نوشتہ دیوار پڑھو قبل اس کے کہ فاتحہ پڑھی جائے

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا جو بیان آج کے جسارت میں شائع ہوا ہے وہ سراسر مصلحت کا شکار نظر آتا ہے، خصوصاً ان کی وہ گفتگو جو انھوں نے میڈیا کے نمائندوں سے کی، اس کو پاکستانیوں کے دلوں کی ترجمان کہنا سراسر زیادتی ہوگی۔

جسارت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ “متحدہ عرب امارات کے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات ہیں لیکن وہ پاکستان کا ہمددر اور کشمیرتنازع پر ہمارے ساتھ ہے۔ امید ہے کہ یواے ای کشمیر تنازع پر پاکستان کو مایوس نہیں کرے گا نیز یہ کہ عالمی تعلقات کا معاملہ جذبات سے بالاتر ہوکر دیکھنا ہوگا”۔

جب سے کشمیر کے حالات نہایت سنگین ہوئے ہیں اس وقت سے تا حال حکومت کی ساری مشینری پاکستانی عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں لگی ہوئی ہے اور یہ قائل کرنے کی کوشش میں ہے کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے وہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر جذبات میں آکر قابو سے باہر ہوا جائے اور اپنے لئے کوئی بڑی مصیبت کھڑی کی جائے۔ یہ وہ کشمیر ہے جس پر 72 برس سے پاکستان اپنا حق جتا تا چلا آرہا ہے اور اس وقت پورے کشمیر میں جو آزادی کی تحریک چل رہی ہے اس کے پس پشت بھی پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کشمیریوں کی مسلسل حوصلہ افضائی ہے جس کی وجہ سے وہ بھارت سے بغاوت پر اتر آئے اور اپنی جان و مال، عزت و آبرو کی پرواہ کئے بغیر، کشمیر بنے گا پاکستان، کے نعرے لگاتے، پاکستان کے جھنڈے لہراتے میدان عمل میں کود پڑے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستان کی جانب سے گزشتہ 72 برس سے ان کی جانی، مالی اور اخلاقی مدد حاصل نہ ہوتی تو وہ آزادی کی جنگ تو ضرور جاری رکھتے لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق کی باتیں کرکے اپنی زندگی کو اتنا دشوار نہ بنالیتے۔ یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے وہ کشمیر جو پاکستان کے زیر تسلط ہے، وہاں کے کشمیری اگر آزادی کی تحریک چلائیں تو بے شک وہ کشمیریوں کیلئے ایک بڑا امتحان تو ہوگا ہی اور پاکستان تادیبی کارروائیاں ضرور کرے گا اس لئے کہ پاکستان نے اپنے حصے میں آئے کشمیر کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کشمیریوں کے حقوق کو اپنے پاکستانیوں سے مقدم رکھا ہے لیکن کیونکہ کشمیریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں، اس لئے شاید صرف “آزاد” رہنے کی رائے ان کیلئے کسی بہت بڑی آزمائش کا سبب نہ بنے لیکن اگر وہی کشمیری بھارت کا “ترنگا” لہراکر اس سے الحاق کا نعرہ بلند کرتے گلیوں اور سڑکوں میں نکل آئیں تو یہ انداز پاکستان کیلئےشاید ہی قابل قبول ہو اس لئے کہ ایسا سب کچھ بھارت کی جانب سے حوصلہ افزائی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوگا۔ اب ذرا تصور کریں کہ بھارت کے حوصلہ دینے کی وجہ سے پاکستان کے کشمیری (خدا نخواستہ) بغاوت پر اتر آئیں لیکن عین موقع پر بھارت ان کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائے تو ان پاکستانی کشمیریوں پر قیامت نہیں گزر جائے گی؟۔

آج جب 72 برسوں سے جاری مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی اخلاقی، جانی اور مالی مدد نے کشمیریوں میں یہ حوصلہ پیدا کیا کہ وہ پاکستان کا علم بلند کرکے “کشمیر بنے کا پاکستان” کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں کودے تو اچانک پاکستان نے اپنا ہاتھ جیسے ان کے سر سے اٹھائی ہی لیا۔ پاکستان کے ارباب اختیار نے بے شک ان کے سر سے ہاتھ اٹھالیا لیکن قوم شاید کشمیر پر اپنے حق سے دسبردار ہونے کیلئے تیار نہیں اور وہ یہاں تک غیظ و غضب میں ہے کہ اگر پاکستان مصلحت پسندی کی وجہ سے خود جنگ میں نہیں کودنا چاہتا تو عوام محاذ جنگ پر جانے کیلئے تیار ہیں۔ یہ وہی صورت حال ہے جو افغان وار کے دوران پیدا ہو گئی تھی۔ پاکستان افغانستان میں روسی مداخلت میں گھری افغان قوم کی مدد کیلئے مجبور تھا لیکن براہ راست جنگ میں کودنے سے یوں گریزاں تھا تاکہ جنگ کا دائرہ وسیع نہ ہوجائے اور دنیا کے دیگر ممالک کو جنگ میں کودنے کا موقع ملے۔ یہی صورت حال اب بھی ہے۔ بھارت کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے کشمیر میں ظلم و ستم کا ایک بازار گرم ہے اور خون پانی سے بھی ارزاں ہو کر رہ گیا ہے۔ ایسے موقع پر ہر پاکستانی مضطرب اور برافروختہ ہے اور وہ اپنے کشمیری بھائیوں کی اسی طرح مدد کیلئے تیار ہے جس طرح اس نے افغانیوں کی مدد کی تھی لیکن یہاں یہ امر بہت حیران اور مایوس کن ہے ہے کہ حکومت پاکستان اور پاکستان کی عسکری طاقت نہ صرف خاموش ہے بلکہ وہ مسلسل اس جدوجہد میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح پاکستانیوں کے بھڑکے ہوئے جذبات سرد پڑجائیں۔ وزیر خارجہ کا یہ بیان اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔

پاکستان کے عوام یو اے ای کی اس بات سے بھی شدید ناراض ہیں کہ وہ مودی جس نے کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کی ہوئی ہے اور ان کی عزت و آبرو کے در پے ہے اسے اپنے ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا کس بنیاد پر دیا ہے۔ ایسے موقع پر جب کشمیر میں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہو، بھارت کے وزیر اعظم کو ایوارڈ سے نوازنا بھارت کے ظالمانہ رویے کو درست قرار دینے اور کشمیریوں کے رستے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ یو اے ای کے اس رویہ پر تنقید کرنے کی بجائے وزیر خارجہ نے میڈیا کے نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ “دیکھیں جی، یو اے ای نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ بھی تو دیا ہے، مالی امداد بھی تو دیتا رہا ہے اور اب بھی پاکستان کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کے ہر ذمہ دار فرد کیلئے “بھیک” مل جانے کے بعد بھیک دینے والے کی ہر کڑوی کسیلی چینی کی گولی کیوں لگتی ہے؟، سچ یہ ہے کہ اس بات کا جواب غیرتمند ہی دے سکتے ہیں، پاکستان کے حکمران کبھی نہیں دے سکتے۔ یو اے ای کے رویے پر کسی خفگی کا اظہار کرنے کی بجائے وزیر خارجہ میڈیا کے نمائندوں کو قائل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عالمی تعلقات کا معاملہ جذبات سے بالاتر ہوکر دیکھنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارت کا موجودہ قدم قابل مذمت نہیں بلکہ لائق ستئش و تحسین ہت تو پھر بھارت نے جو کچھ کشمیر میں روا رکھا ہوا ہے، اس معاملے پر دنیا بھر کے مختلف پلیٹ فارموں پر شور و شر کی بھی کیا ضرورت ہے۔ جب ہر معاملے کو جذبات سے ہٹ کر ہی دیکھنا ہے تو پاکستان میں نہ تو ہیروئن کی، کوکین کی، چرس کی اور بھنگ کی کمی ہے اور نہ ہی “افاڈرین” کا فقدان تو کیوں نہ پوری قوم کو ان کے دحوئیں اور ٹھنڈے شربت کا عادی بنا کر سلادیا جائے۔

ایک جانب شاہ صاحب یو اے ای کے رویے پر نہ خوش نہیں ہیں تو دوسری جانب فرماتے ہیں کہ “بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھیجنے کے لیے آر ایس ایس کے غنڈے تیار کررہا ہے، اسلامی ممالک کے سربراہان اور اوآئی سی کومسئلہ کشمیر پر توجہ دینی چاہیے”۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کشمیر پر مسلمان کشمیریوں سے خون کی ہولی کھیلتے دیکھنے کے بعد بھی یو اے ای فرعون مودی کو اپنے ملک کا سب سے بڑا سول ایواڈ دے رہا ہو اور سعودی ارب بھارت سے 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہو اور صاحب کو ان کے ان رویوں سے دکھ بھی نہ پہنچے پھر کس توقع پر وہ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ مسلمان عرب ممالک کشمیریوں (پاکستانیوں) کے حق میں کوئی صدائے احتجاج بلند کریں گے۔ دنیا سے کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے کی امیدیں اور خود کا فرمان ہے کہ “پاکستان 11 نومبر کو کرتار پور راہداری کھول رہا ہے” کیا ایک کھلا تضاد نہیں۔ یہی وہ سارے انداز ہیں جو اس بات کی جانب واضح اشارہ ہیں کہ “کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے” اور جس معاملے کی پردہ داری ہے وہ پوری مسلم امہ اور خاص طور سے موجودہ حکومت کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں کو اگر پاکستانی قوم کے احساسات اور جذبات کو سمجھنا ہے تو جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی جماعتوں کی جانب سے نکالی جانے والی ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں میں شریک ہونے والے عوام کے سر گنے اور ان کے دل سے نکلتے ہوئے ان نعروں پر توجہ دے جو وہ گلی، کوچوں، بازاروں اور سڑکوں پر لگاتے پھر رہے ہیں۔ اگر آج اس پر توجہ نہ دی گئی تو آنے والا کل کوئی بھی ایسی شکل اختیار کر سکتا ہے جس  پر قابو پانا پاکستان کے طاقتور ترین ادارے کے بس میں بھی نہ رہے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نوشتہ دیوار جتنی جلد پڑھ لیا جائے اچھا ہے ورنہ ممکن ہے کہ لوگ ہاتھ اٹھا کر دعائے مغفرت پڑھنے پر مجبور ہوجائیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں