ایٹمی جنگ کا ہولناک انجام

گزشتہ روز امریکی تھنک ٹینک ”اسٹارٹ فور“ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جوہری صلاحیت کے حامل ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی ان دنوں عروج پر ہے جس کا آغاز نئی دہلی کی جانب سے غیرقانونی طور پر کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے ہوا، مسئلہ کشمیر پاک بھارت ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے“۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگوں کے نتیجے میں بے دریغ انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے، لاکھوں افراد مارے جاتے ہیں، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں۔ملکوں میں قحط پیدا ہو تا ہے اور صدیوں تک پسماندگی اُن کا مقدر بن جاتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ صورتحال دونوں ملکوں اور باقی دنیا کے لیے انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ دونوں ملک جوہری اسلحہ سے لیس ہیں، اور جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی مہم جوئی کے بعد حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں اس بارے میں سوچنا بھی دشوار ہے۔ جبکہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان اور میڈیا سے گفتگو میں ایٹمی ہتھیاروں کے پہلے استعمال کا عندیہ دیا ہے۔ جس کے جواب میں آرمی چیف پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہم مشرقی سرحد پر موجود خطرے سے پوری طرح واقف ہیں جس کا تعلق مقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال سے ہے، کسی بھی مس ایڈونچر یا جارحیت کو ناکام بنانے کیلئے پوری طرح تیار ہیں، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر گہری نظر ہے، پاک فوج کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی“۔ یہاں واضح رہے کہ آج تک دو جوہری طاقتوں کے درمیان کبھی جنگ نہیں ہوئی اس لیے ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری کا اندازہ بھی ممکن نہیں، لیکن اگر خدانخواستہ دو ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو اس کی ہولناکی کو بیان کرنے والا شاید ہی دونوں ملکوں میں کوئی رہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اگر جنگ ہوتی ہے تو وہ چاہے شروع غیر جوہری اسلحہ کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوئی ہو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات یقینا بہت بڑھ جائیں گے، اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے اور روکنا بہت دشوار۔ دنیا اس سے پہلے غیر جوہری دو عظیم جنگوں کو جھیل چکی ہے،جن کے مضر اثرات آج بھی کئی ملکوں کو جنگ کے نام سے تھرا دیتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں تین کروڑ اور دوسری جنگ عظیم میں چھ کروڑ لوگ مارے گئے تھے یعنی بیسویں صدی میں نو کروڑ کی آبادی کا صفایا ہو گیا تھا۔ جبکہ جوہری بم، کیمیائی بموں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ یہ ان سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف کیمیائی بموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہی مچا سکتے ہیں بلکہ جوہری بموں کے تباہ کن اثرات ان کے استعمال کے برسوں بعد بلکہ دہائیوں تک باقی رہتے ہیں۔ 1986 ء میں چرنیوبل میں ایٹمی حادثے کے بعد جو تابکاری نکلی وہ ہوا کے ساتھ سینکڑوں ہزاروں میل دور تک پہنچی تھی، چرنیوبل اور آس پاس کے شہروں کو تو خالی کرا یا ہی گیا تھا۔ لیکن، تابکاری کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں اگنے والی نہ سبزیاں کھائی جا سکتی تھیں اور نہ ہی گائے بکری کا دودھ پیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے واقعے کو چوہتر سال سے زیادہ ہو چکے ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ وہاں زندگی معمول پرآ گئی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا وہ قیمت جو ہیرو شیما اور ناکاساکی کے باسیوں نے دی، کیا ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے کسی شہر کے لوگ بھی وہ قیمت دیں؟ ایٹم بم امن قائم نہیں کرتے لہٰذا بہت ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنے والے اور دونوں ملکوں کے ذرائع ابلاغ، جوہری جنگ کے دور رس اثرات اور اس سے ہونے والے معاشی نقصانات سے پوری طرح آگاہ ہوں۔ خدا نخواستہ اگر ایک ہمسایہ ملک دوسرے ملک پر ایٹمی حملہ کرے توکیا اس کے ایٹمی حملے کی تابکاری کے اثرات سے خود اس کا اپنا ملک محفوظ رہ سکتا ہے۔ امریکی سائنس دان آئن سٹائن نے امریکہ کے ایٹمی پروگرام پر کام کیاتھا،دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ جناب! تیسری جنگ عظیم کیسی ہو گی؟ آئن سٹائن نے جواب دیا کہ تیسری جنگ عظیم کا مجھے پتہ نہیں لیکن چوتھی جنگ عظیم تلواروں اور ڈنڈوں سے ہوگی۔آئن سٹائن کے اس جواب میں ایک بہت بڑی بات پوشیدہ ہے کہ شاید وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم بہت بڑی تباہی لائے گی جس میں دنیا کے ایٹم بم رکھنے والے ممالک ایٹم بم کا استعمال کر سکتے ہیں اور یہی ایٹمی ہتھیار کئی ملکوں کا جغرافیہ بگاڑنے کا موجب بن سکتے ہیں اور وہ ایسی بربادیوں کی دھول میں اَٹ جائیں گے کہ پھر ان کے پاس علم ہوگا نہ فن، سائنس ہوگی نہ جنگ لڑنے کے سازوسامان اس لئے وہ لاٹھیوں سے آپس میں لڑیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت جو کشیدگی ہے اسے دور کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری پر بڑی زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں پر، کیونکہ دو جوہری ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کسی بھی قسم کا انتہائی اضافہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر منتج ہو سکتا ہے، جس کے تابکاری اثرات صرف ان ملکوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ دور دور تک جائیں گے، کیونکہ تباہی سرحدوں کو نہیں مانتی۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت جو جوہری ملک اور ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، یہ سوچ دل سے نکال دیں کہ ہمیں آپس میں کوئی جنگ کرنی چاہیے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی گئی اور پاکستان کی جانب سے اس پیش کش کا خیر مقدم کیا گیا، کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل وجہ تنازعہ کشمیر ہی ہے مگر بھارت اپنی ہڈدھرمی سے اس مسئلہ کے حل میں سنجیدہ نہیں، حالانکہ بھارت کے پاس پرامن مذاکرات کا یہ بہترین موقع ہے۔ لیکن شاید بھارت پرامن مذاکرات کی بجائے طاقت کے استعمال کا قائل ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی فورسز لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں۔لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ آگ اور خون کا کھیل ہے جس کا نتیجہ تباہی و بربادی ہے، بیوگی و یتیمی ہے، معذوری و مفلسی ہے خوشحالی ہرگز نہیں۔ بھارت کی جارحانہ سرگرمیوں اورجنگی جنون کے باعث برصغیر کی دو ایٹمی قوتیں عملاً ایک بڑی جنگ کے دھانے پرپہنچ چکی ہیں، اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ملکوں میں جنگ کی نوبت آئی تو پوری دنیا کا امن متاثر ہونا یقینی ہے۔
٭……٭……٭

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. جناب آپ نے لکھا ہے کہ ..” جس کا آغاز نئی دہلی کی جانب سے غیرقانونی طور پر کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے سے ہوا،” اس طرح تو آپ بھارت کی حمایت کر ہے ہیں
    اصل جملہ اس طرح بنتا ہے
    ” جس کا آغاز دلی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو غیر قانونی طور پر ختم کرنے سے ہوا،”

جواب چھوڑ دیں