حجاب  

دنیا میں ہر شخص نے حجاب اوڑھ رکھا ہے۔ تاجر، ادیب، ملا، پنڈت، افسر، ملازم، دوکاندار، خریدار، سیاستدان۔ کیا یہ سب لوگ بظاہرجیسے نظر آتے ہیں حقیقتاً ویسے ہیں؟ یہ سب لوگ محبت،خلوص، ایمان اور سچائی وغیرہ کے حجاب اوڑھ کر نفرت، ریاکاری اور جھوٹ کے کھیل کھیلتے ہیں لیکن ان کے حجابوں نے ان کے عیوب کو ڈھانپ رکھا ہے۔

انسانی چہرہ بجائے خود ایک حجاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھانکتا ہوا نظر بھی آجاتا ہے۔ اندر کا فرشتہ تو اکثر چہرے پر ہی ملتا ہے۔ کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعویٰ کرسکے۔ انسان دوسروں کے لئے تو حجاب میں ہے ہی۔ خود اپنے لئے بھی وہ حجاب میں ہے۔ کوئی انسان آج تک خود کوپوری طرح نہیں دیکھ سکا، نہ ہی تاحال کوئی ایسا آئینہ دریافت ہو سکا ہے جو انسان کے اندر کے سارے بھید اس پر کھول سکے۔

سطح سمندر کا پانی بھی دراصل ایک حجاب ہے جس نے اس کے اندر کی ایک پوری آباد دنیا کو چھپا رکھا ہے۔ پھر یہ دھرتی بھی ایک حجاب ہے جس کے اندر چھپے ہوئے پُر اسرار خزانے تمام تر معدنی اور آتش فشانی دریافتوں کے باوجود ابھی تک حجاب میں ہیں۔ اس سے بھی آگے دیکھیں تو یہ پوری کائنات ہی ایک حجاب ہے ،جس کے عقب میں خالقِ کائنات کا مسکراتا ہوا، اَن دیکھا حسن ہے۔ اس کائناتی حجاب سے جھانکتے ہوئے چاند،سورج، کہکشائیں اور کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں ستارے، اسی حجاب کے عقب میں موجود ازلی حسن کی ہلکی سی جھلک دکھا کر ہمیں بے تاب کرتے رہتے ہیں۔

حجاب معلوم کے جہنم اور نامعلوم کی جنت کے درمیان عالمِ برزخ ہے۔ حجاب کی پُراسراریت ہمارے تجسّس کو بڑھاتی ہے۔ حجاب اوڑھنے والا خود ہی سب کو نہیں دیکھ رہا ہوتا، دوسرے بھی اس کی موجودگی کا لطیف احساس رکھتے ہیں لیکن موجودگی کے اس احساس کی لطافت اس اسرار کے ساتھ بندھی ہوتی ہے کہ وہ حجاب کے باعث دکھائی دے کر بھی دکھائی نہیں دے رہا ہوتا۔ کسی شے یا شخصیت کا ایک حجاب ہٹائیں تو اندرسے ایک اور جہانِ حیرت ایک اور حجاب سے جھانکتا نظر آئیگا۔ پھر اس حجاب کو ہٹائیں تو ایک اور حجاب اور ایک اور جہانِ حیرت و تجسّس! اسی لئے ادب میں معلوم کی دریافت ایک احمقانہ فعل ہے یا کم از کم سطحی عمل ہے جبکہ نامعلوم کی دریافت ہی اصل تخلیقی سچائی ہے۔

انسانی جسم بھی ایک حجاب ہے جسے روح نے اوڑھ رکھا ہے۔ روح جسم سے نکل کر فنا نہیں ہوتی بلکہ موت کا حجاب اوڑھ کر اس میں زندگی بن کے دھڑکنے لگتی ہے۔ زمانے کی ماہئیت پر سنجیدگی سے غور کریں تو ماضی سے مستقبل تک زمانہ حجاب اوڑھے نظر آتا ہے۔

ڈپلومیسی کا حجاب آج کل بہت عام ہے۔ عام زندگی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر شعبۂ حیات میں اس حجاب کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔ اس کے رواج سے پرتکلف اخلاقیات کا فروغ ہو رہا ہے۔ بعض سر پھرے اسے منافقت قرار دیتے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نقصان سر پھروں کا ہی ہوتا ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی کا حجاب اوڑھ کر لوگ بڑے بگڑے کام بھی ٹھیک کرالیتے ہیں۔ یہ ایسا خوبصورت اور دلآویز حجاب ہے جو کسی بھی طرح کے بڑے سے بڑے اور اصول پرست رہنما کو بھی مغلوب کرلیتا ہے۔

دبیز حجاب جب کسی معقول انسان کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ عاشقِ زار بن کر محلے کے شرفاء کے لئے متعدد مسائل پیدا کردیتا ہے لیکن جب یہی حجاب کسی ادیب کی عقل پر پڑتا ہے تو وہ بے سر و پا نظمیں یا مضمون نما خط قسم کی چیزیں لکھ کر اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

جواب چھوڑ دیں