ہم آقاﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے

یہ ماہ محرم الحرام ہے یہ شہادت حسین ابن علی  کا مہینہ ہے ۔یہ قربانی کا مہینہ ہے ۔یہ وفا کی لاج رکھنے والوں کا مہینہ ہے تو نواسہ رسولﷺ سے بے وفائی کرکے راندہ درگاہ ہوجانے والوں کا بھی مہینہ ہے ۔ یہ محرم الحرام ہے ۔یہ حق کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دے رہا ہے ۔یہ سمجھا رہا ہے کہ ظلم کے آگے کھڑے ہوجانا کامیابی ہے ۔اس کا پیغام ہے کہ راہ حق میں سر کٹانا ہی نصرت ہے ۔یہ سبق دے رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں آل اولاد ،مال اسباب لٹادینا نقصان کا سودا نہیں ہے ۔اسی محرم الحرام میں آج مقبوضہ کشمیر کا ایک سید زادہ سلاخوں کے پیچھے کھڑا اپنے اسلاف کی کی پیروی کررہا ہے ۔جیسے جیسے اس کی عمر ڈھل رہی ہے ،ویسے ویسے اس کا جذبہ توانا ہورہا ہے ۔وہ کشمیریوں کے لیے حضرت خضر کا کردار ادا کررہا ہے ۔وہ اپنے کمزور جسم کے ساتھ کوہ ہمالیہ سے بھی بلند نظرآتا ہے ۔اس کا کردار بتا رہا ہے کہ وہ آل رسولﷺ ہے ۔
سید علی گیلانی جب اپنی نحیف آواز کے ساتھ امت کو مدد کے لیے پکارتا ہے تو مجھے ایسالگتا ہے کہ وہ کربلا میں کھڑا ہو کر کوفیوں کو صدا لگارہا ہے ۔شاید سید زادے کو علم نہیں ہماری آنکھوں میں پٹیاں بندھی ہیں اور ہم سماعتوں سے محروم ہوچکے ہیں ۔وہ اپنا حق ادا کررہا ہے تو ہم اپنی کم ظرفی ظاہر کررہے ہیں ۔اب تو لوگ گنتی بھی بھول چکے ہیں کہ وادی میں کرفیو کو کتنے دن ہوگئے ہیں ۔پتا نہیں سید زادے کو کھانا پینا بھی مل رہا ہے یا وہ بھی اپنے اجداد کی طرح” محرم میں پیاسا” ہے ۔وہ ایک سید زادہ ہے ۔اللہ کی راہ میں سر کٹانے کا جذبہ اسے ورثے میں ملا ہے ۔وہ غرناطہ کا امیر عبداللہ نہیں ہے ،جسے سقوط اندلس کے بعد اس کی ماں نے کہا تھا کہ جب مردوں کی طرح اپنی سرزمین کی حفاطت نہیں کرسکے تو اب عورتوں کی طرح آنسو بھی مت بہاؤ۔ وہ دکن کا میر صادق بھی نہیں جس نے شیر میسور کے لیے قلعے کے دروازے بند کردیئے تھے ،جس پر ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ قلعے کی دیواریں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں جب تک ان میں غدار پیدا ہوتے رہیں گے یہ قلعے فتح ہوتے رہیں گے ۔وہ خدانخواستہ بنگال کا میر جعفر بھی نہیں ،جسے شاعر مشرق نے ننگ وطن ،ننگ دین اورننگ ملت قرار دیا ہے ۔وہ سید علی گیلانی ہے ،ایک ایسا سید زادہ جس کا خمیر وفا سے اٹھا ہے ۔وہ محبتوں کا امین ہے ۔وہ سوکھے ہوئے تالاب پر بیٹھا ہوا وہ ہنس ہے جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مرجاتا ہے ۔سید کی نصف صدی سے زائد کی جدوجہد بتارہی ہے کہ اس نے کبھی کاروان کو بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑا ۔وہ اس خانوادے کا فرد ہے ،جس کے بچے بھی پشت پر وار نہیں کرتے ۔وہ صحرا میں بھٹک جائے گا لیکن نخلستان کے لیے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرے گا ۔وہ اپنے کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا ۔اس کی جتنی سانسیں باقی ہیں وہ اس کے کشمیری بھائیوں کے نام ہیں ۔
جیسے جیسے سید زادے کے آنسومظالم کو سہتے سہتے خشک ہورہے ہیں ،ویسے ویسے ہمارے قہقہے بلند ہورہے ہیں ۔سید زادہ ہمیں کہہ رہا ہے کہ یہ قیام کا وقت ہے لیکن ہم سجدہ ریز ہیں ۔وہ بچاؤ بچاؤ کی صدائیں لگارہا ہے تو ہم ریلیاں نکال کر آزادی کے نعرے بلند کررہے ہیں ۔سید جرات کا استعارہ ہے تو ہم بزدلی کا خلاصہ ہیں ۔اس کی کمزور ہڈیوں میں بجلی بھری ہے تو ہم اپنے مضبوط جسموں کے ساتھ مخملی بستروں پر دراز ہیں ۔وہ دہائی دے رہاہے کہ ہماری نسل کشی ہورہی ہے ،ہماری مدد کے لیے نہ آئے تو خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے اور ہم خدا کو تو کیا خود کو بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہیں ۔سید علی گیلانی جب کسی شہید کے جنازے پر رندھی ہوئی آواز میں نعرہ تکبیر بلند کرتا تھا ،تو کشمیر کے کوہسار اللہ اکبر کہہ کر اس کا جواب دیتے تھے ۔جب وہ کسی شہید کو پاکستان کے پرچم میں آخری آرام گاہ کی طرف لے جارہا ہوتا تو ”کشمیر بنے گا پاکستان”کا نعرہ اس کے لبوں پر ہوتا تھا ۔وہ کہتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے ۔پاکستان اس کا عشق ہے ،لیکن ہم اس کی محبت کا جواب اپنی بے حسی سے دے رہے ہیں ۔
آج پھر ماہ محرم ہے ۔کربلا کی طرح آج کشمیریوں کا پانی بھی بند ہے ۔وہ زمین جہاں سے دریا پھوٹتے ہیں اس کے باسیوں کے حلق پیاس سے خشک ہورہے ہیں ۔آج پھر کشمیر میں ماؤں بہنوں کی سروں سے چادریں اتاری جارہی ہیں اور ہم ہیں کہ چادریں منہ پر ڈال کر نیند کی گہری آغوش میں ہیں ۔پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے ۔ایک وفا کا امتحان کربلا میں آیا تھا اور آج ایک وفا کا امتحان کشمیر میں آن پہنچا ہے ۔فیصلے کی گھڑی آگئی ہے ۔سید نے خیمے لگادیے ہیں ۔وہ اپنی کشتیاں پہلے ہی جلاچکا ہے ۔اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔یاد رکھنا وہ وہ سید زادہ ہے ۔سجدے کی حالت میں سرکٹانا اس کی ریت ہے ۔اب امتحان کی گھڑی ہماری ہے ۔پتا نہیں مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ اگر اس بار بھی ہم نے کوفیوں کی پیروی کی تو روز محشر کشمیر کا یہ سید زادہ آقائے دوجہاں کے روبرو ہوگا اور کہے گا کہ ناناﷺ کربلا کے بعد ایک سر سجدے کی حالت میں کشمیر میں بھی کٹ گیا تھا اور آپ کے کلمہ گو ”کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے لگارہے تھے ۔۔میں یہ سوچ  کرلرز جاتا ہوں کہ اس وقت میں رسول اللہﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا ۔کیا آپ نہیں سوچ رہے کہ آپ اس وقت رحمت العالمینﷺ کو کیامنہ دکھائیں گے ۔

حصہ

1 تبصرہ

Leave a Reply to عابد خان