پاکستان میں معیار تعلیم

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم زوال پزیر ہے لیکن حقیقتاً یہ مسئلہ زوال پزیر ہونے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوچکا ہے۔ پاکستان میں نظام تعلیم کا زوال پزیر ہونا اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا غیر منظم و بے مقصد ہونا اصل مسئلہ ہے۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان نے نظام تعلیم پر سے اپنا کنٹرول دانستہ طور پر نہ صرف ختم کر دیا ہے بلکہ اسے مارکیٹ فورسز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بنیادی طور پر دو ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔ اول یہ کہ نظام تعلیم سے قومی تربیت کا عنصر ختم ہوگیا ہے اور دوئم یہ کہ تعلیم اس قدر مہنگی ہو گئی ہے کہ متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو گئی ہے۔ ایک واضح اور با مقصد قومی پالیسی کے تحت ہر سطح پر بچوں اور نوجوانوں کی فکری تربیت کسی بھی بیدار قوم کے لئے آگے بڑھنے میں ممدود و معاون ثابت ہوتی ہے۔ قوموں کی ترقی کے لئے تعلیم و تربیت جسم میں دوڑتے خون کی طرح ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان کا المیہ ہے کہ اس جانب عملی طور پر کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ تعلیم کے لئے ہمارے بجٹ کا حجم ثبوت کے طور پر کافی ہے۔ دوسرے ملکوں کے سیکولر اور اسلام دشمن نصاب کواپنا کر ہم اپنی نسلوں کو بے مقصد اور لادین بنا رہے ہیں اور ایسی نسل سے یہ توقع رکھنا کہ ان میں نظم و ضبط پیدا ہو گا یا یہ کہ وہ قومی مسائل کا ادراک اور قومی خدمت کا شعور رکھیں گے ایک خواب عبث ہے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ میٹرک اور انٹر بورڈ پر سے قوم کا اعتماد اٹھ چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ایک درجن سے زائد بورڈز اپنا اپنانصاب تعلیم لے کر تجارتی بنیادوں پر قائم اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہو چکے ہیں اور تعلیمی منڈی میں اب وہی لوگ داخل ہو سکتے ہیں جو اس کی قیمت چکانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ یہ بے مقصدیت کے مسافر پھر یہی سمجھتے ہیں کہ مادی دنیا ہی اصل دنیا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم اور ملازمت کے مواقع کے درمیان ربط کا فقدان ہے جس کی بناء پر بڑی تعداد میں نوجوان یورپ، جنوبی امریکا اور آسٹریلیا کا رخ کررہے ہیں۔ یہ نوجوان پاکستان کے لئے بھی کارآمد ہو سکتے ہیں اگر انہیں قومی سطح پر مرتب شدہ بامقصد تعلیم دی جائے۔ مگر افسوس اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ دروازہ بھی بند ہو گیا کیونکہ تعلیم اب ایک صوبائی معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔
پاکستان میں جب تک ہمارے مذہب اور ثقافت کے مطابق نصاب اور اپنا تیار کیا ہوایکساں نظام تعلیم نافذ نہیں ہوگا، ہمارا ایک مربوط اورمنظم طریقے سے ترقی کرنا ناممکن ہے۔ پاکستان کے تمام بورڈز کو توڑ کر نیا بورڈ بنانے اور مرکزی نظام تعلیم نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹر تک تعلیم مفت ہونی چاہیئے اور نصاب ایک ہونا چاہئے۔ غیر ملکی سلیبس پڑھنے والوں کے لئے ملک کی تمام جامعات میں داخلے کو ممنوع قرار دیا جائے۔ اگر حکومت عوام کے لئے مفت صحت اور مفت تعلیم کا انتظام کر دے تو پاکستان میں گھٹتے ہوئے مڈل کلاس کی تعداد میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ اس قوم نے کبھی ترقی نہیں کی جس کا نصاب تعلیم ان کی اپنی زبان میں نہ ہو۔ اس بات پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ آزادی کے 72 سالوں کے بعد بھی ہم اپنی قومی زبان اردو میں تعلیمی نصاب تیار نہیں کر سکے۔ جس کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقہ میں پایا جانے والا قیمتی ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔تعلیم کو پرائیویٹائز کرنے سے بھی تعلیم کا معیار گرا ہے۔ ملک میں تعلیم کو تجارت بنا لیاگیا ہے۔ اونے پونے سستے داموں رفاحی کاموں کے نام پر پلاٹ حاصل کرکے بڑے بڑے اسکول، کالج، یونی ورسٹیاں اور اسپتال قائم کر لئے گئے ہیں۔ بنیادی اور ابتدائی تعلیم کا اسٹرکچر اسقدر غیرمعیاری اور فرسودہ ہے کہ وہ بچوں میں تعلیم کے حصول کا شوق پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ سرکاری اورپرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت غیرمعیاری تعلیم کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا سفرجاری نہیں رکھ پاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے کبھی فیل نہیں ہوتے ہیں۔ مگر یہی بچے جب بورڈ کا امتحان دیتے ہیں تو ان کی اکثریت بڑی مشکل سے پاس ہوپاتی ہے۔ میٹرک، انٹر اور گریجویشن کے امتحانات کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں صورتحال خود بخود سامنے آ جائے گی۔ تعلیم کو کمرشلائز کرنے کی وجہ سے بھی غریب اور متوسط طبقے کے باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی دوڑ سے باہر ہوجاتی ہے۔ اس طرح اعلیٰ تعلیم صرف اور صرف طبقہ اشرافیہ کی پہنچ میں رہتی ہے۔ یہ طبقہ جن انسٹیٹیوٹ میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں تربیت کا فقدان ہوتا ہے۔اسی لئے شاید اربوں کھربوں کی کرپشن میں بھی یہی طبقہ اشرافیہ ملوث ہے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں