اصل داستاں تم ہو

فرانکیا کے مشہور شہنشاہ شارلیمین نے کہا تھا کہ ”فوج نہ تو کبھی شکست کھاتی ہے اور نہ ہی کبھی ہتھیار ڈالتی ہے تب تک جب تک اسے یقین رہتا ہے کہ اس کے پیچھے ایک محبت کرنے والی قوم موجود ہے“اسی جذبہ،عقیدہ اور فلسفہ کے پیچھے ہمارا یقین کامل مانند تب و تاب خورشیدہونا چاہئے کہ ملک پاکستان کی افواج بھی ہم میں سے ہے اور ہم عوام قانونی،آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ ہر اس محاذ پر شمشیر بکف ہیں جہاں انہیں ہماری ضرورت درپیش ہے۔عوام اور افواج کا ایک دوسرے کے لئے جذبہ احترام آج کی بات نہیں ہے،ہر عظیم جرنیل،بادشاہ،شہنشاہ اسی فلسفہ پر عمل پیرا ہو کرکامیابی کی منزلوں کو چھوا کرتے تھے،جیسے کہ اشوک دی گریٹ جو کہ چندر گپت موریہ کاپوتا تھا جس نے موریہ سلطنت کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا اس کی سب سے مشکل اور آخری جنگ کلنگا کی لڑائی تھی،کلنگا جو کہ موجودہ اڑیسہ اور شمالی آندرا پردیس پر مشتمل علاقہ تھا،کلنگا کا راجہ اننتھا بذات خود عسکری مشاق اور جنگی چالوں کا ماہر تھا،اشوک اور اننتھا کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں اشوک دی گریٹ نے کثیر فوج کی مدد سے فتح یاب ہوا۔اشوک دور حکومت میں یہ واحد معرکہ تھا جس میں مخالفین کی طرف سے اشوک کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔اور یہی لڑائی تھی جس نے اشوک کی زندگی کو یکسر بدل کر بھی رکھ دیا یعنی جب جنگ کے خاتمہ پر اشوک نے میدان کارزار کا معائنہ کیا تو ہر سو لاشوں کے انبار اور تعفن زدہ ماحول دیکھ کر ہی فیصلہ کیا کہ آج کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوگی اور ساتھ ہی اس نے اپنی دو لاکھ فوج کو بھی آزاد کردیا۔دولاکھ فوج کی مستقل چھٹی پر موقع پرست وزرا کی ایک جماعت نے اشوک کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اگر ہمارے پاس فوج نہیں ہوگی تو ہم دشمن کا کیسے مقابلہ کریں گے جس کے جواب میں اشوک نے اپنے تاریخی کلمات کہے کہ”پہلے میری ریاست کی حفاظت میری دو لاکھ فوج کیا کرتی تھی اب بیس لاکھ عوام میری ریاست کی حفاظت کرے گی“
گویا فوج اور عوام مل جائیں تو عسکری طاقت دوگنا ہو جاتی ہے بلکہ سرحدوں پر پہرہ دینے والے جوان بلند ہمت ہو جاتے ہیں۔تاریخ کے ان صفحات کو آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں بھی اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا چاہئے خاص کر جب مسئلہ ملکی سلامتی اور حفاظت کا ہو۔اسے سلسلہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایک بیان قارئین کی نذر کرنا ضروری ہے کہ جب وہ دورہ امریکہ پر تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ملک مین دہشت گردی کا خاتمہ کیسے کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ
”میں نے اپنے جوانوں سے پسینہ مانگا تھا انہوں نے اپنا خون پیش کر دیا“
بلاشبہ یہ ہمارے جوانوں کی شہادت اور خون کا نذرانہ پیش کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اپنے اپنے گھروں میں چین کی نیند سوتے ہیں۔عوام جب خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں تو ہمارے جوان سرحدوں پر چاک وچوبند اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔وہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں تاکہ ہماری جانیں محفوظ ہو سکیں۔افواج پاکستان(بری،بحری،ہوائی)ہر ادارہ اپنے اپنے محاذ پر ہمہ وقت دشمن کی گھات میں مورچہ بند،بکتر بند اور فضاؤں کا سینہ چیر تے ہوئے مستعدوتیار رہتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ
دشمن آخر دشمن اے
رکھو تیر کمان دے وچ
بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی مالک ہماری افواج سربکف،جنون شہادت سے لبریز،اسلامی اصولوں سے کاربند ہمیشہ دشمن کے مقابلہ میں اپنے تیر اپنی کمانوں میں چڑھائے رکھتے ہیں،یعنی اسلحہ بردار رہتے ہیں کہ دشمن ہمیں لاعلم خیال کرتے ہوئے کہیں حملہ آوار نہ ہو جائے مگر دشمن کو کیا خبر کہ ہم علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر وتعبیر ہیں کہ
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو کل زیب داستان ہوں گے،تاریخ کے سنہری صفحات مین ان کے ناموں کو سنہری الفاظ میں درج کیا جائے گا اور یہ لوگ ہمیشہ تاریخ میں تابندہ درخشاں رہیں گے،داستان گو کی نظر میں ہمیشہ اصل داستان ایسے لوگوں کے کارنامے ہی ہونگے ہم تو صرف عنوان ہوں گے۔لیکن ہمیں اسی بات پر فخر ہوگا کہ ہم اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں