!حوالے ٹیپو سلطان کے اور باتیں “نیازی” جیسے سالار کی

جب ملک کے کرتے دھرتے مایوسی کی باتیں کرنے لگیں اور قوموں کی سرداری کرنے کی بجائے قوموں سے یہ کہنے لگیں کہ وہ خود اپنے لئے راہیں نکالیں تو کسی بھی قوم کیلئے اس بڑی دل شکنی کی باتیں اور سردارانِ قوم کیلئے ڈوب مرنے کا مقام کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ ایک جانب رگِ گلو دودھاری خنجر کی زد میں ہے تو دوسری جانب جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ “ماحول ساز گار نہیں، کشمیریوں کو نئی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا”۔ یہ بیان گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پُر شور پریس کانفرنس میں دے کر پوری پاکستانی قوم کا سر شرمندگی سے جھکا کر رکھ دیا۔

 اس قسم کا بیان تو دنیا کی بزدل سے بزدل اور غیرت و حمیت سے عاری قوم بھی نہیں دیا کرتی اور وہ رہنما و سالار بھی کبھی قوم کے سامنے ایسا نہیں کہا کرتا جس کو اپنی شکست کا 100 فیصد بھی یقین ہو۔ ایسے کہنے کی بجائے وہ موت کو ترجیح دیا کرتا ہے۔

“حوالے ٹیپو سلطان کے اور باتیں “نیازی” جیسے سالار کی، ہمارے وزیر خارجہ کا ہی خاصہ ہے۔”

کیونکہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان اور رہنے والی دیگر اقلیتیں کا کہنا تو کجا، ایسا کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں کہ اے کشمیریو، حالات ساز گار نہیں اب جو کچھ بھی کرنا ہے وہ نہ صرف تمہیں خود کرنا ہے کیونکہ ہم میں اب اتنی ہمت اور سکت نہیں کہ تمہارے لئے کچھ کر سکیں۔

وزیر خارجہ جو خیر سے “شاہ” یعنی سید ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں، اپنی نسبت آپ ﷺ سے جوڑتے ہیں، اس خاندانِ سادات سے جس کی پاک روحیں مرجانا تو گوارہ کرلیا کرتی ہیں لیکن کفر کے آگے ہتھیار ڈالنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں، جو سر تو کٹا تو سکتی ہیں لیکن سر جھکانا ان کی لغت میں لکھا ہوا ہی نہی ہوتا، اس عظیم خاندان سے تعلق جوڑنے کا دعویٰ تو ان کا بہت پرانا ہے لیکن ان کی نسبت کا خیال، ان کی جرات و شجاعت کا جاہ جلال ان میں دور دور تک بھی نہیں پایا جاتا۔

جن کے چہرے تک اس خاندان کی نمائندگی نہ کرتے ہوں، وہ ایک جانب دعویٰ کریں پاک روحوں سے نسبت کا اور میدان جنگ میں مظاہرہ بولہبی و بو جہلی سے دیں تو پھر ان کی نسبت کے دعوے پر کس طرح یقین کیا جاسکتا ہے اس لئے مجھے یہ کہنے میں کوئی عذر مانع نہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی کھوٹ ضرور ہے لیکن کیونکہ ہمیں آپ ﷺکی ہستی سے اتنا گہرا لگاؤ ہے کہ ہم کسی کے باطل دعوے کو بھی سچ ماننے پر مجبور ہیں۔ اس لئے ہم پھر بھی بصد احترام یہی کہیں گے کہ شاید ہم “شاہ” صاحب کی بات کی گہرائی کو نہ سمجھ سکے ہوں اور اخباری نمائندوں نے شاید بر بنائے اختلاف غلط رپورٹنگ کردی ہو کیونکہ کوئی بھی خاندان سادات سے تعلق رکھنے والا یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ “سلامتی کونسل کے 5 مستقل اراکین میں سے کوئی بھی ملک پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے کوششوں میں رکاوٹ بن سکتا ہے، پاکستانیوں اور کشمیریوں کو خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے، سلامتی کونسل میں آپ کے لیے کوئی پھولوں کے ہار لے کر نہیں کھڑا، وہاں کوئی آپ کامنتظر نہیں ہے، مسلم امہ کے محافظوں نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہاں ان کے مفادات ہیں، ہم سیکورٹی کونسل کے رکن نہیں، ہمیں کشمیر کا مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل کی ضرورت تھی،اس لیے چین گیا، ملک سے باہر موجود ہر پاکستانی سے اپیل کرتا ہوں کہ جب بھارتی وزیر اعظم مودی اقوام متحدہ میں جائیں تو ہر پاکستانی اقوام متحدہ کے باہر احتجاجاً موجود ہو اور بھارت کے خلاف شدید احتجاج کرے”۔

واہ “شاہ” صاحب کیا یزیدیت دکھائی ہے آپ نے۔ کس بزدلی اور بے حمیت کا مظاہرہ کیا ہے، کیا خاندان کی لاج رکھی ہے، کیا مسلمان ہونے کا ثبوت دیا ہے اور کیا اپنی شہ رگ سے فوارے کی طرح ابلتے خون کی جانب سے اپنی تڑپ کا اظہار کیا ہے۔ سلامتی کونسل پر تکیہ کرتے ہوئے تو آپ کو ستر سال بیت چکے ہیں اور پھر بھی آپ اس گمان کا شکار رہے کہ سلامتی کونسل آپ کے حق میں فیصلہ سنائے گی، قوم کو آس امید دلانے کی بجائے آپ فرمارہے ہیں کہ قوم کو کسی خام خیالی میں نہیں رہنا چاہیے اس لئے کہ دنیا کی کوئی قوم بھی ہمارے حق میں بولنے کیلئے تیار نہیں اور کوئی بھی در ایسا نہیں جہاں کوئی ہمارے لئے گل پاشی کیلئے تیار ہو بلکہ ہر گلی کوچے میں لوگ اپنے ہاتھوں میں سنگ لئے کھڑے ہیں اور اگر ہم نے فریاد کی ایک ہلکی سی آواز بھی اٹھائی تو ہمیں سنگسار کر دیا جائے گا۔ تمام مسلم امہ کے مفادات ہندوستان سے وابستہ ہیں اور وہ اپنے مفادات کی وجہ سے ہمارے حق میں آواز اٹھانے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم سیکورٹی کونسل کے رکن نہیں اس لئے وہاں بھی ہمیں وکیل کی ضرورت تھی اور اسی لئے ہمیں چین کے پیر پکڑنا اور ناک رگڑنی پڑی تب کہیں جاکر وہ ہماری وکالت کیلئے راضی ہوا۔ یہ ہیں ہمارے وزیر خارجہ جو قوم کے حوصلے بڑھانے کی بجائے قوم کو مایوسیوں کی دلدل میں یہ کہہ کر دھکیلنے کی مہم پر ہیں کہ کیونکہ دنیا میں ہمارا کوئی ہمدرد نہیں اس لئے ہم صرف “صبر” کر سکتے ہیں اور قوم کو بھی بھنگ گھوٹ کر پی لینا چاہیے تاکہ سکون کی نیند آسکے۔

یہ وہ “خاندانی” ہیں جو ان “جدوں” سے تعلق جوڑتے ہیں جو تھے تو 72 اور وہ بھی شیرخوار بچوں اور خواتین کو ملا کر، لیکن انھوں نے لمحے بھر کیلئے بھی یہ نہیں سوچا کہ کون ان کے ساتھ ہے اور کون یزیدیت کے ساتھ، ان کے حق میں کون بولنے والا اور ساتھ دینے والا ہے اور کون تماشہ دیکھنے والا، موت کسے کہتے ہیں اور زندگی کس شے کا نام ہے۔ ان کے نزدیک تو اگر اہمیت تھی تو فقط اس بات کی کہ “حق” کیا ہے اور “باطل” کیا ہے۔ یہ ان ایمان والوں اے اپنا خونی رشتہ ملاتے ہیں جو درندوں کی موجودگی میں تنہا اس چارپائی پر دراز ہوجاتے ہیں جو رسالت مآبﷺ کی تھی اور آپ ﷺ اللہ کے حکم سے اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر جاتے ہیں۔ یہ نسبت تو جوڑتے ہیں آپ ﷺ سے اور اللہ کی بجائے چین کو اپنا وکیل بناتے ہیں کہ وہ ان کا مقدمہ لڑے۔ یہ وہ لوگ ہیں ہیں جو ہمدردیوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں جبکہ خاندان قریش و ہاشمی سے لیکر پوری دنیا کے بڑی بڑی طاقتیں مسلمانوں کی راہیں مسدود کئے ہوئے تھیں یہاں تک کہ خود پیغمبر اسلام کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور ہونا پڑا تھا۔

دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے انقلابات آئے، خواہ وہ اہل کفر نے برپا کئے ہوئے ہوں یا مسلمانوں نے، کیا کبھی ان کیلئے دنیا نے ریڈ کارپٹ بچھائے، کیا ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیکر ان کا استقبال کیا، کیا انھیں خوش دلی سے خوش آمدید کہا گیا اور کیا ان کی کامیابیوں پر جشن منایا گیا؟۔ ہر انقلاب اور انقلابی کی راہ میں رکاوٹیں گھڑی کی گئیں، راہیں پُر خار بنائی گئیں، سنگباری کی گئی، تیر و نشتر برسائے گئے، ان کے خون سے زمین رنگین کی گئی، ہولی کھیلی گئی، ان کی خواتین کی عزت و آبروپامال کی گئی، ان کا قتل عام کیا گیا اور ان کے اعضا کو کاٹ کر چبایا بھی گیا اور ان کی شرم گاہوں کے ہار بنا کر گلوں میں بھی لٹکائے گئے لیکن دنیا نے یہی دیکھا کہ جب بھی کسی انقلابی نے اپنے قدم آگے بڑھانے کیلئے کمرِ عزم و ہمت کس لی پھر اس نے یہ نہیں دیکھا کہ کہ حملہ اس کی پشت پر سے کیا جارہا ہے یا دشمن سامنے سے وار کر رہا ہے، وہ آگے اور آگے اور آگے ہی بڑھتا رہا اور اس کی عزم ہمت کے آگے پہاڑ جیسی رکاوٹیں بھی رائی کے دانوں کی طرح بکھر تی چلی گئیں۔ اور زمانہ کہی کہتا نظر آیا کہ

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے

جنھیں تونے بخشا ہے ذوق خدائی

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

ہم بہت دور نہیں جاتے۔ آج قوم 73 واں یوم آزادی منا رہی ہے، آج بھی نہ جانے کتنے ایسے انسان اس پاکستان میں حیات ہونگے جنھوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہوگا۔ کیا یہ پاکستان دنیا نے ہمارے ہاتھ پر لاکر رکھا تھا۔ کیا پوری امت پاکستان بنانے میں ہمارے قدم سے قدم ملاکر چل رہی تھی۔ کیا انگریز اس لئے ہمارا ملک بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ ہم ان کو بہت اچھے لگتے تھے۔ کیا ہندو ہم سے اپنی جان چھڑانا چاہتے تھے۔ کیا شاہ صاحب جانوں کی لاکھوں قربانیوں کو بھولے ہوئے ہیں۔ کیا شاہ صاحب عورتوں، مردوں، جوانوں، بچوں اور بچیوں کی بلند ہوتی ان چیخوں، آہوں، سسکیوں تڑپتے، پھڑکتے جسموں سے بہتے خون کے دریاؤں کو بھولے ہوئے ہیں جو آزادی کی قیمت کے طور پر اس وقت کے مسلمان ادا کر رہے تھے۔ کیا یہ سب دنیا سے پوچھ کر یا چین کو وکیل بنا کر ایسا کر رہے تھے۔ کیا ایران کے انقلابیوں سے ایران کے فرعون رضا شاہ سے اجازت لے کر اس کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ کیا دنیا اس وقت خمینی کی پشت تھپک رہی تھی، کیا انقلاب کے بعد ایران کی حمایت میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں چراغاں کر رہی تھیں۔

یہ سب جانتے ہوئے بھی “شاہ” صاحب کے منھ سے بزدلانہ انداز فکر میں جواب آنا اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور وہ منصوبہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ بھارت آپ کی شہ رگ کو کاٹ کر ہی کیوں نہ رکھ دے، آپ کو نہ صرف خاموش رہنا ہے بلکہ آپ کو آپ کے پاکستان میں موجود ہر اس قوت پر نظر رکھنی ہے جو اپنی ایسی بے غیرتی کو کسی قیمت برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت دورہ امریکہ سے پہلے حافظ سعید کی گرفتاری، کالعدم تنظیموں پر “مزید” پابندیاں اور ہر وہ سیاسی و مذہبی جماعت جو بھارت کیلئے سنگین عزائم رکھتی ہو، اس کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جھوٹی تسلیوں اور مایوسیوں کو عام کرکے قوم کے حوصلوں کو کمزور کرکے اس قابل ہی نہیں رہنے دینا کہ قوم بھارت سے کسی محاذ آرائی کا سوچ بھی سکے۔

مجھے یہ کہنے میں نہ تو کوئی شرم ہے، نہ خوف، نہ تردد اور نہ ہی ڈر کہ ہمارے سارے رہنمایان قوم اور خود عسکری طاقتیں یہ چاہتی ہی نہیں کہ اہل کفر سے کوئی محاذ آرائی ہو۔ کیوں؟، اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ صرف اور صرف ایک ہی ہے۔

آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

جس ملک میں رمضان اور عید کے دنوں میں بھی شراب بند نہ ہوتی ہو، ہیرا منڈیاںآباد رہتی ہوں، چینل رقص و سرور کی محفلیں سجا کر رکھتے ہوں، زنا عام اور نکاح مشکل ہو، حج منہگا اور “یاترائیں” ارزاں ہوں، انصاف مفقود ہو اور ظلم عام ہو، منافع خوری عروج پر ہو، دھوکا دہی عام ہو، کاروبار سودی ہو، قتل و غارت گری، تیزاب گزیدگی جیسے جرائم گلی گلی پھیل چکے ہوں اور دین ایک مذاق بنادیا گیا ہو، اس ملک کے باسیوں، جوانوں، سپاہیوں اور جرنیلوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ زمینی و نظریاتی سرحدوں کی محافظت کر سکتی ہیں، ایک سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. جناب حبیب الرحمان صاحب !
    ایک تصحیح فرمالیں کہ ھمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی صاحب خانوادہ سادات سے تعلق نہیں ھے۔ وہ صرف گدی نشین ھونے کی وجہ سے شاہ کہلواتے ھیں۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ سید ھیں۔ باقی آپ نے تمام باتیں بالکل صحیح کی ھیں۔ عوام اس وقت خود کو اتہائی تنہا محسوس کرتے ھوۓ شدید مایوسی کاشکار ھیں۔

جواب چھوڑ دیں