نادیدہ آنسو

مجھے لوگ جنت نظیر کہا کرتے تھے۔میری وادی سر سبز اور خدا کی نعمتوں سے مالا مال تھی پھر۔۔۔ہاں مجھے یاد ہے جب انڈیا اور پاکستان وجود میں آئے۔ظاہر ہے دونوں نے الگ تو ہونا ہی تھا کیونکہ دونوں الگ قومیں تھیں الگ نظریہ رکھتی تھیں ۔۔تو میرے پاس اختیار تھا کس کے ساتھ جاؤں میں نے اپنے چاروں طرف دیکھا۔۔سچی بات تو یہ ہے کہ میرے چاروں طرف مسلمان ہی مسلمان نظر آرہے تھے جو میری دھرتی پہ نماز پڑھتے تھے اللہ کا نام لیتے تھے بہت سکون تھا اور پوری امید یہی تھی کہ سب پاکستان کے ساتھ ملنے (الحاق) کو ہی ترجیح دیں گے۔ لیکن ایک مسئلہ تھا وہ راجہ ہری سنگھ تھا جس کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا ۔۔۔۔دل میں ایک دھڑکا لگا تھا لیکن پھر بھی امید تھی چلو بہت سارے مسلمان میرے ساتھ ہیں یقینا” ہم اپنے دل کی بات منوا کے رہیں گے۔

ظاہر ہے بھارت کے ساتھ مل کر میرے پیارے کشمیری کبھی اپنا مذہب نہیں بچا سکیں گے لیکن جب ہم نے ارد گرد کے لوگوں کو جمع کیا  تو راجہ ہری سنگھ کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا تو اس نے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ کیا اور ہندوستان سے الحاق کردیا ۔۔میں بھی تڑپامیرے ساتھی بھی یہی وقت تھا جب ہندوستان نے غاصبانہ قبضے کا آغاز کردیا میں نے اپنے ساتھیوں کو تسلی دی کچھ نہیں ہوگا ہم تم تو نہیں چاہتے نا ہندوستان کے ساتھ رہنا کوئی ہمیں مجبور نہیں کر سکتا ان شاءاللہ ایک دن ہم اپنی خودمختاری منوا کے رہیں گے اور آزادی حاصل کرکے رہینگے۔۔اس دن سے ہم نے اپنے اللہ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کے اس جد وجہد آزادی کا سلسلہ شروع کردیا۔ لیکن یہ کیا ہماری انتہائی خواہش کے باوجود بھارت ہمیں چھوڑنے پہ راضی ہی نہیں اتنی بڑی ریاست اس کے پاس ہے پھر کیوں وہ میری معصوم سی وادی کے پیچھے پڑ گیا ہے اپنی فوج یہاں بھیج دی اگر قصہ یہیں تک ہوتا تو برداشت کرلیتے لیکن میری آنکھوں نے تو وہ کچھ دیکھنا شروع کردیا جو کوئی دیکھے تو لہو کے آنسو روئے۔

بھارت وسائل کے بل بوتے پر ہمارے تمام ذرائع و وسائل پر قبضہ جمارہا ہے ۔اپنی مشرکانہ تہذیب بزور بازو ہم پہ مسلط کر رہا ہے۔ہماری تعلیم گاہوں ،یونیورسٹی  کالج مدارس کو نشانہ بنایا جارہا ہے،جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شراب کا عادی بنایا جارہا ہے،مسلمانوں سے تمام اسلحہ بحق سرکار ضبط کردیا گیا، مذہبی رسومات کو اپنی شان و شوکت کے ساتھ ادا ہوتے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں حکمران تو بکے اور بٹے ہوئےتھے جب نہتے مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت قدم اٹھایا تو خون کی ندیاں بہا دی گئیں، عورتوں پر مظالم پر تو میں خود آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔

پتہ نہیں کب یہ مسائل حل ہوتے پھر بھی امید کی ڈور بندھی تھی لیکن مودی سرکار نے اس کی بھی دھجیاں اڑا دی اور کھلی غنڈہ گردی سے میرا رہا سہا حق بھی چھین لیا پندرہ دن ہوگئے میں چیخنا چاہتا ہوں ۔۔نہیں میرے اوپر اور ظلم نہ کرو میرے بچوں اور جوانوں کو یوں قتل نہ کرو۔۔میری بچیوں کی یوں عزتیں پامال نہ کرو ۔۔میرے بوڑھوں کو یوں قید نہ کرو بھوکا پیاسا ان کو بند کردیا گیا ہے ۔۔باہر سے سارے تعلق توڑ دئے گئے ہیں ،میرا کلیجہ کٹنے لگتا ہے جب بچوں کی  رونے کی آوازیں گھروں سے آتی ہیں اور گھر کے مرد اور خواتین کھڑکیوں سے جھانکتے ہیں کہ شاید انکے لئے کچھ  کھانے کا بندوبست کرلیں لیکن باہر مسلح فوج کو دیکھ کر  کھڑکیاں بند کرلیتے ہیں اور وہ مسلح افواج فرصت میں انکے دروازوں اور کھڑکیوں پہ پتھر مارتے ہیں عورتوں کو تاکتے ہیں انکو کوئ روکنے والا نہیں۔سنا ہے عید الاضحی آئ تھی لیکن میری وادی میں صرف خواہشات کی قربانی ہوئی تھی۔۔۔

سب کی نظریں عالمی طاقتوں پہ تھیں لیکن انھوں نے بھی مایوس کیا لیکن ہم مایوس نہیں ہیں ہمارے حوصلے پھر تازہ ہوکے اٹھیں گے اپنے مسلمان بھائیوں یہ امید ضرور کرینگے

یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لئے

کھڑے رہوگے کب تک تماش بینوں میں

حصہ

جواب چھوڑ دیں