خارجہ پالیسی،مفادات کی پالیسی

پندرہ اگست ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے ایک ہوائی اڈہ پر انڈیا سے آنے والی فلائٹ کے تمام مسافروں کے ہاتھوں ہندوستانی جھنڈا اور گلے میں ترنگا ہار پہنا کر استقبال کرنا اس بات کا عملی ثبوت تھا کہ امارات اور ہندوستان کے خارجہ تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں وگرنہ ایک دن قبل ہی یوم پاکستان کے موقع پرایسا کوئی منظر کسی اماراتی ائرپورٹ پر دیکھنے کو نہیں ملا،اس واقعہ کی چند روز بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ”آرڈر آف زید“بھی عطا کیا گیا،جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے خارجہ تعلقات کی موجودہ صورت حال کیا ہے،یا ہندوستان کی خارجہ پالیسی عرب ممالک کے ساتھ کس مقام پر کھڑی ہے۔بات ہرگز یہ نہیں کہ ائر پورٹ پر جھنڈیوں اور ہار سے استقبال کیوں کیا گیا یا پھر مودی کو اعلی ترین سول ایوارڈ سے کیوں نوازا گیا وہ اس لئے کہ اس سے قبل یہی ایوارڈ جنوری 2007 میں پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو بھی عطا کیا جا چکاہے،علاوہ ازیں اگر سعودی عرب کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ”آرڈر آف کنگ عبدالعزیز“ جو کہ 2016 میں نریندر مودی کو عطا کیا گیا تھا اس پر معترض ہوں تو بھی اس لئے مناسب نہیں ہوگا کہ ہمارے چھ پاکستانی جرنیل بشمول جنرل پر ویز مشرف،جنرل راحیل شریف،جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے دو سربراہ جنرل طارق مجید،جنرل زبیر محمود حیات،فضائیہ کے سربراہ ائر چیف مارشل سہیل امان اور نیول چیف ایڈمرل ذکااللہ پاک سعودی تعلقات کے استحکام کے اعتراف میں یہ اعلی ترین ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
اس پوری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ دور روں میں ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی کے سلسلہ میں کس حد تک آزاد اور خودمختار ہے گویا موجودہ دور میں کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی پرامن تعلقات کی بنیاد پر استوار نہیں کی جاتی بلکہ اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر اسے بنایا جاتا ہے۔یا آپ یوں کہہ لیں ملکوں کی خارجہ پالیسی میں اب جذباتیت،محبت،اخوت اور احساس کو عمل دخل کم کم ہی دکھائی دیتا ہے،دخل ہے تو تو صرف اور صرف مفادات کا،جتنے مفادات عزیز،بڑے اور جذباتیت سے عاری ہونگے تعلقات اتنے ہی مضبوط،مستحکم اور دیرپا ہونگے۔ یہ سب حقائق اپنی جگہ درست لیکن میری ذاتی رائے میں یہ سب کرنے کا مناسب وقت اور موقع نہیں تھا کہ جب پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرکے خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔ہمارے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم تک شب وروز مسئلہ کشمیر خصوصا آرٹیکل 370 اور A 35 کے خاتمہ کے بعد کشمیر کی آواز بن کر پوری دنیا کی توجہ اس مسئلہ کی طرف مبذول کروا رہے ہیں۔نہ صرف آواز اٹھائی جا رہی ہے بلکہ بین الاقوامی میڈیا اور طاقتوں کو پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی کی وساطت سے اقوام عالم کو جنرل اسمبلی کا اجلاس بلانے پر مجبور کر دیا۔اس مسئلہ پر جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا اور اس مسئلہ کے حل پر زور دینا اور اسے متنازعہ مسئلہ قرار دینا بلاشبہ مسئلہ کشمیر کے لئے ایک نیا موڑ ثابت ہو رہا تھا کہ ایسے میں ایک اسلامی ملک کا کہ جس کے تعلقات پاکستان کے ساتھ بھی بہتر اور مستحکم رہے ہیں ہندوستانی وزیر اعظم کو اعلی ترین سول ایوارڈ عطا کر دینا اس بات کا کھلم کھلا اظہار کے کہ ہماری خارجہ پالیسی اسلامی بھائی چارہ اور اخوت پر مبنی نہیں بلکہ سیاسی ومعاشی مفادات پر استوار ہے۔وگرنہ کچھ عرصہ تاخیر سے کام لے کر پاکستان کا خاموش ساتھ دیتے ہوئے کشمیر مسئلہ پر پاکستان کے موقف کو تقویت دی جا سکتی ہے اس سے دونو ں ممالک کا بھرم بھی رہ جاتا اور عالم اسلام کے ساتھ کا پیغام بھی دنیا کو چلاجاتا۔اسی تناظر میں اگر او آئی سی یا سعودی عرب کے کردار کا بھی جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ دو ایک روائتی بیانات کے بسیط کے ساتھ دنیا کے سامنے آنے سے گریز پا ہی دکھائی دیتا ہے۔جس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ممالک آجکل مفادات کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور اقبال کے فلسفہ اخوت کے بالکل برعکس کہ
اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیروجواں بیتاب ہو جائے
ہم ہیں کہ یک طرفہ اسلامی محبت،جذباتی رشتہ اخوت کی ڈور سے اپنے آپ کو باندھے ہوئے ہیں کہ اگر ہم ذرا سا ادھر اُدھر ہوئے محبت کی یہ ریشمی ڈور تار تار ہو کر بکھر نہ جائے۔ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا،یہ بات درست ہے کہ ہم اسلامی ممالک کے ساتھ عسکری شعبوں میں مددگارہیں،ثقافتی،مذہبی رشتہ سے بندھے ہوئے ہیں۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ ہم خدمات کے عوض معاوضہ وصول کرتے ہیں جبکہ ہندوستان مادی،معاشی اور کاروباری لین دین کرتا ہے جس کی وجہ سے ہی امارات کی خارجہ پالیسی مادیت پرستی اور کاروباری مضبوطی پر استوار ہو جاتی ہے۔یہ بھی فطری امر ہے کہ کاروبار اپنی جگہ اور تعلق اپنی جگہ۔ایسی صورت حال میں پاکستان کی وزارت خارجہ وداخلہ کو بھی اپنی پالیسیوں کی وضاحت کرتے ہوئے،اپنے مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی متعین کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ ہم جذباتیت کے خول سے باہر نکل کر مفاد پرستوں کے غول کا مقابلہ کر سکیں وگرنہ بنا بنایا کھیل ختم بھی ہو سکتا ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں