قتلِ ناحق

کچھ دن پہلے  ایک شخص کی ویڈیو وائرل ہوئی، جو اے ٹی ایم مشین سے کچھ نکال رہا ہے اور کیمرے کو منہ چڑارہا ہے۔ویڈیو دیکھ کر ہماری ہر دم تیار عوام کی مددگار پولیس فورس نے ایکشن لیا اور خطرناک مجرم کو گرفتار کرلیا۔۔۔۔پھر جو جانا مانا پولیس کی تفتیش کا طریقہ کار ہے (کہ چوہا بھی بول پڑے کہ میں ہاتھی ہوں)

اس بے چارے خطرناک مجرم پر وہ طریقہ آزمایا گیا کہ زخموں کی تاب نہ لاکر وہ چل بسا ۔پولیس نے بیان جاری کیا کہ جیل میں دوسرے قیدی سے جھگڑا ہوا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شخص ایک اسکول ماسٹر کا بیٹا اور ذہنی مریض تھا جو ہماری ہر دم تیار عوام کی مددگار پولیس فورس کےتشدد سے جان کی بازی ہار گیا  ۔۔۔آج  سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو اس شخص پر پولیس تشدد کی بھی چل رہی ہے ۔

  اس وقت جو صورتحال ہے ،پورا معاشرہ ہی ذہنی مریض بن چکا ہے۔

مرنے والا تو ذہنی مریض تھا مگر مجھے یقین ہے مارنے والے اس سے بڑے ذہنی مریض ہیں۔ اپنی فرسٹریشن ایک غریب اور عام آدمی پر نکال کر اسے تو زندگی کی قید سے آزاد کردیا مگر ان خطرناک ذہنی مریضوں کا علاج ضروری ہے ورنہ یہ کل کسی اور بے بس پر فرسٹریشن نکالیں گے۔

ایک بات اور سوشل میڈیا کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اب کوئی ظلم چھپا نہیں رہتا اور سامنے آجاتا ہے مگر منفی پہلو یہ ہے کہ معاشرے کی رہی سہی حساسیت بھی ختم ہوتی جارہی ہے ۔

حصہ

2 تبصرے

جواب چھوڑ دیں