قومی اپاہج خانے

            ایک وہ زمانہ بھی تھا جب ہمارا ملک بڑی بڑی مہلک بیماریوں میں مبتلا نہیں تھا، علاقائی عصبیت، لسانی تفریق، سفارشیں، رشوت ستانی، سیاسی اثر و رسوخ، امارت کا غرور، غربت کا احساس کمتری، دولت کی چمک دمک، مفلسی کی زبوں حالی، بڑی بڑی کوٹھیوں والوں سے حسد، غریب بستیوں والوں سے احساس تنفر، المختصر پاکستان ہر قسم کی خطرناک بیماریوں سے مبرہ تھا۔ حکومت ہو یا ریاست، کوئی ادارہ ہو یا زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شعبہ، سارے ہی اس قسم کی ”دیمکوں اور گھنوں“ سے پاک صاف تھے۔

            وقت کی گردش بہت ہی سفاک اور ظالم ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے گھر کے در و دیوار جھاڑتے اور پونچھتے نہ رہیں تو گھر کی ہر شے تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گی۔

            گھر میں موجود ہر ہر چیز مسلسل توجہ اور صفائی ستھرائی مانگتی ہے ا ورغفلت ہر رونق کو وحشت میں بدل کر رکھ دیتی ہے۔

            یہی کچھ اس قوم کے ساتھ ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت خاص سے اتنی بڑی دنیا میں ایک گھر عطا کیا وہ بھی صرف اور صرف یہ نعرہ بلند کرنے پر کہ بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان، پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الا للہ۔

            پاکستان میں بہت سے ادارے تھے اور ان کو چلانے والے بھی نہایت اہل اور دیانتدار افراد تھے، جن میں قابل ذکر پاکستان ریلوے، پوسٹ آفس، ٹیلیفون اینڈ ٹیلیگراف جیسے بڑے بڑے محکمے شامل تھے اور نہایت نا گفتہ بہہ حالات میں بھی ان محکموں اور ان میں کام کرنے والے اہل اور ایماندار افراد نے دن رات ایک کرکے دنیا کو یہ جتا دیا کہ ہم وہ قوم ہیں جو نہایت قلیل وسائل کے با وجودبھی اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔

            پاکستان مسلسل آگے کی جانب پیش قدمی کرتا رہا، واپڈا بنا، پاکستان کی ائیر لائن بنی، ملیں اور کارخانے تعمیر ہوئے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت برے بڑے تعلیمی ادارے بنائے اور ترقی کی منازل بہت تیز رفتاری سے طے ہوتی چلی گئیں اور ایک وہ وقت بھی آیا جب آج ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل جانے والے بیشتر ممالک یہ تمنا کر نے لگے کہ کاش ہم پاکستان کے برابر ہی آجائیں جن میں سر فہرست ملائیشیا اور چین جیسے ممالک شامل ہیں۔

 ۔1971میں پاکستان دولخت تو ہوہی چکا تھا، لیکن باقی ماندہ پاکستان کامزید زوال ایک منتخب حکومت سے شروع ہوا جب شب خون مارتے ہوئے پورے پاکستان کے وسائل کو ”قومیالیا“ گیا، ملیں، کارخانے، بینک اور تعلیمی ادارے، اداروں اور افراد سے ان کی ” ذاتی جائیدادیں‘ ‘ تک بحق سرکار ”قومیالئے“ جانے کے نام پر ان کے وارثوں سے چھین لی گئیں۔

            “چھین لی گئیں” کے الفاظ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ نہ تو اس کے عوض ان کو مراعات دی گئیں اور نہ ہی ان کی آمدنیوں میں ان کو حصہ دار بنایاگیا اور جب ان اداروں کی دوبارہ “نج کاری” کی گئی تب بھی انھیں ان کے اصل وارثوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اس سے بھی بڑا جرم یہ ہوا کہ ان سب اداروں میں “قابلیت اور اہلیت” کو بالائے طاق رکھ کر محض سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسی “فلاسفی” کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنایا گیا۔

            ہر حکومت کی اسی غفلت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ادارے تو ادارے، تعلیمی درسگاہیں تک محفوظ نہ رہ سکیں اور محض اپنے سیاسی بھرم کی وجہ سے ان درسگاہوں میں داخلوں کے لئے بھی کسی اہلیت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اساتذہ کی بھر تیوں میں بھی کسی معیار کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔

            اس طرح یہ سارے ادارے، پاکستان ریلوے، قومی ایئر لائن، واپڈا، پاکستان پوسٹ، ٹی اینڈ ٹی، محکمہ تعلیم، بینک اور پولیس جیسے اہم اور حساس ادارے آہستہ آہستہ قومی اپاہج خانوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے ، نااہل ، ناکارہ، بددیانت، کرپٹ، مال پیٹو افراد کی بھرتیوں نے ان سب اداروں کی تباہی پیٹ کر رکھ دی اور ان سب کو اچھی طرح اپاہج اور ناکارہ بناکر رکھ دیا۔

            بات تعلیمی قابلیت ہونے نہ ہونے کی نہیں، اصل بات یہ ہے کہ جس پوسٹ یا عہدے کے لئے جس تعلیمی اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو بھی ملحوظ نہ رکھا جائے تب بھی اس عہدے کی تضحیک ، تباہی اور پامالی ہی ہے۔ کسی اسلامیات کے پی ایچ ڈی کو محض پی ایچ ڈی کی بنیاد پر کسی محکمے کا اکاونٹینٹ جنرل بنا دیا جائے، کسی ایم بی بی ایس ڈاکٹر کو انجینئر مان لیا جائے یا کسی انجینئر سے کہا جائے کہ تم ایچ آر کا شعبہ سنبھالو تو یہ بھی شعبوں اور اداروں کی تباہی وبربادی کے علاوہ اور کچھ نہیں چہ جائے کہ ان پڑھوں اور جعلی ڈگری کے حامل افراد کی بھرتی محض اس لئے کی جائے کہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے یا مقتدراداروں سے ہوتو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ادارے تنزلی کی جانب جائیں گے یا ہرآنے والادن انکی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوگا۔

            میرے نزدیک کوٹا سسٹم میں بھی اتنا عیب نہیں تھا جتنا اسے بد شکل و بدصورت بنا کر رکھ دیا گیا۔ کوٹے میں شہری اور دہی کا فرق اپنی جگہ لیکن کیا اس فرق کے ساتھ یہ بھی ضروری تھا کہ قابلیت اور اہلیت کو خاطر ہی میں نہ لایا جاتا۔ کوٹہ بے شک جاری رہتا لیکن کم از کم اس نسبت اور تناسب کو سامنے رکھ کر جو جو بھی چناؤ کیا جاتا اس میں تو اہلیت کو معیار بنا لیا جاتا، تاکہ جو فرد جہاں سے بھی چناجاتا محض قابلیت کے معیار پر چناجاتا لیکن ایسا کرنے کی بجائے وہاں بھی سفارشیں، سیاسی مصلحتیں، مقتدراداروں کی پوجاپاٹ اوررشوت کے بازار گرم رہے جس کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔

            حالات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ملک جس تباہی و بربادی کا سامنا کر رہا ہے اس سے جتنی بھی چشم پوشی کی جائے، مفر ممکن نہیں۔ اس ساری تباہی و بربادی کے پیچھے جو بھی وجہ ہمارے سامنے آئے گی وہ صرف اور صرف اہلیت کو نظرانداز کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ ہوگی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں “کوٹا سسٹم” بنایا گیا۔ اس کوٹا سسٹم کی زد میں جس طبقہ آبادی کو ہدف بنایا گیا، پورا پاکستان اس سے خوب واقف تھا بھی اور ہے بھی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ “پورے پاکستان” نے اس کے خلاف کسی بھی سطح پر کوئی صدائے احتجاج نہ پہلے بلند کی اور نہ آج کسی جانب سے اس سسٹم کے خلاف کوئی رد عمل پایا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کیلئے لئے اس حقیقت کو حقیقت پسندانہ انداز میں مان بھی لیا جائے تب بھی پورے پاکستان سے راقم یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا جس طبقہ آبادی کو پیچھے دھکیل کر مقامی آبادی کو بنا اہلیت اوپر لانے کی کوشش کی گئی وہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا سبب بنی؟۔

