کراچی سے کچرا چی تک

ایک زمانہ تھا جب کراچی کی سڑکیں پانی سے دھلا کرتی تھیں۔ کیا واقعی؟؟ شاید میری طرح آپ کو بھی یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے یعنی پانی اس قدر وافر مقدار میں موجود تھا۔ 50 سے 70 کی دہائی میں لوگ اپنے ملک و عوام سے مخلص اور ہمدرد تھے۔ ان کو واقعی وہ سہولت فراہم کرنا چاہتے تھے جو عوام کا بنیادی حق ہے۔ پھر آہستہ آہستہ لو گ خود پسند صرف میں اور اپنے حق کے بارے میں سوچنے لگے۔ میرے کراچی کی وہ صاف ستھری سڑکیں،میدان پارک، لائبریری اور سنیما ایک ایک کرکے بکنے لگے اور ان کی جگہ شاپنگ سینٹر، پلازہ اور سب سے بڑے بزنس پرائیوٹ اسکول بن گئے اور پورے ملک سے لوگ کراچی میں آکر بسنا شروع ہوگئے۔ کراچی واحد شہر ہے جہاں آپ کو ہر نسل اور ہر قومیت پنجابی،سندھی،پٹھان، سرائیکی سب ملیں گے۔ یہ شہر سب کاہے مگر اس شہر کا کوئی نہیں کوئی والی وارث نہیں ایک لاوارث سی حیثیت ہو گی۔
میں سوچتی ہوں کہ کاش کراچی ہی دارلحکومت رہتا تو آج ہم بھی اسلام آباد جیسی حسین صاف ستھری گلیوں میں چہل قدمی کر رہے ہوتے۔ آپ نے اکثر خاندان میں ایک ناپسندیدہ بہو دیکھی ہو گی جس کا کام گھر کا کھانا بنانا دیکھ بھال اور نند شاپنگ پر جائے تو اسکے بچوں کو کھانا کھلا نا سب کرتی ہے۔مگر حرام ہے جو ساس نند کے منہ سے اس کیلئے کوئی تعریفی کلمات نکل جائیں۔ اسی طرح پورے ملک کو کراچی کھلائے پلائے، کما کما کر دے مگر بدلے میں صرف محرومی ملے، گندگی غلاظت ملے۔ بس یہی سسرالی نا پسندیدہ بہو جیسا سلوک کراچی سے کر رہے ہیں۔ نئی نئی حکومت آتی ہے اپنا پیٹ بھرا اور اکا ؤنٹ بھرا اللہ اللہ خیر سلا۔ عوام کب پوچھنے والی ہے۔کراچی سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر سب کو کھلانے والا اور سب سے زیادہ ساحل اور دو پورٹ رکھنے والا۔ اگر صرف ساحل پر ہی اچھے پکنک اسپاٹ بنا دیئے جائیں تو سیاحی پروگرام کے ذریعے زبردست کمائی دے۔ مگر کیا کریں کہ ایسی دشمنی کراچی کے ساتھ جیسے کہ سوتیلی اولاد ہو آگے کیوں بڑھنے دیا جائے۔
ویسے پاکستان کے اور علاقے ہیں جہاں خوب بارشیں بھی ہوتی ہیں اور ماشاء اللہ وہاں مسلمان بھی بستے ہیں اور ہاں بقرعید بھی منائی جاتی ہے مگر قربان جائیں سندھ گورنمنٹ اور میئر پر کہ وہ مہینوں بھر یہ باور کراتے ہیں کہ دیکھو ہم نے بھی قربانی کی اور پکے مسلمان ہیں۔ یہ دیکھو ہزاروں اوجڑی غلاظت اور تعفن یہ ہے ہماری قربانی کا پکا ثبوت واہ واہ۔ خدارا گورنمنٹ حکومت ہوش کے ناخن لیں۔ عوام بیچاری ان گندگی غلاظت اور ابلتے گٹر کی عادی ہو گئی ہے۔ لائٹ اور پانی کے بغیر گزار رہی ہے مگر جو سیاح اور ورکرزباہر ملکوں سے کراچی آتے ہیں وہ آکر یہاں کے کچرے دیکھ کر اپنے ملک جا کر کیا قصیدے بڑھتے ہونگے کیا کسی نے سوچاہے؟ کس قدر شرم کی بات ہے۔ گندی غلاظت، کچرے، گٹر ابلتے اور اوجڑی کا جو آتش فشاں پہاڑ جگہ جگہ نظر آرہے ہیں۔ ان سے اب لاوا نکلنا شروع ہو گیا جی ہاں لاوا۔ ڈینگی، ڈا ئریا، یرقان، ملیریا کا لاوا اور یہ لاوا پورے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ہر گھر میں مریض پا ئے جا رہے ہیں۔ کراچی اب کچرا چی میں بدل رہا ہے۔ کو ئی اس شہر کا پرسان حا ل ہے کوئی جو اس شہر کا وارث ہو۔
88کے اوائل کی بات ہے ذرا ذہن پر زور ڈالیں کیا آپ کو سانحہ اوجڑی کیمپ پنڈی یاد ہے۔ جس میں کتنی تباہی ہو ئی تھی۔ ہزاروں لوگوں کی موت۔ ایسے کیمپ اب کراچی میں بن گئے ہیں۔ جی ہاں اور جڑی کیمپ جو جگہ جگہ بآسانی آپ کو دیکھنے کیلئے دستیاب ہیں۔ ساتھ ہی روح کو تروتازہ کرنے کیلئے ایک مسحور کن خوشبو بھی آپ کا استقبال کر ے گی اور پھر اب تو یہ اوجڑی کیمپ بارش کے بعد پھٹنے لگے ہیں اور ان میں سے کانگو، ڈینگی، ڈائریا جیسے میزائل بھی پھٹیں گے اور نہ جانے کتنی تباہی آئے۔
تو کیا آپ اب بھی یونہی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہیں گے کراچی کو صاف کرنے اور کروانے کیلئے خدارا نکل کھڑے ہوں۔ کیا ہم اس تعفن بدبو زدہ ماحول میں رہنے کے اس قدر عادی ہوگئے کہ ہم صفائی اور پاکی طہارت کے معنی بھی بھول گئے۔ خدارا کراچی کو کچرا کنڈی بننے سے بچائیں۔ کراچی صاف ہوگا تو ہم بھی صحت مند رہیں گے۔ خدارا کراچی کو کچراچی میں تبدیل ہونے سے بچائیں۔
شاید کہ کسی کے دل میں اتر جائے میری بات۔

حصہ

3 تبصرے

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا ہے۔کوئ شہر دارلحکومت نہ بھی ہو تب بھی صفائ رکھنا حکومت اور شہریوں دونوں کی ذمداری ہے۔مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ ابھی تک ہم سب کو صاف رہ۔ا بھی نہیں آیا تو باقی ترقی تو دور کی بات ہے۔

جواب چھوڑ دیں