٭…کشمیر کی تاریخ، مظالم اور حل…٭

کشمیریوں پر مظالم کی حد ہوگئی ہے ۔ بھارت نے اس کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اپنے ملک کا حصہ قرار دیا ہے۔ دوسری جانب بزرگ کشمیری حریت رہنماسید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ بھارت تاریخ کا سب سے بڑاقتل عام کرنے والا ہے لہذا ہمیں بچایا جائے۔
کشمیر یوں کی حق خودداریت کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر آگ میں مسلسل جل رہا ہے۔ بھارت بندوق کے بل پر اسے اپنا حصہ قرار دیتا ہے جب کہ پاکستان کا واضح موقف ہے کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ اور شہ رگ ہے۔ یہ جنت نظیر ہے۔ جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کا نقشہ (جو نام نامی محمد ﷺکے مشابہ ہے) نامکمل ہے۔
۱۹۴۷ء میں بھارت کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر گیا جس پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار دیا کہ وہ اپنی نگرانی میں غیر جانب دارانہ استصواب رائے سے اس مسئلہ کو حل کریں گے۔ عالمی ادارے کے اس وعدے کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر انتخابات کا وعدہ پورا نہ کیا گیا۔ جس کا فائدہ اٹھاکر بھارت اپنے سابقہ موقف سے ہٹ گیا اورکشمیر کو اسے اپنا حصہ قرار دیدیا۔۱۹۴۸ء سے ۱۹۸۹ء تک کشمیری عوام نے اپنے جذبات پر قابو رکھااور آخروقت تک پرامن طریقے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ ہونے کے انتظار میں رہے اور کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔ مگر یہ برداشت آخرکب تک ہوتی۔ پورے بیالیس سال گزرچکے تھے اور ایک نئی نسل جوان ہوچکی تھی۔ جذبہ جہاد سے سرشار ان نوجوانوں نے بالآخر ہتھیار اٹھا لیے اور اپنے حق خودداریت کا مطالبہ کیا ۔جس کے بعدبھارتی فورسز کے مظالم کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں لاکھوں نہتے بے گناہ شہری اپنے جانیں گنوا بیٹھے۔ آزادی کی اس جنگ کو چھڑے ۳۰ سال ہوچکے ہیں۔

بھارت اپنی آٹھ لاکھ افواج کے ذریعے قبضہ رکھ کر مسلسل شہریوں کو ذیادتی کا نشانہ بنارہا ہے ۔ کشمیر کے عوامی، سیاسی اور صحافتی ذرائع کے مطابق اس کھلی جارحیت کے نتیجے میں ترانوے ہزار سے زائد شہری شہید ہوچکے ہیں۔(بھارتی وزارت داخلہ نے یہ تعداد اڑتالیس ہزار ظاہر کی ہے) تقریبا ایک لاکھ دکانیں اور مکانات تباہ کردی گئی ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ۴۴۱،۱۰۷ یتیم اور ۶۷۴،۲۲ بیوائیں اور ایک لاکھ سے زائد دیگر لوگ غائب ہوچکے ہیں۔بھارتی افواج نے چودہ ہزار سے زائد عورتوں کی حرمتوں کو پامال کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بارہ ہزار کشمیریوں کو اذیت رسانی کا نشانہ بناکر ہمیشہ کے لیے اپاہج اور ناکارہ بنادیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ اعداد و شمار ۲۰۱۲ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کا رویہ بانسری بجانے والے گلوگار کی مانند سرد ہے۔ کشمیریوں کی آہ و فغاں اور آئے روز دل چیردینے والی ویڈیوز کے وائرل ہونے سے پاکستانیوں اور خود انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے رہنمائوں میں غم و غصے اور اظہار یکجہتی کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے۔ نوجوان طبقہ جذبہ جہاد سے سرشار کشمیر کی آزادی کی خاطر پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر الشمس اور البدر کی یادیں تازہ کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ دنیا بھر سے کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے پیغامات آرہے ہیں۔ اس سب کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں کے لب ہنوز سلے ہوئے ہیں۔ ملک کے کرتا دھرتا اندرونی مسائل، سیاست، ۱۴ اگست کو پروگرامات کرنے ، ۱۹ توپوں کی سلامی پیش کرنے، ڈی ایچ اے اور دیگر ہائوسنگ اسمیں چلانے میں مصروف ہے۔ ایسی صورتحال میں نوجونوں کا بپھر جانا اور کوئی بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کرنا خلاف توقع نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ مسئلہ کشمیر پر اپنا دوٹوک موقف بھارت ، اسرائیل اور امریکہ کے سامنے رکھتی کہ مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ اقوام متحدہ کو واشگاف الفاظ میں کہہ دیا جائے کہ وہ مسلم ممالک خصوصا پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔ جس کا واضح ثبوت ۷۱ سال گزرجانے کے باوجود خود اپنے فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جانا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر پر یکساں موقف رکھتی ہیں، ان سب کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کن بات کی جائے۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

بلاگر سیف اللہ قاضی ، ماہنامہ بزم قرآن کراچی کے مدیر ہیں۔

٭…٭

حصہ

1 تبصرہ

  1. ماشاءاللہ سیف اللہ قاضی بھائی بہترین لکھاری ہیں انھوں نے بہت اچھا موقف پیش کیا ہے