اس کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ کیجئے کہ جس آبادی کے طبقے کو معاشی دوڑ سے پیچھے کرنے کی کوشش کی گئی کیا وہ طبقہ معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گیا؟۔

اہلیت کا خون کرکے یہ تو ضرور ہوا کہ آبادی کا وہ طبقہ جس کیلئے “قانونی” کوٹہ سسٹم آج تک موجود ہے، وہ سرکاری محکموں سے باہر تو ہو گیا لیکن وہ سارے پرائیویٹ شعبے جو سرکاری ملازمتوں سے بھی کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہوتے ہیں، اسی آبادی کے زیر اثر آگئے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اسی طبقے پر مشتمل وہی شہر اب بھی پاکستان کو سب سے زیادہ آمدنی فراہم کرنے والا شہر کہلاتا ہے اور اسے اب بھی “منی پاکستان” کہا جاتا ہے۔ ایسی ساری منفی سوچوں کا نتیجہ جس میں پاکستان ہی میں بسنے والی ایک آبادی کو نشانہ ہدف بنانے کی کوششوں کا تسلسل آج تک جاری ہے، اس سے پاکستان کی حکومتیں ہی نہیں، پاکستان کی آمدنی اور کارکردگی کو بھی دھچکا پہنچتا رہا اور اس کے مقابلے میں پرائیویٹ سیکٹر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا اور اب یہ عدم توازن پاکستان کی معیشت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔

آج ہر آنے والی حکومت سرمایہ داروں کی کسی بھی کرپشن کو روکنے، ان کو ملک کی دولت لوٹنے جیسے اقدامات سے باز رکھنے میں اسی لئے ناکام ہے کہ اس کے اپنے محکموں میں پاکستان کے سارے نالائق ترین افراد پھرتی ہیں، ان میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اپنے محکموں کو کامیابی کے ساتھ چلا سکیں۔ وہ محکمے جن کے افراد کام نہ کرنے کی تنخواہیں اور کام کرنے کی رشوتیں لیتے ہوں وہ کسی سرمایہ دار کو کیسے آنکیں دکھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جتنی بھی اشرافیہ ہے ان کے آگے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت موجودہ حکومت، جس کا سب سے بڑا دعویٰ ہی لوٹی ہوئی دولت کو وصول کرنا تھا، وہ لوٹنے والوں کی لوٹی ہوئی دولت کو معاف کرنے پر مجبور نظر آرہی ہے۔

جب کسی ملک میں قابلیت اور اہلیت تذلیل بن جائے، اہل افراد کو نظر انداز کرکے ناہل و ناکارہ افراد کو سروں کا تاج بنادیا جائے، تعلیم اپنی اہمیت کھودے اور جہالت کو غلبہ حاصل ہوجائے، جہاں لوگوں کے مال و دولت پر راتوں رات قبضہ کرلیاجانا جرم کی بجائے خوبی اور اعلیٰ حکمت عملی شمار کی جائے، جہاں پولیس کو سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جانا فن کہلانے لگے اور جہاں نفرتوں کو پروان چڑھایا جائے اور محبتوں کا قتل عام کیا جائے وہاں یہ خیال کرنا کہ وہ ملک اور قوم ترقی کرے گی اور وہ ملک قائم رہے گا ، مجزوب کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں