ہماری اپنی تیاری کیا ہے؟

دشمن دشمن ہی ہوتا ہے اور وہ نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت روز اول سے ہمارا کا دشمن اور پاکستان مخالف رہا ہے اور نہ جانے کتنی مرتبہ وہ ہماری غفلت کا فائدہ اٹھا کر ہم پر حملہ آور ہوتا رہا ہے لیکن ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم ہر بار اس سے یہ توقع لگا کر بیٹھ رہتے ہیں کہ وہ جب بھی ہم پر کوئی وار کریگا ہمیں آگاہ کرکے کرے گا۔

1965 میں سیالکوٹ پر تاریخ کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ ہوئی۔ تاریخ انسانی میں آج تک ٹینکوں کی اتنی بڑی یلغار کسی بھی ملک نے کسی بھی ملک پر نہیں کی تھی۔ رات کی تاریکی میں بغیر کوئی اعلان جنگ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بغیر کوئی “امکان” جنگ پاکستان پر اتنا بڑا حملہ ہوا۔ کیا یہ بھارت نے پاکستان کو آگاہ کرکے کیا تھا؟۔ کیا لاہور کی سرحدوں کے اندر دشمن آگاہ کرکے داخل ہوا تھا کہ پاکستانیوں ہم “پھجے کے پائے” کھانے آرہے ہیں۔ کیا 70 سال سے “ایل او سی” کی خلاف ورزیاں بھارت پاکستان کو آگاہ کرکے کرتا رہا ہے؟۔ یہ تمام جارحیت بار بار ہمیں خواب غفلت سے جگا رہی ہیں لیکن ہم ہوش کے ناخن لینے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں اور ہر اس قسم کی بزدلانہ اور اوچھی حرکت پر شکوہ سنج ہوکر بھارت سے گلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ تو نے مارنا ہی تھا، حملہ کرنا ہی تھا یا نقصان پہنچانا ہی تھا تو کم از کم ہمیں جگا تو دیتا تاکہ ہم ہاتھ میں دھوکر، تازہ دم ہوکر اور کچھ کھا پی کر مقابلے کیلئے تیار ہوجاتے۔

کون نہیں جانتا کہ ہمارا دشمن ان بہادر دشمنوں سے نہیں جو للکار کر مقابلے پر آتا ہے اور نہ ہی اتنا اعلیٰ ظرف ہے کہ اعلان جنگ کرکے سرحدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ وہ جہاں جہاں بھی ہمیں سویا ہوا یا غافل پاتا ہے، حملہ آور ہوجاتا ہے اور جب تک ہم جواب کیلئے تیار ہوں، دم دبا کر راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔ جواب میں ہم بے شک ان کا یہ شک دور ضرور کردیتے ہیں کہ ہم اتنے غافل بھی نہیں تھے جتنا اس نے گمان کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کو ہم اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جتنا وہ ہمیں پہنچا چکا ہوتا ہے لیکن کم کم ہی ایسا ہوا کہ ہم نے دشمن کی سرگرمیوں پر اتنی بھرپور نظر رکھی ہو کہ اس کے کسی جارحانہ قدم اٹھانے سے پہلے ہی اس پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑے ہوں۔

خبروں کے مطابق بھارت لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کے ساتھ آبی جارحیت پر بھی اتر آیا ہے، سندھ طاس معاہدہ عملاً معطل کرتے ہوئے ہر قسم کی واٹر ڈیٹا شیئرنگ بند کر دی ہے اور لداخ ڈیم کے 3 اسپل ویز کھول دیے ہیں جس کے باعث دریائے ستلج اور سندھ میں  سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس وقت 4 لاکھ 40 ہزارکیوسک کا ریلا کوٹ مٹھن سے گزر رہا ہے جبکہ مزید2 لاکھ کیوسک پانی آج گنڈا سنگھ والا کے مقام سے پاکستان میں داخل ہوگا۔ تربیلا ڈیم ڈیڈ لیول پر پہنچ گیا۔ سندھ، پنجاب اورپختونخوا میں درجنوں دیہات اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں۔

بھارت کا اس طرح اچانک اور بغیر اطلاع دیئے دریاؤں کے بہاؤ کا رخ پاکستان کی جانب موڑدینا نہایت شرمناک اور سنگین جرم ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی حقوق کے معاہدوں کا بھی مذاق اڑانا ہے۔ ہستی بستی بستیوں پر اچانک قیامت ڈھانا اور لہلہاتے کھیتوں کھلیانوں کو اجاڑ کر رکھ دینا خلاف انسانیت فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ بھارت کی یہ درندگی اپنی جگہ لیکن کیا پاکستان کا اتنا غافل رہنا خلاف عقل نہیں؟۔ پاکستان اس وقت خود شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہے اور پورا ملک بارشوں کی وجہ سے شدید مشکلات میں گھرا ہوا نظر آرہا ہے۔ پاکستان کو اس بات کا بھی خوب علم ہے کہ بھارت میں بھی معمول سے زیادہ بارشیں ہو رہی ہیں اور ان کے کئی شہر سیلاب کی زد میں ہیں۔ پاکستان ہو یا بھارت، اس وقت دونوں ممالک کے دریا بپھرے ہوئے ہیں اور چھوٹے بڑے ڈیم پانی سے بھر چکے ہیں۔ ایسی سیلابی صورت حال میں پاکستان ہو یا بھارت، اضافی پانی کو ڈیموں سے خارج کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ڈیم زیادہ بھر جائیں تو ان کے پشتے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے جو بہت ہی بڑی تباہی و بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت کا پاکستان کو آگاہ کئے بغیر ڈیموں کے اسپل ویز کھول دینا اپنی جگہ ایک نہایت سنگین جرم سہی لیکن ایک دشمن کی ازلی فطرت کو جان لینے کے باوجود حفظ ما تقدم کے طور پر کوئی بھرپور قدم نہ اٹھانا اور متوقع حالات کے مقابلے کیلئے اپنی تیاری مکمل نہ رکھنے کو کیا کہا جائے گا؟۔

یہ تو دریاؤں کا معاملہ ہے جو کبھی بھی کوئی خطرناک صورت اختیار کر لیتے ہیں اور بعض اوقات بارشوں کے بنا بھی گلیشئروں کے اچانک پگھل جانے کی وجہ سے بڑی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ ہمارا عالم تو یہ ہے کہ عام بارشیں بھی اگر برس جاتی ہیں تو ہمارے شہر اور گاؤں ہماری غفلتوں کی وجہ سے دریاؤں، ندی نالوں اور جھیلوں کا منظر پیش کر نے لگتے ہیں اور ایسا صرف اور صرف ہماری اپنی غفلتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بارش کے پانی کی جتنی بھی گزرگاہیں ہیں ان کی روز کی بنیاد پر صفائیاں نہیں ہوتیں، وہ نہ صرف کوڑا کرکٹ سے بھردی جاتی ہیں بلکہ ان پر ناجائز تعمیرات پانی کی گزرگاہیں مسدود کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے پانی کناروں سے ابل پڑتا ہے اور بستیوں میں داخل ہو کر تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔ نئی نئی گزرگاہوں کی تعمیر کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاتا۔ کسی نئی بستی کو آباد کرنے سے قبل اس کے انفرااسٹرکچر کو اس طرح ڈیزائن نہیں کیا جاتا کہ پانی یا سیوریج کا بھرپور انتظام کر لیا جائے اور حد یہ کہ ہائی ویز تک اس لحاظ سے تعمیر نہیں کئے جاتے کہ بارش کی صورت میں پانی ہائی ویز کی ایک جانب سے دوسری جانب کہاں کہاں سے اور کتنی مقدار میں گزرے گا جس کی وجہ سے کئی کئی کلومیٹر کے ہائی ویز سیلابی ریلے میں تنکوں کی طرح بہہ جاتی ہیں۔

دشمنوں کا کام دشمنی سہی لیکن عقل مند مقابل وہی ہوتا ہے جو کاری وار سے کہیں پہلے اپنے آپ کو مقابلے کیلئے تیار رکھے۔ جنگ میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو سارے داؤ پیچ سیکھ کر میدان میں اترتا ہے۔ لہٰذا بار بار کا یہ کہنا کہ بھارت کی جانب سے فلاں فلاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی، فضول ہی ہے کیونکہ گزشتہ 70 برسوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے اور آئندہ بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ اپنی اوچھی حرکتوں سے باز آئے۔

بھارت کی جانب سے اس بات کی توقع ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کی جانب آنے والے دریاؤں کے پانی کو بالکل ہی بند کر دے۔ مودی اس سلسلے میں کئی بار کھل کھلا کر پاکستان کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور پاکستان کے لہلہاتی زمینوں کو بنجر کردینے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیم باندھنے کے جواز میں وہ بین الاقوامی عدالتوں میں یہی دلیل پیش کرتے رہے ہیں کہ پاکستان اپنی جانب آنے والے پانی کو سمندر میں بہادیتا ہے۔ اس کا یہ جواز غلط بھی نہیں۔ پاکستان نئے نئے ڈیم بنانے میں سخت ناکام ثابت ہوا ہے جس کی وجہ سے بھارت کے پاس پاکستان کا پانی روکنے کا جواز ہر وقت موجود رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ڈیم ڈیم کا بہت شور مچایا گیا اور اس کیلئے ہزار طریقے سے فنڈ بھی جمع کیا گیا۔ سمندر کے طوفان کی طرح اٹھنے والا یہ شور سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے۔ جب پاکستان پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو پھر سیلابی صورت حال میں یہی کچھ ہونا ہے جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت وقت دشمن سے شکوہ و گلہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو کیل کانٹوں سے لیس کرے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے اسباب کرے، یہی وہ واحد راستہ ہے جو ہر سال اور خاص طور سے سیلابی صورت حال میں پاکستان کے کھیتوں، کھلیانوں، ہستی بستی بستیوں اور دیہاتوں کو تباہی سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور خشک سالی کی صورت میں پانی کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے بصورت دیگر اسی قسم کی صورت حال ہمیشہ جنم لیتی رہی گی جو پاکستان جیسے غریب ملک کیلئے غریبی میں آٹا گیلا کرنے کے مترادف ہو گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں