You are making it enjoyable
and you still care for to stay it sensible. I cant wait
to learn much more from you. That is really a great site.
Aw, this was an incredibly nice post. Taking the time and actual effort to make a good article… but what can I
say… I procrastinate a lot and don’t manage to
get nearly anything done.
Great website. Lots of useful information here. I am sending it to some pals ans additionally sharing in delicious.
And naturally, thanks to your sweat!
Informative article, just what I needed.
I’m gone to tell my little brother, that he should also visit this blog on regular
basis to get updated from hottest gossip.
Nice post. I was checking constantly this blog and I am impressed!
Very helpful information particularly the last part 🙂 I care for such information a lot.
I was seeking this particular info for a very long time.
Thank you and best of luck.
Having read this I believed it was really enlightening.
I appreciate you taking the time and effort to put this short article together.
I once again find myself spending way too much
time both reading and commenting. But so what, it was still
worthwhile!
Thanks for sharing your info. I really appreciate your efforts and I
will be waiting for your next write ups thank you once again.
I constantly emailed this web site post page to all my associates, because if like to read it afterward my friends will too.
Oh my goodness! Awesome article dude! Thank you, However I am going through difficulties with your RSS.
I don’t understand why I can’t join it. Is there anybody else having similar RSS problems?
Anyone who knows the solution can you kindly respond?
Thanx!!
Cool blog! Is your theme custom made or did
you download it from somewhere? A design like yours
with a few simple tweeks would really make my blog stand out.
Please let me know where you got your theme. Kudos
Great site. Plenty of helpful info here. I’m sending it to some friends
ans additionally sharing in delicious. And obviously, thanks in your sweat!
Hi there! This blog post could not be written any better!
Reading through this article reminds me of my previous roommate!
He constantly kept talking about this. I am going to send this article to him.
Pretty sure he’ll have a very good read. I appreciate you for sharing!
It is truly a great and useful piece of information. I am glad that you simply
shared this useful information with us. Please keep us up to date like this.
Thank you for sharing.
I’m really enjoying the design and layout of your site.
It’s a very easy on the eyes which makes it much more enjoyable for me to come here and
visit more often. Did you hire out a designer
to create your theme? Fantastic work!
Its such as you learn my mind! You appear to understand so much about this, such as you wrote the ebook in it or something.
I think that you just could do with some percent to pressure the message home a little bit, however other than that,
that is fantastic blog. A great read. I’ll certainly be
back.
Remarkable! Its really awesome post, I have got
much clear idea regarding from this piece of writing.
We stumbled over here coming from a different website and
thought I should check things out. I like what I see so
now i am following you. Look forward to looking over your web page repeatedly.
Nice blog here! Also your web site loads up
fast! What web host are you using? Can I get your affiliate link to your host?
I wish my web site loaded up as quickly as yours lol
Hola! I’ve been following your weblog for a while now and finally got the
courage to go ahead and give you a shout out from Porter Tx!
Just wanted to mention keep up the good work!
I’m curious to find out what blog system you’re
using? I’m having some minor security problems with my latest website and I would like to
find something more risk-free. Do you have any suggestions?
I have read so many articles concerning the blogger lovers except this post is truly a fastidious article, keep it up.
I every time used to read piece of writing in news papers but now
as I am a user of web thus from now I am using net for
articles, thanks to web.
Я благодарен автору этой статьи за его способность представить сложные концепции в доступной форме. Он использовал ясный и простой язык, что помогло мне легко усвоить материал. Большое спасибо за такое понятное изложение!
Статья предлагает объективный обзор исследований, проведенных в данной области. Необходимая информация представлена четко и доступно, что позволяет читателю оценить все аспекты рассматриваемой проблемы.
Я ценю фактический и информативный характер этой статьи. Она предлагает читателю возможность рассмотреть различные аспекты рассматриваемой проблемы без внушения какого-либо определенного мнения.
Автор представил широкий спектр мнений на эту проблему, что позволяет читателям самостоятельно сформировать свое собственное мнение. Полезное чтение для тех, кто интересуется данной темой.
Я прочитал эту статью с большим удовольствием! Она написана ясно и доступно, несмотря на сложность темы. Большое спасибо автору за то, что делает сложные понятия понятными для всех.
Эта статья является примером качественного исследования и профессионализма. Автор предоставил нам широкий обзор темы и представил информацию с точки зрения эксперта. Очень важный вклад в популяризацию знаний!
The article is well-structured and flows smoothly.
Статья представляет аккуратный обзор современных исследований и различных точек зрения на данную проблему. Она предоставляет хороший стартовый пункт для тех, кто хочет изучить тему более подробно.
Это позволяет читателям получить разностороннюю информацию и самостоятельно сделать выводы.
Статья помогает читателю разобраться в сложной проблеме, предлагая разные подходы к ее решению.
Я просто не могу не поделиться своим восхищением этой статьей! Она является источником ценных знаний, представленных с таким ясным и простым языком. Спасибо автору за его умение сделать сложные вещи доступными!
Это помогает читателям получить полное представление о сложности и многообразии данного вопроса.
Я бы хотел отметить качество исследования, проведенного автором этой статьи. Он представил обширный объем информации, подкрепленный надежными источниками. Очевидно, что автор проявил большую ответственность в подготовке этой работы.
Надеюсь, что эти комментарии добавят ещё больше положительных настроений к информационной статье!
The article covers a wide range of relevant subtopics.
Автор предлагает практические рекомендации, основанные на исследованиях и опыте.
Информационная статья предлагает всесторонний обзор ситуации, с учетом разных аспектов и аргументов.
Я очень доволен, что прочитал эту статью. Она оказалась настоящим открытием для меня. Информация была представлена в увлекательной и понятной форме, и я получил много новых знаний. Спасибо автору за такое удивительное чтение!
Автор представляет сложные понятия в понятной и доступной форме, что помогает читателю лучше понять тему.
Я не могу не отметить качество исследования, представленного в этой статье. Автор использовал надежные источники и предоставил нам актуальную информацию. Большое спасибо за такой надежный и информативный материал!
Хорошая статья, которая основана на фактах и не сторонится от нейтральности.
Оставление отзывов и рейтингов на доске объявлений помогает формировать доверие к продавцам и покупателям.
Ограничение на время жизни сообщения: Сообщения автоматически удаляются через 24 часа после отправки, что может быть недостаточно для пользователей, которым нужно дольше сохранять свою переписку.
Strong Emphasis on Privacy: CandyMail.org takes privacy seriously, employing state-of-the-art encryption methods to protect user data. When composing an email, the service ensures that all messages are encrypted end-to-end, preventing unauthorized access or interception. Additionally, CandyMail.org does not store any personal information about its users, ensuring their anonymity and providing a secure environment for confidential communication.
Очень хорошо организованная статья! Автор умело структурировал информацию, что помогло мне легко следовать за ней. Я ценю его усилия в создании такого четкого и информативного материала.
В статье явно прослеживается стремление автора к объективности и нейтральности.
Это помогает читателям получить полное представление о сложности и многообразии данного вопроса.
The article is well-structured and flows smoothly.
The information in this article is relevant to a wide range of readers.
Я восхищен глубиной исследования, которое автор провел для этой статьи. Его тщательный подход к фактам и анализу доказывает, что он настоящий эксперт в своей области. Большое спасибо за такую качественную работу!
What a fantastic piece of writing! The author’s passion for the topic shines through every word, making the article engaging and captivating. I found myself absorbed in the content from beginning to end. Truly exceptional!
Хорошая статья, в которой автор предлагает различные точки зрения и аргументы.
Это позволяет читателям самостоятельно оценить представленную информацию и сделать информированные выводы.
Статья представляет анализ разных точек зрения на проблему, что помогает читателю получить полное представление о ней.
Статья помогает читателю разобраться в сложной проблеме, предлагая разные подходы к ее решению.
Это позволяет читателям формировать свою собственную точку зрения на основе фактов.
Автор старается оставаться объективным, чтобы читатели могли сформировать свое собственное мнение на основе предоставленной информации.
Я бы хотел отметить качество исследования, проведенного автором этой статьи. Он представил обширный объем информации, подкрепленный надежными источниками. Очевидно, что автор проявил большую ответственность в подготовке этой работы.
Автор старается быть нейтральным, что помогает читателям лучше понять обсуждаемую тему.
Я ценю балансировку автора в описании проблемы. Он предлагает читателю достаточно аргументов и контекста для формирования собственного мнения, не внушая определенную точку зрения.
Мне понравилась объективность автора и его способность представить информацию без предвзятости.
Автор старается не высказывать собственного мнения, что способствует нейтральному освещению темы.
Информационная статья основывается на исследованиях и надежных источниках.
Это позволяет читателям самостоятельно сделать выводы и продолжить исследование по данному вопросу.
Автор старается дать читателям достаточно информации для их собственного исследования и принятия решений.
Я ценю балансировку автора в описании проблемы. Он предлагает читателю достаточно аргументов и контекста для формирования собственного мнения, не внушая определенную точку зрения.
Автор старается быть объективным и предоставляет достаточно информации для осмысления и дальнейшего обсуждения.
Я очень доволен, что прочитал эту статью. Она не только предоставила мне интересные факты, но и вызвала новые мысли и идеи. Очень вдохновляющая работа, которая оставляет след в моей памяти!
Статья содержит обширный объем информации, которая подкреплена соответствующими доказательствами.
Автор предоставляет релевантные примеры и иллюстрации, чтобы проиллюстрировать свои аргументы.
Я очень доволен, что прочитал эту статью. Она не только предоставила мне интересные факты, но и вызвала новые мысли и идеи. Очень вдохновляющая работа, которая оставляет след в моей памяти!
Мне понравился объективный и непредвзятый подход автора к теме.
Статья предоставляет информацию, основанную на различных источниках и анализе.
Читателям предоставляется возможность самостоятельно исследовать представленные факты и принять собственное мнение.
Автор статьи представляет информацию о событиях и фактах с акцентом на объективность и достоверность.
Эта статья – источник вдохновения и новых знаний! Я оцениваю уникальный подход автора и его способность представить информацию в увлекательной форме. Это действительно захватывающее чтение!
Я хотел бы отметить глубину исследования, представленную в этой статье. Автор не только предоставил факты, но и провел анализ их влияния и последствий. Это действительно ценный и информативный материал!
Статья содержит практические рекомендации, которые можно применить в реальной жизни для решения проблемы.
С удовольствием! Вот ещё несколько положительных комментариев на информационную статью:
Я оцениваю аккуратность и точность фактов, представленных в статье.
Очень интересная исследовательская работа! Статья содержит актуальные факты, аргументированные доказательствами. Это отличный источник информации для всех, кто хочет поглубже изучить данную тему.
Автор предлагает практические рекомендации, основанные на исследованиях и опыте.
Статья предлагает объективный обзор исследований, проведенных в данной области. Необходимая информация представлена четко и доступно, что позволяет читателю оценить все аспекты рассматриваемой проблемы.
Я оцениваю аккуратность и точность фактов, представленных в статье.
Автор старается представить информацию нейтрально и всеобъемлюще.
Статья предлагает различные точки зрения на проблему без попытки навязать свое мнение.
Я прочитал эту статью с огромным интересом! Автор умело объединил факты, статистику и персональные истории, что делает ее настоящей находкой. Я получил много новых знаний и вдохновения. Браво!
Hi there, I enjoy reading all of your article. I like to write a little comment to support you.
Greetings! This is my first visit to your blog! We are a collection of volunteers and starting a new project in a community in the same niche. Your blog provided us valuable information to work on. You have done a outstanding job!
Good info. Lucky me I came across your site by chance (stumbleupon). I have book marked it for later!
Статья содержит анализ преимуществ и недостатков разных решений проблемы, помогая читателю принять информированное решение.
Статья предлагает широкий обзор событий и фактов, связанных с обсуждаемой темой.
Touche. Sound arguments. Keep up the good work.
Can I simply just say what a comfort to discover an individual
who truly knows what they’re talking about over the internet.
You actually understand how to bring an issue to light and make it important.
More and more people ought to check this out and understand this side of your story.
I can’t believe you are not more popular given that you certainly
have the gift. http://www.superstitionism.com/forum/profile.php?id=1169459