گر فردوس زمیں است۔(پہلا حصہ)۔

کہتے ہیں ہزار کلومیٹر سفر کرنا اور ایک ہزار کتابیں پڑھنا انسان کو برابر کا سکھاتے ہیں، بلکہ میرا تو ماننا ہے کہ سفر انسان کو مطالعے سے زیادہ ہی سکھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنی نشانیوں کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا اور فرمایا “عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر حق کھل جائے”۔(سورہ شوری)۔
اسی آیت کی بنیاد پر غلام جیلانی برق نے شہرہ آفاق کتاب “دوقرآن” تصنیف کر ڈالی، اور اسی کو اکبر الہ آبادی اس طرح فرماتے ہیں کہ:
سدھاریں شیخ کعبہ کو، ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا، ہم خدا کی شان دیکھیں گے
بلکہ میں تو پورے شرح صدر سے اس بات پر قائل ہو گیا ہوں کہ اپنے بچوں کو سستے اسکولوں میں داخل کروائیں، ان کی فیسوں کے پیسے بچا کر سال میں کہیں نہ کہیں کا سفر اپنی حثیت کے مطابق ضرور کریں۔ آپ بچوں کی تعلیم، کردار، تخلیق صلاحیتیوں اور ان کے سوچ کے دائرے کی وسعت میں حیرت انگیز تبدیلی محسوس کریں گے۔
یاد رکھیں سفر اس وقت تک سفر نہیں بنتا ہے جب تک اس میں انگریزی کا “suffer” شامل نہیں ہو جاتا۔ سفر کے نتیجے میں:
مرضی کا کھانا، پسند کا آرام اور مزاج کے لوگ نہیں ملتے۔
وسائل محدود ہوتے ہیں۔
ضروریات محدود کرنی پڑتی ہیں۔
بجٹ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
ساتھ چلنے والوں کا خیال کرنا پڑتا ہے۔
کئی جگہ انا کو مارنا اور رائے کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
موسم آپ کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔
حالات آپ کے موڈ کا خیال نہیں کرتے ہیں۔
منصوبہ بندی کی عادت بنتی ہے۔
کس وقت، کہاں، کب اور کیسے نکلیں گے، تو کس وقت، کہاں، کب اور کیسے پہنچیں گے؟
اور اسی طرح اپنے گھر کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے۔
یہ اسباق ، یہ تجربے اور مشاہدے دنیا کا کوئی اسکول، کالج، یونیورسٹی، امتحان، مقالہ اور مطالعہ نہیں دے سکتا ہے۔
مجھے اپنی جیب، پاکستان کی بے پناہ خوبصورتی اور حیران کن حد تک متاثر کردینے والی سرزمین ہی فی الحال اپنے لئے کافی محسوس ہوتی ہے۔ دو دفعہ ناران اور پھر سوات کے بعد کافی عرصے سے حسرت تھی کہ گلگت بلتستان یا کشمیر میں سے کسی جگہ ضرور جاؤں، بالآخر بڑی عید کی چھٹیوں میں یہ موقع نصیب ہو گیا۔
وقت اور بجٹ دونوں ہی مختصر تھے، اسلئیے گلگت اور ہنزہ جانے والوں کی عام ڈگر سے ہٹ کر اسکردو جانے کا پروگرام ترتیب دیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ میرے کزن حماداسلم بھی موجود تھے۔ جولائی میں وزیراعظم صاحب کے دست مبارک سے شروع ہونے والی کراچی تا راولپنڈی سرسید ایکسپریس سے عید کی رات 9 بجے روانگی کی امید لیے پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹرین حسب معمول “لیٹ” ہے۔ 9 بجے شب روانہ ہونے والی سرسید ایکسپریس رات 2 بجے روانہ ہو سکی اور نو گھنٹے تاخیر سے اگلی رات ساڑھے تین بجے راولپنڈی اسٹیشن پر پہنچی۔
میرا مشاہدہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت کے ہر آنے والے وزیر ریلوے شاید ٹرینوں کے اضافے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1947 سے لے کر آج تک کسی حکومت کو ریلوے ٹریک میں اضافہ کا خیال ہی نہیں آیا ،آج 74 سال بعد بھی بیچارے وہی ٹریکس ہر آنے والے وزیر ریلوے کی ریل گاڑیوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا نے پر مجبور ہیں۔
بہر حال رات راولپنڈی میں قیام کیا اور دوپہر 12:30 گلگت جانے والی بس میں سوار ہوگئے،تقریبا 19 گھنٹے بعد گلگت کے مرکزی شہر جٹیال پہنچے، وہیں اڈے سے کار ڈرائیور سمیت بک کروائی اور اسکردو کے لیے روانہ ہوگئے۔ اگر آپ گلگت بلتستان کے قدرتی اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے حسن اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اسکردو زندگی میں ایک دفعہ ضرور جانا چاہیے۔
اگرچہ راستے ابھی خاصے دشوار ہیں لیکن ان پر مسلسل کام چل رہا ہے اور شایددو ڈھائی سال بعد لوگ گلگت اور ہنزہ جانے کے بجائے اسکردو آنے کو ترجیح دیں۔ جب آپ گلگت بلتستان کے نقشے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو سب سے بڑا علاقہ آپ کو اسکردو ہی نظر آتا ہے۔ سنگلاخ، خوبصورت، سلیٹی رنگ کے ناقابل بیان ہیبت ناک پہاڑوں سے گھرے اسکردو میں آپ آتے اکیلے ہیں لیکن یقینا آپ کچھ ایسا ضرور چھوڑ جاتے ہیں جو آپ کو دوبارہ آنے پر مجبور کرتا ہے۔ وقت،سرمایہ اورمصروفیت بوجھ محسوس ہونے لگتی ہے۔
اس وادی میں کوئی پانچ جھیلیں اور کئی گاؤں ہیں لیکن “خپلو” سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔وقت کی کمی کے باعث ہم پانچ میں سے چار جھیلوں کو دیکھ سکے اور خپلو جانے کی حسرت بھی دل ہی میں لے کر واپس آگئے۔ ہم گلگت سے استور، اور پھر استور کی دشوار گذار گھاٹیوں سے ہوتے ہوئے “چلم چوکی” اور بالآخر “دیوسائی” پہنچے۔
“دیو سائی” سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ کی بلندی پر دنیا کا فطری اور قدرتی طویل ترین میدانی علاقہ ہے، آپ کو پورے علاقے میں جابجا صرف پہاڑ ہی پہاڑ نظر آئیں گے، یا پھرحسین وجمیل طریقے سے گھاس کی کٹنگ کرکے بچھائے گئے قالین۔ ہزاروں کی تعداد میں سینکڑوں رنگوں پر مشتمل دل کو چھو لینے والےقسم قسم کے پھول ہر طرف بکھرے پڑے ہیں۔
کئی سوکلومیٹر کے میدان میں آپ کو کوئی ایک درخت بھی نظر نہیں آتا۔ ایسا عجیب و غریب، دل، دماغ اور روح کو اندر تک سے متاثر کردینے والا منظر ہے کہ آپ کبھی دائیں، کبھی بائیں، کبھی سامنے اور کبھی پیچھے دیکھتے ہیں۔ نگاہ ہر منظر کو جی بھر کر دیکھنا چاہتی ہے لیکن دل چاروں طرف موجود مناظر کو چُرا لینے پر مُصر ہے۔
“دیو سائی” کے عین درمیان “شیوسر جھیل” کی موجودگی اس کے حسن کو چار چاند لگاتی ہے، تھوڑی ہی دیر میں کالے بادل، شدید ہوا اور موسلا دھار بارش نے منظر کو خاصہ رومانوی بنادیا۔ ہمارا یہ رومان اس وقت ٹوٹا جب ہمیں اپنا لگایا ہوا خیمہ اکھڑتا اور بارش میں بھیگتا محسوس ہونےلگا۔
موسم کے تیور دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اس جگہ کیمپ لگانا “آبیل مجھے مار” کے مترادف ہے، 16 ہزار فٹ کی بلندی پر سردی کی شدت بھی آپ خود ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے ڈرائیور کے مشورے سے دیو سائی میں ہی موجود ایک جگہ “کالا پانی” پر ہی خیمہ زن ہوگئے۔ رات کیا تھی قیامت کی رات تھی، شاید زندگی کی کسی رات کے صبح ہونے کا مجھے اتنی شدت سے انتظار نہیں ہوا جتنا اس رات کا تھا۔ کمبل کا بھی کہیں سے انتظام کر لیااور جتنا کچھ پہن سکتے تھے پہن بھی لیا لیکن سردی نے بھی قسم کھا رکھی تھی کہ “مجھے تو ہوکر ہی رہنا ہے”۔ صرف سردی ہی ہوتی تو شاید برداشت ہوجاتی مگر اس کے ساتھ ساتھ ہر چیز پر گیلےپن اور نمی نے رات آنکھوں میں ہی کٹوادی۔ میرا خیال ہے کہ دیو سائی کا نام شاید اس کے “دیو ” جیسے “سائز” کو دیکھ کر رکھا گیا ہوگا۔
ہم ہر منظر کو کیمرے کی آنکھ میں بسانے کی ناکام کوشش کرتے رہے، مگر شاعر سے معذرت کے ساتھ:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، کیمرے میں آسکتا نہیں
ایک بات کا مجھے اور احساس ہوا اور وہ یہ کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اور اعلی ترین کیمرہ بھی آپ کو صرف تصویر ہی دکھا سکتا ہے وہ احساس نہیں دے سکتا جو انسانی آنکھ بذات خود اس منظر کو دیکھ کر محسوس کر رہی ہوتی ہے۔
دیوسائی میں سب سے بڑی مشکل آکسیجن کی کمی ہے کیونکہ آپ سطح سمندر سے 16 ہزار فٹ کی بلندی پر ہوتے ہیں، اس لئے بہر حال آکسیجن آپ کو پوری نہیں مل رہی ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے آپ کو گھٹن محسوس نہیں ہوتی ہے لیکن لگتا ہے کہ کوئی آپ کا سر دونوں طرف سے پوری قوت سے دبارہا ہے بلکہ شاید کسی نے اپنی ہتھیلیوں کوپوری جان سےکنپٹی پر دبادیا ہے۔
دنیا کا بلند ترین میدانی علاقہ، شدید ہوا، ہر تھوڑی دیر سے بارش، انتہا درجے کی سردی، آکسیجن کی کمی، رات کو خیمے میں قیام اور دوسری طرف ہم کراچی والے جن کے لئے سردی کا مطلب گرمی نہ ہونا ہوتا ہے۔ بہر حال خدا خدا کرکے صبح ہوئی میں خود کو سنبھالتا اور لڑکھڑاتے قدموں سے بہتے چشمے کی جانب گیا، وضو کیا اور واپس آکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
سفر کی تھکن اور دیوسائی کے موسم نے ایسا نڈھال کیا تھا کہ ہم نے دوپہر کے بعد سے کچھ نہیں کھایا تھا اور ہم بھوک سے بے حال ہو چکے تھے۔ ہم نے سورج، دھوپ، دیوسائی کی بلندی اور ٹھنڈ کی آنکھ مچولی سے فائدہ اٹھا کر خود کو کسی حد تک گرم کر لیا تھا اور اب ہماری اگلی منزل “بڑا پانی ” تھا۔ (جاری ہے)

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں