کشمیر کے موجودہ حالات،ہمارے لیے سوچنے کا مقام

ٓکشمیر کے حالات کی طرف بروقت توجہ نہ دینے،فوری پیش رفت نہ کرنے اور اسے ہنسی مذاق بنائے رکھے جانے والوں کے لیے کشمیر کے موجودہ حالات ایک سبق اور سوچنے کا مقام ہے۔کشمیر پر بھارت 72سال سے ناجائز قابض ہے۔اتنے طویل عرصے میں پاکستان اور اقوام عالم کا اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لینا ایک لمحہ فکریہ ہے۔کشمیر پر پاکستان کی سیاسی وسفارتی حمایت اپنی جگہ،مگر اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے کشمیر آج پوری دنیا کے لیے”فلش پوائنٹ“ بن چکا ہے،جو کشمیر یوں کی تمام تر صورتحال سے آگاہ،ان پر قابض بھارتی فوج کے مظالم سے واقف،مگر خاموش تماشائی کا کردار نبھارہے ہیں۔دنیا کے منصفو!……سلامتی کے ضامنو!……کشمیر میں بہتے لہو کا شور سنو۔دنیا کشمیر سے جان بوجھ کر آنکھیں پھیرے اور کان دور کیے ہوئے ہے،سارے مظالم دیکھ بھی رہی اور کچھ کہہ بھی نہیں رہی۔
کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم پر بروقت اقدامات نہ کرنے کے نتیجے میں آج ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ بھارتی من مانیاں انتہا کو پہنچ چکی ہیں،کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور سفاکیت کا ایک بازار گرم ہے، بچوں،بوڑھوں،عورتوں،جوانوں کی پیلٹ گنز سے بینائیاں چھینی جارہی ہیں،عورتوں کی عصمت دری،اغوا،گمشدگی کے واقعات بھی ہورہے ہیں،سدباب اب کوششوں سے بھی نہیں ہورہا،وجہ ہماری نالائقیاں،
کم ہمتیاں،معاملے کو بروقت حل کی طرف نہ لیجانا۔ ہمسایہ ملک بھارت سے سابقہ حکمرانوں کی گہری دوستیاں اورموجودہ حکومت کی حد سے زیادہ مہربانیاں ہمیں اس مقام پر لے آئی ہیں کہ آج ہمیں اپنا سب کچھ ”ڈوبتا“ نظر آرہا ہے،آج ہماری کمزوریوں کے باعث بھارتی جارحانہ حرکتوں پرہماری چیخیں اور واویلے دیکھنے والے ہیں،ہماری درخواستیں،خطوط،مذمتیں اور نوٹس نرالے انداز لیے ہوئے ہیں،سب جانتے ہوئے بھی کہ یہ او آئی سی،اقوام متحدہ،سلامتی کونسل کے ادارے سب بے کار ادارے ہیں،ہمارے کسی کام کے نہیں، سب یہودونصاریٰ کے دفاع کے لیے بنے ہوئے ہیں،جنہیں ہم سے کوئی سروکار نہیں ِجن کا حقیقی جھکاؤہماری طرف نہیں اور نہ ہی وہ ہمارے مفادات و تحفظات کے امین،پھر بھی ہم ایک”شریف“ بچے کی طرح ان کے سامنے بیچارگی کے عالم میں ان سے مدد مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں،ان کے آگے گڑگڑا رہے ہیں،اپنا رونا رو رہے ہیں،ایک آہ وبکا اور شورو غل مچائے ہوئے ہیں۔شاید کہ یہ سوچ کر کہ یہ ہماری مدد کو آئیں گے،ہمارے حقوق کی جنگ لڑیں گے،ہمارے مفادات کا تحفظ کریں گے،انڈیا کو اس کے ناپاک ارادوں سے روکیں گے،کشمیر میں بھارتی سنگین خلاف ورزیوں پر بھرپورایکشن لیں گے،تو یہ ہماری سب سے بڑی بھول اور خام خیالی ہے۔ہم ماضی کی طرح لاکھ جتن کرلیں،یہ ہماری کوئی بھی مدد نہ کریں گے،ہمارے کسی کام نہ آئیں گے، اس لیے کہ یہی تو وہ ذمہ داران ہیں جو کشمیر میں اب تک آگ لگائے ہوئے اور اس کو مسلسل سلگائے ہوئے،جن کے سامنے ہم مذمتیں کر رہے،جن کو خطوط اوردرخواستیں لکھ رہے،جن کو ٹیلی فون کررہے،یہی تو ہماری اور کشمیر کی جڑوں میں بیٹھے اب تک اس مسئلے کو ہوا دئیے ہوئے،بھارت ان ہی کی شہ پر ہی تویہ سب کھیل رچا رہا،سارا ڈرامہ کیے ہوئے،یہ اسٹیج ڈرامہ جو اب جاکرکشمیر میں چل رہا،اس کے روح رواں کوئی اور نہیں،یہی حکومتیں اور ادارے ہیں،جن سے ہم فریاد کررہے،جن سے ہم کچھ بہتری کی امید لگائے بیٹھے ہیں،یہ کھیل جو کشمیر میں رچایا جا رہا ہے،اس کھیل کے ایجاد کنندہ کوئی اور نہیں،یہی چند ممالک ہیں جو پس پردہ چھپے ہماری پیٹھوں میں چھریاں چلا رہے ہیں اور ہاتھوں میں مرہم پٹی پکڑے ہمارے زخم سہلانے کی بجائے مزید بڑھارہے ہیں،ان کی وابستگیاں ہمارے ساتھ نہیں،بھارت کے ساتھ ہیں،یہی وجہ ہے کہ بھارت کشمیر میں انتہائی دیدہ دلیری سے اپنا منصوبہ”گریٹر بھارت“پھیلا رہا اور اس کی تکمیل میں مصروف عمل،جسے کوئی بھی روک نہیں سکتا،اس لیے کہ جنہوں نے اسے روکنا ہے، پس پردہ وہ خود ہی اس کی رونقیں بڑھائے ہوئے،دل میں شاداں،اوپر سے مذمتی بیانات دے رہے ہیں،سارا کھیل تماشا انجوائے کرتے بھارت کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں،یہ اچانک راتوں رات 35 A/370ایکٹ کی منسوخی اور کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے جیسی حرکتیں ایسے ہی نہیں ہے،اس پر برسوں کام چلا،اب عمل ہوا،جو صہیونی قوتوں کی ایک منشاء اور خواہش پر مبنی اقدام ہے اور یہودی ایجنڈے کی تکمیل و تائید کا حصہ۔بھارت کی یہ پھرتیاں کوئی ایسے نہیں ہیں،حادثہ صدیوں پرورش پاتا،یکدم نہیں ہوتا والی بات ہے۔

ظل الہیٰ،جس سلطنت کی حفاظت ہم مردوں کی طرح نہیں کرسکے،اس پر اب ہمیں عورتوں کی طرح آنسو بہانے کی ضروت نہیں،سب رونا دھونا چھوڑ کرحالات کو دیکھنا،پرکھنا ہوگا۔

اب حالات اس طرف نہیں جارہے کہ ہم جدید اسلحہ سے لیس،ایٹمی ملک ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے سامنے گڑگڑائیں،روئیں،اپنی حالت بیان کریں،بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بار پھر27 ٖفروری کی یاد کو تازہ کرکے ان امن دشمنوں کو ایک واضح پیغام دیں کہ ”دشمن لاکھ برا چاہے،اللہ نہ چاہے تو کچھ نہیں ہوتا“ اور ہاں ایک اوربات،کشمیر مذاکرات سے آزاد نہیں ہوگا،جب بھی ہوگا،ہندوستان کی مرمت سے ہوگا۔کارگل کے محاذپر 37000 بھارتی فوج کو چھوڑنا،وہ وقت ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا،جو ہم نے ضائع کردیا،ورنہ آج کشمیر آزاد ہوچکا ہوتا اور کشمیری سُکھ کے ساتھ آزادی کاسانس لے رہے ہوتے مگر افسوس ہمارے بزدل حکمرانو ں کی وجہ سے ہم یہ موقع کھو بیٹھے۔کوئی مانے یا نہ مانے،مگر حقیقت یہی ہے۔آج ہمارا حال غیروں سے بھی ابتر ہے کہ جس پر دنیا ہمیں دیکھے،ہماری کمزور و پتلی حالت پر مسکرا رہی،ہمیں زخم بھی دے رہی اور ہاتھوں میں مرہم پٹی لیے ہمارے زخم اور گہرے بھی کیے جارہی ہے کہ بعد ازاں جس کا علاج ناممکن ہوجائے اور ایسا ناسور بن جائے کہ جس سے نپٹنا مشکل ہوجائے،ہمارے خیر خواہ کا بھی روپ دھارے ہوئے ہیں اور ہمیں جھٹکا بھی لگا رہے ہیں،ان میں سے بشمول اسلامی ممالک بھی بہتر کردار ادا نہیں کررہے،بس ہمیں ہی چکرا رہے ہیں،وجہ کچھ نہیں،اغیار پر بھروسہ اور اپنی قوت پر شکوک وشبہات۔یہی ہماری ناکامی ہے اور ہمارے زوال کی وجہ۔سمجھ جاؤ،پاکستانیو اور مسلم ممالک،ورنہ تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں