قومی اداروں کا وقار

”صاحب! میرا نام عار ف، میرے بھائی کانام اکرم ہے،ہم لوگ اپنا مال مویشی بیچ کر آئے ہیں،ہمارے پاس تو اب واپس جانے کا کرایہ بھی نہیں ہے، والد کا علاج کہاں سے کرائیں گے؟ظالموں نے ہماری ساری جمع پونجی چھین لی،میرا بوڑھا والد منتیں کرتا رہا،پاؤں پکڑے، ہاتھ جوڑے،لیکن پتھر دل انسانوں کو ترس نہ آیا۔“ ہم نے ایک نظر اس کے بوڑھے والد پر ڈالی جسے بیماری نے کسی شجرکاسوکھا پتہ بنا دیا تھا۔کھانس کھانس کر بوڑھے کا برا حال تھاجس سے اس کی جھریوں بھری آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کے سیلاب میں اس کے صحت یاب ہونے کے سارے خواب ڈوب چکے تھے۔
یہ اتوار کی صبح تھی اور ہم معمول کی واک کرکے گھر لوٹ رہے تھے کہ سڑک کنارے دونوجوان اور ایک بوڑھا دیہاتی پریشان بیٹھے نظر آئے۔ ہم نے نوجوان سے پوچھا:”ماجرا کیا ہے؟“عارف نے اپنے والد کی طرف دیکھا اور دکھ سے وہ روتے ہوئے کہا:”ہمارا تعلق پنجاب کے پسماندہ،غریب خستہ حال علاقے سے ہے جہاں ہم سمیت بہت سے غریب رہتے ہیں۔ہم دو بھائی ہیں اورزراعت ہمارا گزر بسر ہے،اس نے بوڑھے کو دیکھتے ہوئے کہا:”ابو کو دمہ اورٹی بی ہے، پنجاب کے ڈاکٹروں نے کہا کہ تم انھیں کراچی لے جاؤوہاں اچھے اور بڑے اسپتال ہیں، وہاں کے بڑے ڈاکٹروں سے ان کا علاج ہوگاتویہ اچھے ہوجائیں گے۔ہم بھائیوں نے مال مویشی فروخت کیے اس لیے کہ بڑے اسپتال میں زیادہ خرچہ ہوگا۔کراچی بس اڈے سے تھوڑا آگے ہمارے رکشے کو کچھ پولیس والوں نے روک کر تلاشی لیتے ہوئے ہمارے پیسے نکال لئے،جس کا ہمیں پتا بھی نہیں چلا،رکشے میں بیٹھا ایک شہری جو پڑھا لکھالگتا تھا، اس نے ہمیں کہاکہ جیب میں اپنی رقم چیک کرلو،ہم نے جیبیں ٹٹولیں توہم بھائیوں کی جیبیں خالی تھیں،ہم ان پولیس والوں کے پاس گئے اور پیسوں کی واپسی کا کہا جو یقیناً ان کے پاس تھے تب انھوں نے اُلٹا ہمیں زدوکوب کیا، مارڈالنے کی دھمکیاں دیں اور یہ کہہ کر دھکے دیے کہ کیا ہم تمھیں چور وڈاکو نظر آتے ہیں“۔
چین کے عظیم مفکر ”کنفیوشس“ نے کہا تھا:”اگر نا انصافی کھلا سانڈ بن جائے تو لوگ عزت نہیں، بلکہ حکمرانوں کوگالیاں دیتے ہیں اوردھتکارپڑتی ہے،اگر حکمرانوں نے عوام کو مطیع و فرمانبردار بنانا اور عوام کے دلوں میں عزت و تکریم کے بیج بونے ہیں تو انھیں صاف وشفاف انصاف دے،حکام کو چاہیے کہ ہرریاستی شعبے میں ایسے ایماندار لوگ تعینات کرے جو اپنی کوتاہیوں، خامیوں سے آگاہوں“۔ ہماری پولیس میں صرف اتنا احساس ندامت جاگ جائے کہ اس محکمے کی تاریخی بنیادیں جس عظیم انسان نے رکھیں تھیں اسے عدل و انصاف کا پیکر کہا جاتا ہے شاید پولیس کا مردہ ضمیر جاگ جائے۔عارف اور اکرم نے یہ حادثہ کیسے برداشت کیا ہوگایہ سوال اپنی جگہ، مگر عوام کے لیے ایسی کہانیاں نئی نہیں۔کراچی میں پولیس کے ہاتھوں جمع پونجی گنوانے والے عارف اور اکرم ہوں یاپنجاب پولیس کے تشدد سے ہلاک ہونے والا صلاح الدین۔ہمارا قومی وقارایسے واقعات سے گرتا جارہاہے۔ جن معاشروں میں ناانصافی سستی ہوجائے تو وہ معاشرے اپنی نسلوں کوورثے میں غلامی کی زنجیریں دیتے ہیں بدقسمتی سیملک میں ایسے واقعات ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ جن سے انصاف کا جنازہ دھوم سے نکالا جارہا ہے۔ محکمہ پولیس کی اجارہ داری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ آئے دن کوئی نیا ایشو سوشل میڈیا پہ ٹاپ ٹرینڈ بن جاتاہے،حکام بالا کو بھی سوشل میڈیا سے پتا چلتا ہے اور معاملہ سوشل میڈیا پر ہی حل کر لیا جاتا ہے،جس سے قومی اداروں کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر عدالتیں لگا کر فیصلے سنا ناملک کے انصاف کے اداروں کے لیے ٹھیک نہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ غیر متوازن انصاف ریاستوں، ریاستی اداروں کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ ملکوں کا معاشی استحکام انصاف سے جڑا ہے،جب تک انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جائے گا ملک میں معاشی تبدیلی لانا خواب ہوگا۔
گزشتہ سالوں پولیس کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔2013 میں کراچی میں پولیس کاٹارگٹڈ آپریشن شروع ہوا،جس میں پولیس کے ساتھ پاکستان رینجرزکی معاونت بھی شامل تھی۔ اس آپریشن کی پولیس نے اعلیٰ حکام کو رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ آپریشن کے دوران دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے پولیس نے 4 ہزار 5سو 62 مقابلے کیے،جس میں 14 سو 99 ملزمان ہلاک،جبکہ 1لاکھ 1 ہزار 761 ملزمان کو گرفتار کیا۔ رپورٹ کی تفصیلات میں حکام کو باور کرایا گیاکہ ہلاک ملزمان میں 367 دہشت گرد،38اغوا کار،10 بھتہ خور،1084 ڈاکو شامل تھے اورپولیس نے عوام کی حفاظت کی خاطر شہر بھر میں جوکارروائیاں کیں ان میں 22 ہزار 115 چھوٹے بڑے ہتھیار بھی پولیس نے برآمد کیے، جن میں 23 خود کش جیکٹس بھی شامل تھیں۔ صرف سندھ میں آج تک جتنے بھی ٹارگٹڈ آپریشن ہوئے ان میں پولیس کورینجرز کی مکمل معاونت حاصل رہی،جس کی وجہ سے سندھ رینجرز کو خصوصی اختیارات بھی دیے گئے تھے۔ رپورٹ میں پولیس کی کارکردگی کو اچھا بتایا اور گرفتار ملزمان کی تعدادمیں لکھا گیاکہ 12 سو 41دہشت گرد،2785 قتل، 143 اغوا کار، 654 بھتہ خور،3964 ڈاکو، 15345مفرورملزمان کا نام شامل ہے،مگر مذکورہ تعداد صاف و شفاف تحقیقات پر مبنی اورہلاک و گرفتار ملزمان میں سے کوئی ایک بھی نا انصافی کی بھینٹ نہیں چڑھا،اس بات کی کوئی گارنٹی رپورٹ میں نہیں دی گئی۔
محکمہ پولیس میں کام کی نوعیت کا اندازہ اس چھوٹے سے واقعے سے لگالیجیے۔ ہمارے ایک جاننے والے پولیس میں بھرتی ہوئے چھ مہینے بعد ملاقات ہوئی تو ہم نے پوچھا:”سناؤ! عوام کی حفاظت کا کام کیسا چل رہا ہے؟ کہنے لگے:”پولیس عوام کی نہیں بلکہ عوام ہماری حفاظت کرتی ہے“۔ ہم بہت حیران ہوئے اور پوچھا:”وہ کیسے؟ وہ مسکرائے اور کہنے لگے:”چھ مہینے سے تنخواہ بنک سے نہیں نکالی،گھر کے اخراجات، دوا دارو، بچوں کی فیسیں عوام ادا کر دیتی ہے،جس سے ہماری تنخواہ محفوظ رہتی ہے۔“ظاہر ایسے واقعات گنے چنے نہیں ہوسکتے کہ جسے یہ سمجھ کر نظر اندازکردیا جائے کہ اس سے اداروں کی کردارکشی نہیں ہوگی؟

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں