گرین شرٹس زندہ باد گرین شرٹس ۔۔۔۔میدان میں بڑی اسکرین نصب تھی اور لڑکے لڑکیاں گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنی ٹیم کے حق میں نعرے لگا رہے تھے ۔مگر ہوا وہی جو اکثر ایسے موقع پر ہوتا ہے۔
کیا ہوا بھئ دادی پوچھنے لگیں…..پاکستان انڈیا سے میچ ہار گیا اور کیا ہوادادی۔۔۔۔ رخشی نے میچ ہارنے کی ساری جھنجھلاہٹ دادی پر اتار دی۔ارے اس سے پہلے بھی تو ہارا تھا میچ جب تو تمہیں اتنا غصہ نہیں آیا تھا بیٹا۔میری بھولی دادی وہ سارے میچ انڈیاسے نہیں تھے اور پاکستان چاہے کسی سے بھی ہارے مگر انڈیا سے نہیں ہارنا چاہیے بس ۔ ہوں۔۔۔میں تو سمجھی کہ وطن کی محبت میں موۓ سب مرے چلے جارہے ہیں مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔کیا معاملہ ہے بھئی کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے ریحان جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا پوچھنے لگا ۔سب ٹسل ہے بیٹا وطن سے محبت وحبت کچھ نہیں ۔
ہیں۔۔۔کیا کیا ٹسل۔۔۔اچھا دادی یہ جو سب نے اتنا خرچہ کیا کالج کی چھٹیاں کیں کاروبار بند کیے نعرے بازی کی۔۔۔ یہ سب کیا تھا یہ محبت نہیں تھی کیا ؟ریحان حیرانگی سے بولا ۔اللہ ریحان بھائی مجھے تو سچ میں بہت مزا آیا جب سب نے گرین شرٹس اور برانڈڈ سوٹس کے ساتھ گالوں اور بازو پر ٹیٹو بنوائے بال ڈائی کراۓ وہاں میدان میں ٹیم مقابلہ کر رہی تھی اور یہاں لڑکے لڑکیوں کا آپس میں کانٹے کا مقابلہ تھا کہ کون زیادہ اسمارٹ اور خوبصورت نظر آرہا ہے اور تو اور یمنی اور حماد کا تو گلا بیٹھ گیا تھا نعرے لگا لگا کے پاکستان کی محبت میں۔۔۔
ہنہ۔۔۔۔۔محبت نہ ہو تو۔۔ نری بے حیائی ہے یہ بیٹا اسے محبت نہیں کہتے دادی بولیں ۔رخشی کھانا لگاؤ ابو آگئے ہیں کمرے سے جیسے ہی امی کی آواز آئی
رخشی۔۔جی آئی امی کہتی ہوئی کچن کی طرف چل دی ۔
پچھلے کئی دنوں سے دادی اماں دیکھ رہی تھیں کہ ہر جوان بچہ بوڑھا جسے دیکھو وہ کرکٹ فوبیا میں مبتلا تھا یہ بخار اس وقت ٹوٹا جب ٹیم حسب روایت ہار گئی اور نوجوان نسل ذرا ٹھنڈی ہو کر بیٹھی مگر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا رہا دونوں جانب کے عوام جیسے گتھم گتھا تھے اور نشریاتی ادارے بھی اپنے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں عوامی جذبات بھڑکانے میں پیش پیش تھے یہ سب دیکھ کر وہ اپنے دل میں کڑھتی رہتی تھیں ۔آج بھی سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کرہے تھے اور بچوں آج کل کیا چل رہا ہے پڑھائی بھی ہورہی ہے یا صرف موج مستی میں مصروف ہو ابو خوشدلی سے بولے بس ابو آج آخری پیپر تھا اب سکون سے انجوائے کریں گے ہم ۔اچھا تو کوئی لمبا پروگرام ہے آپ لوگوں کا ۔ابو بولے جی ابو اسی کی پلاننگ کرنی ہے ،ہمیں آج .کیونکہ اس بار قربانی اور چودہ اگست ساتھ ساتھ آرہے ہیں. ابو آپ کب گائے لا رہے ہیں میرے سب دوست انتظار میں ہیں ریحان بولا۔اس اتوار کا پروگرام ہے اور ہاں اب کے ذرا ہاتھ روک کر گوشت بانٹنا کہیں سب غریبوں کے نام کردو پچھلی دفعہ بھائی کے گوشت کم پہنچا تھا بڑی باتیں بنی تھیں ۔۔۔امی بولیں۔ مگر بیٹا انکے تو ماشاء اللہ خود قربانی ہوتی ہے انہیں کیا ضرورت گوشت کی اس گوشت پر زیادہ غریبوں مسکینوں کا حق ہے جو سارا سال دل بھر کے گوشت نہیں کھاتے۔۔۔ دادی بولیں۔ مگر اماں جان وہاں سے بھی گوشت آتا ہے ہمارے گھر۔ تو بیٹا انھیں سمجھا دیا کرو کہ ہم سے زیادہ اس پر غریبوں کا حق ہے دادی بڑے رسان سے بولیں۔ابو جانور کیسا بھی ہو مگر سلیم کے جانور سے بڑا ہونا چاہیے آخر محلے رشتے داروں میں عزت بھی تو کرانی ہے نا بیٹا فکر مت کرو پہلے کبھی بے عزتی ہوئی ہےکیا؟؟۔ مجھے تمام انتظامات کے لیے کچھ اضافی رقم چاہئےامی بولیں اچھا بھئی میں آفس سے ایڈوانس لینے کی کوشش کرتا ہوں اور ابو اس بار ھم چودہ اگست بڑی شان سے منائیں گے ۔ ضرور مناؤ بھئ آزادی کا دن منانا ہر پاکستانی کا حق ہے .جی ابو میں نے تو سوچ لیا ہے پورے گھر کو جھنڈیوں سے سجاؤنگی اور ایک بہت بڑا سا سب سے بڑا جھنڈا چھت پر لگائیں گے اور میری تمام سہیلیاں چودہ اگست کو انوائٹڈ ہیں اس کے لیے سب نے بہترین ڈریس بنواۓ ہیں اور تم تو جیسے پرانے کپڑے پہنوگی ریحان چڑانے والے انداز میں بولا میں کسی سےپیچھے ہوں کیا میں نے وہ ڈریس بنوایا ہے جو شاہ رخ کی ہیروئن نے ایک شوٹ میں پہنا تھا اور پھر مووی کا پروگرام ہے سچ میں بہت مزہ آنے والا ہے ہمیں رخشی خیالوں میں مزے لیتی ہوئی بولی ۔ اماں آپ خاموش کیوں ہیں کیا آپ آزادی نہیں منائیں گی؟۔ابو دادی کا کہنا ہے ہمیں پاکستان سے محبت نہیں ہے، رخشی نے گویا انکشاف کیا ۔کیوں نہیں ہے اماں جان یہ ساری تیاریاں اسی لیے ہی تو ہیں کہ ہم سب پاکستان سے محبت کرتے ہیں ابو پیار سے بولے۔۔بس کردو بیٹا، اب یہ محبت کا راگ الاپنا بند کرو ۔کیا ہوا اماں جان اب بچے آزادی کا جشن بھی نہ منائیں ۔امی نےبرا مانتے ہوۓ کہا ۔ہم آزاد کہاں ہیں میرے بچوں ہم توابھی تک غلام ہیں۔ دادی تاسف بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔ کیا مطلب دادی غلام کیسے جبکہ ہم ہر سال آزادی مناتے ہیں رخشی حیران تھی۔ضرور مناتے ہیں بظاہر ہمارے جسم آزاد ہیں مگر ہماری روحیں ابھی تک غلام ہیں ۔۔۔سب پریشانی سے دادی کو دیکھنے لگے جیسے انکی ذہنی روح بہک گئی ہو ۔دادی پھر گویا ہوئیں ۔انگریز نے ہمارے جسموں کو تو آزاد کردیا مگر روحوں کو قیدی بنا کے لے گیا اس لیے ہم اسکے بناۓ نظام کے غلام ہیں معیشت کے غلام ہیں اس سود بھرے نظام میں غریبوں کا حصہ کہاں ہے؟ ارے حصہ تو تب بچے گا نا جب ہم اپنے بے جا اسراف چھوڑیں گے ،ہماری اضافی خواہشیں غریبوں کا حق کھارہی ہیں۔ انڈیا سے ہم ہارنا نہیں چاہتے ہار سے ہمیں نفرت ہے مگر اسکے کلچر سےمحبت ہے۔۔۔ فلمی گلیمر سے اسکی بے حیائی سے محبت ہے انکی نقل باعث فخر اور رسومات سے محبت ہے تو پھر کرکٹ میں ہارنے کا ڈرامہ کیوں یہ سب وطن سے محبت نہیں ہے۔ میرے بچوں دادی یہ کہتے ہوۓ آب دیدہ ہوگئیں ۔اوہ دادی سوری اس طرح توہم نے سوچا ہی نہیں کبھی رخشی روہانسی ہوکر بولی۔ہاں بیٹا یہ ہمارا قصور ہے جو آزادی اور قربانی کا صحیح مفہوم نئی نسل میں اتارنہ سکے۔ اللہ ہمیں معاف کرے ۔ ہاں اماں جان آپ نے ٹھیک کہا یہ قرض ھےہم پر ھماری اولاد کا۔ امی شرمندہ سی بولیں ۔اب بھی دیر نہیں ہوئی میرے بچوں پاکستان اللہ کی نعمت ہے ہمیں کفران نعمت سے بچناہے ورنہ اس کی پکڑ بہت شدید ہو گی اور ابراہیم علیہ ا لسلام کی قربانی ہمیں اپنے نفس اور خواہشات کو قربان کرناسکھاتی ہے۔ بلکل اماں جان اس عید پر ہم بے جا اسراف اپنی اضافی خواہشیں قربان کریں گے۔دادی نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تشکر بھرے دو آنسو بہ کر جھریوں بھرے چہرے پر امڈ آۓ وہ اٹھ کرجانے لگیں سب ڈر کے بولے کہاں دادی۔۔ چھت پر جھنڈا لگانے اور کہاں آج میں بھی جشن آزادی مناؤنگی تم سب بھی چلو کیوں نہیں دادی سب خوشی سے چھت کی جانب چل دیئے۔۔
اہم بلاگز
ڈنڈا پیر
ایک شریف شہری کو پہلی مرتبہ گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو بے چارہ بہت پریشان ہوا کہ جس گلی میں بھی وہ داخل ہوتا اسی گلی کے آوارہ کتے اسے کاٹنے کو دوڑتے۔کبھی اس گلی تو کبھی اس گلی بھاگتے بھاگتے جب وہ تھک کر ہانپنے لگا تو اسے ایک فقیر صدا لگاتے ہوئے دکھائی دیا۔سادہ لوح شہری سیدھا اس فقیر کے پاس گیا کہ چلو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں جب اپنے دوست کے گھر پہنچ جائے گا تو اس فقیر کا شکریہ ادا کر دے گا۔ابھی تھوڑی دور ہی دونوں گئے ہوں گے کہ فقیر نے شہری سے پوچھا کہ بیٹا کیا ماجرا ہے میں تو گھر گھر صدا لگانے اور مانگنے والا ایک حقیر سا انسان ہوں،تم میرے ساتھ ساتھ کس مقصد کے لئے چل رہے ہو۔فقیر کی یہ بات سنتے ہی شہری کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا کہ چلو اب بابا جی میری مدد ضرور کریں گے۔اس نے سارا ماجرا فقیر کو سنادیا۔فقیر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور پھر اس نے اپنے ہاتھ والا ڈنڈا شہری کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ:
جاؤ بیٹا اب تمہیں گلی کے پالتو اور آوارہ کتے کچھ نہیں کہیں گے
اس کہانی لکھنے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے امید ہے کہ اہل فکرودانش اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے ضرور سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستانی نظام کو چلانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے۔کیونکہ پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ’’وگڑیاں،تگڑیاں دا ڈنڈا پیر‘‘۔اس اکھان کا اطلاق صرف انسانوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ بھیڑوں کا ریوڑ بھی جب کبھی منتشر ہو جائے تو چرواہا ایک ہی لاٹھی کے ساتھ سب کو ہانک کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔یعنی بابا بنا، ڈنگوری کس کام کا؟یہ بھی ہے کہ بابے کے بغیر بکریاں نہیں چرتیں۔حالانکہ بکریوں کوبابے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ان کو تو بابے کے ہاتھ میں ڈنڈے کا ڈر ہوتا ہے۔جو کام ہماری سیاسی جماعتوں کا رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ انہیں بھی بابے کے ڈنڈے کی ضرورت ہے ۔کہ ان کے بنا ان میں نظم وضبط قائم نہیں ہو سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ڈنڈے کی ضرورت کیوں ہے؟کیا ہم باشعور قوم نہیں،ہم اپنا بھلا اور برا خود نہیں سوچ سکتے،ہم اچھے اور برے میں از خود تمیز نہیں کر سکتے کیا؟۔میرا خیال ہے کہ نہیں،اگر ہم عوام میں یہ استطاعت ہوتی تو پھر اور بھلا کیا چاہئے تھا۔ہم تو غلام ہیں اپنی خواہشات اور مجبوریوں کے۔ہم تو مقید ہیں روٹی ،کپڑا اور مکان کے دائرے میں،ہمارے پاؤں میں تو بیڑیاں ہیں اپنی اغراض کی۔تو پھر ہمیں کیا،کہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کہ بغل میں چھری۔ہمارا کام تو کوزہ گر کے حمار کی طرح بس سر جھکائے ،گلے میں باندھی گھنٹی کی صدا کی فریکوئنسی کے ساتھ قدم اٹھاتے جانا ہے بنا سوچے اور دیکھے کہ کیا مالک بھی ساتھ ہے کہ نہیں۔ہم عوام کو ہمارے سیاستدانوں نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہم کوئی سوال اٹھا سکیں بلکہ ہمارے اذہان میں تو اب سوال پیا ہی نہیں ہوتے۔سٹیفن کنگ نے ٹھیک...
ایسا بھی ہو سکتا ہے
یہی کوئی دو تین دہائیاں پہلے تک دیہاتوں اور قصبوں کے لوگ مل جل کر موسموں سے لطف اندوز ہوتے اور کام بھی زیادہ نمٹا لیتے۔
خاص کر سردیوں کے موسم میں۔
صبح صبح گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر خواتین گھنٹوں دھوپ سینکتیں، آپس میں گپ شپ کرتیں اور اپنے کام بھی سنوارتیں۔
اب تو یہ موا موبائل ایسی بلا آ گیا ہے جو رات کو دیر تک جگاتا ہے اور پھر نیند پوری کرنے کے لئے لوگ آدھے دن تک سوئے رہتے ہیں اور ویسے بھی اب وہ مل بیٹھ کر دھوپ سینکنے کے لیے بڑے صحن کہاں رہے ہیں۔
شہر کے لوگوں نے جگہ کی کمی کی وجہ سے اور کچھ کوٹھی سٹائل کے شوق میں صحن بنانا چھوڑ دیے اور دیہاتی لوگوں نے,ہم کسی سے کم نہیں ، کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے بند گھروں کے شوق میں آگئے۔
رابعہ تیز رفتاری سے سرسوں کا ساگ کاٹتے ہوئے بہو رانی کے ساتھ دل کے پھپھولے بھی پھوڑ رہی تھی جو پاس بیٹھے بتھوا کے پتے ٹہنیوں سے الگ کر رہی تھی۔ پالک وہ پہلے ہی صاف کر کے رابعہ کے پاس رکھ چکی تھی۔ساگ کے لیے پانی ڈال کر چولہے پر رکھے دیگچے سے، ابلتے ہوئے پانی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ رابعہ نے کٹا ہوا ساگ بڑی ٹوکری میں ڈال کر صدف کی طرف بڑھایا۔
یہ لے صدف پتر۔۔۔۔۔ آپ یہ ساگ دھو کر دیگچے میں ڈال دیں۔ میں اتنی دیر میں پالک کاٹ لیتی ہوں۔
ساگ کی ٹوکری پکڑاتے ہوئے، اچانک رابعہ کی نظر صدف کے چہرے پر پڑی ۔ وہاں تو آنکھوں کے کٹورے نمکین پانی سے بھرے پڑے تھے اور چھلکنے کو بے تاب۔۔۔۔
وہ تو اپنے خیال میں بہو کو اپنی باتوں سے محظوظ کر رہی تھی۔لیکن کیا معلوم؟ ۔ ۔۔۔ کہ وہ ساس کی باتوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اپنے دل کے ویرانوں سے اٹھنے والے جل تھل سے گھتم گھتا تھی۔ رابعہ نے صدف کی کلائی سے پکڑ کر اسے پاس بٹھا لیا۔
کیا بات ہے بیٹی ؟ عدنان نے کوئی ناگزیر بات کر دی؟ امی کے گھر میں تو ساری خیریت ہے ناں۔۔۔۔۔ میں صبح سے دیکھ رہی ہوں کہ تم چپ چپ سی ہو۔
صدف کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر گالوں پر پھسلنے لگے۔
یہ ساس بہو ،ماں بیٹی کم اور سہیلیاں زیادہ تھیں۔ رابعہ کی اپنی بھی تین بیٹیاں تھیں اور تینوں ہی شادی شدہ تھیں۔
ان کا ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی ماں کے گھر میں چکر لگتا۔ اگر شومئی قسمت ایک دو رات رہتیں بھی تو ادھر بھی زیادہ اپنے بچوں کے ساتھ ہی مگن رہتیں۔ نہ بچوں کے شور اور کام ختم ہوتے نہ ماں کے پاس بیٹھ کر سکون سے تسلی بخش باتیں ہوتیں۔ دکھ سکھ سننے سنانے کا نہ وقت ملتا نہ نوبت آتی۔ لیکن صد شکر۔۔۔۔ اللّہ تعالیٰ نے رابعہ کو بہو بیٹیوں سے بڑھ کر دی
جو دکھ سکھ اور رابعہ کی خدمت۔۔۔۔۔۔ دونوں لحاظ سے کوئی کمی محسوس نہ ہونے دیتی ۔ ساس کی رازداری کی حفاظت میں صدف کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس کی کہی ہوئی کوئی بھی بات کبھی میاں...
ہوم اسکولنگ – کیوں؟ اور کیسے؟؟؟
"ہوم اسکولنگ" کا لفظ ہمارے ماحول میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔اسکی افادیت پر مختلف پہلوؤں سے بھت سی معلومات دی جا رہی ہیں۔ میں ایک ماہر نفسیات ہوں اورپچھلے بارہ سال سےتعلیم و تربیت کے شعبہ سے وابستہ ہوں۔
کئ دہائیوں سے جاری تعلیمی نظام سے ہٹ کر ہوم" اسکولنگ" کے جدید طریقہ کار کو میں نے اپنے بچوں کے لئے کیوں منتخب کیا؟ ایک نفسیات داں ہونے کے نقطہ نظر سے اس سوال کا جواب پیش کرتی ہوں۔
ابتدائی عمر کا learning process صرف تعلیم کا ہی نہیں بلکہ تربیت کا بھی learning process ہے۔ جہاں ان کے قدوقامت، ہڈیاں اور دیگر جسمانی نظام نشوونما پارہے ہوتے ہیں وہاں جذبات، رجحانات اور کردار بننے کا بھی یہی وقت ہے ۔ پچھلی صدی کے ابتدائی ادوارکو دیکھیں تو تعلیمی نظام کسی حد تک معاشرے کی مذہبی، سماجی اور تہذیبی اقدار کی منتقلی لرننگ پروسس کے ساتھ کر رہا تھا۔ لیکن جدید سائنسی بنیادیں رکھنے والے علوم کا تناسب بڑھ جانے اور تعلیم ایک کاروبار بن جانے کے بعد اخلاقی اور سماجی اقدار کے لئے تعلیمی نصاب میں بھت کم حصہ رہ گیا۔ اقدار کی منتقلی کے لئےاہم ترین دور ابتدائ پانچ سال ہیں۔ اس عمر میں بچہ جو سیکھتا ہے تمام عمر انہی خطوط پر چلتا ہے مثلاً بزرگوں کی عزت، سچ بولنا، بیمار کی تیمارداری، مہمان کی عزت، نرمی سے بات کرنا۔۔۔ یہ سب غیر محسوس طریقے سے منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ سال والدین کے لئے بہت ذمہ داری کے سال ہیں۔ اس عمر میں جذبات و احساسات بنتے اور نشوونما پاتے ہیں۔ یہ جذبات و احساسات ہی کردار بناتے ہیں جو آگے چل کر پوری زندگی میں جھلکتا ہے۔ ہوم اسکولنگ بنیادی طور پر اس ابتدائ وقت کو کارآمد بنانے کا نام ہے جس پر بچے کے کردار کی تعمیر منحصر ہے۔
عمر کے اس حصے میں بچے کو جسمانی ضروریات پورا کرنے پر تمام تر زور ہوتا ہے ملبوسات کھلونوں اور غذائ ضروریات کے بہم پہنچانے میں والدین اپنا پورا حصہ ڈالتے ہیں لیکن کم ہی والدین جانتے ہیں کہ اس عمر کی جذباتی ضروریات emotional needs بھی ہوتی ہیں؟ جنکو سلیقے سے ایک پروگرام کے تحت پورا کیا جائے تو بچہ ایک با صلاحیت اور مثبت کردار کی شخصیت بنے گا۔
بنیادی طور پر بچوں کی چار emotional needs ہوتی ہیں: unconditional love 1
یعنی غیر مشروط محبت۔ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ جو محبت کرے اسی کے ہوجاتے ہیں۔
2۔ sense of security
یعنی تحفظ کا احساس۔
3۔exposure to new experiences
ان کے لئے تمام گھریلو چیزیں، بجلی کے الات، گھر میں انے والے لوگ ہر چیز پر تجسس ہوتی ہے۔ وہ انہیں سمجھنا چاہتے ہیں۔
4۔need to be disciplined
یعنی انکی چھوٹی سی دنیا میں نظم و ضبط کی پابندی ہو۔
ہوم اسکولنگ کے خواہشمند والدین کو چند امور سمجھ لینا چاہئے۔
نظم وضبط کی پابندی:
ماں کو اپنی گھریلو اور باپ اپنی بیرونی زمہ داریوں کے ساتھ ہی ہوم اسکولنگ کرنا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ وہ خود نظم وضبط کے پابند ہوں۔ اپنے بچے کے کردار کی بہترین بنیاد بنانے کے لئے اپنی غیر معمولی تفریحی...
ذمہ دار ہم نہیں، پھر کون؟
سورج کی گرم کرنیں فاروق حسن کے آفس میں قبضہ کیے ہوئے تھیں۔ یہ معروف سائیکالوجسٹ تھے۔ ان کے کلینک پر ہی نہیں بلکہ ان کے آفس میں بھی بہت لوگوں کا رش ہوتا تھا۔ عموماً یہ آفس میں کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج وہ اپنے آفس میں مسٹر تیمور علی اور مسز تیمور کے ساتھ بات چیت میں مشغول تھے۔
"تو تیمور صاحب آپ کیا کہہ رہے تھے؟ آپکے بیٹے کا رویہ گھر میں ٹھیک نہیں ہے۔ کیا آپ مجھے اس کی وجوہات بتا سکتے ہیں؟" فاروق حسن نے آنکھوں پر لگی عینک کے پیچھے سے تیمور کو گھورا تھا۔
"میں بتا تو چکا ہوں، کہ میں اور میری بیوی نہیں جانتے کہ کیا مسئلہ ہے۔ وہ اتنی بدتمیزی کرتا ہے، اٹھارہ سال کا ہوگیا ہے، بالکل ہاتھ سے نکلتا ہی جارہا ہے۔ جھوٹ تو اُس کی زبان پر رکھا رہتا ہے۔ اور اگر ہمیں مسئلہ پتا ہوتا تو آپکے پاس کیوں آتے؟۔" تیمور کچھ خفا ہوا تھا۔
"مسئلے کو حل، صرف مسئلہ جان کر نہیں کیا جاسکتا ہے، اُس کی وجہ، اُس کی جڑ کا پتا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو پتا ہو پہلے کہ ایسے رویے کے پیچھے کیا وجہ ہے۔" فاروق حسن نے نہایت دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
"دیکھیں تیمور صاحب! میں آپ سے کچھ سوالات کروں گا، آپ مجھے ان کے جوابات دیں گے، کیونکہ آپ اپنا ذاتی مسئلہ لے کر یہاں آئیں ہیں تو آپ سے کچھ سوال بھی ذاتی ہوں گے۔ اور یہ کیے بغیر میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ جو سوال آپ سے کیا جائے آپ اُسی کا جواب دیں، اور جو مسز تیمور، آپ سے کیا جائے آپ اُس کا دیں گی"
ماحول بوجھل ہوتا جا رہا تھا۔
"کیا آپ دونوں کے تعلقات گھر میں ٹھیک ہیں؟ بہت لڑائی جھگڑا ہوتا ہے؟"
"لڑائی جھگڑا تو ہر گھر میں ہوتا ہے سر، یہ کوئی نئی بات تو نہیں"
"آپ میری بات کاٹ رہے ہیں تیمور۔ لڑائی جھگڑا بالکل ہوتا ہے، لیکن یہ بچے کی نفسیات پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ بہت سے میری مراد یہ ہے کہ گھر میں کس طرح کا رویہ ہوتا ہے آپکا؟ میں نے دو سیشنز لیے ہیں آپکے بیٹے کے ساتھ اس کے بعد ہی میں آپ سے اس طرح کے سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔"
"ہم نے اپنے بیٹے کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ آپ چاہیں تو میری بیوی سے پوچھ لیں، آپ یوں بات کا پورا رخ والدین کی طرف نہیں موڑ سکتے"
"جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، غلطی صرف والدین کی نہیں ہوتی۔ لیکن اُس غلطی کا بیج بونے میں والدین کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ تیمور صاحب بچپن میں بچے نا بہت لچک دار ہوتے ہیں، آپ انھیں جس سانچے میں ڈھالتے ہیں وہ بالکل ویسی ہی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں"
ایک سات سالہ بچہ ہے تابش،
اس کا باپ خبار پڑھتے ہوئے اُسے آواز دیتا ہے ”کہ بیٹا ایک گلاس پانی پلاؤ“
”جی بابا لایا“ تابش فرش پر لگے ٹائلز پر کھیلتے ہوئے گیا۔ آج کل نا اس بچے نے نیا کھیل سیکھ لیا تھا، کہ...
جب احساس ہوا
ٹھٹھرتا ہوا موسم سرما آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا تھا۔ جس کی وجہ سے سورج کی شرماہٹ میں کمی آ رہی تھی اور اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا ۔ لہذا اب وہ گھر میں آنکھ مچولی کھیلنے کی بجائے اپنی تمازت کے ساتھ ہنستا مسکراتا سر عام تھا۔ تبسّم آفتاب نے ہر چیز کو جلا بخش کر ماحول کو خوب صورت بنا دیا۔ درختوں میں جان پڑنے لگی ڈالیاں لہرانے لگیں۔ ان پر لگے رنگ رنگ کے پھول مسکرانے لگے۔ پرندوں کے گیتوں نے فضا میں ترنم باندھ دیا۔
مکین جو دو ماہ سے گھروں میں سخت سردی کی وجہ سے دبکے بیٹھے تھے، وہ اس طلسماتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھروں سے نکلنے لگے۔
تنویلہ اور سمیر، دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بچوں کو لے کر پارک آئے تھے۔ تنویلہ کے میاں کی کاروباری مصروفیت، اس لیے وہ ان کے ساتھ نہ آسکا اور سمیر کی بیوی کو اپنی کسی سہیلی کے ہاں جانا پڑ گیا۔
ماموں پھوپھو کے بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور کھیلنا شروع کر دیا۔
پارک دونوں کے گھروں کے درمیانی فاصلے پر واقع تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گھر قریب قریب تھے بلکہ ان کے درمیان 40 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔لہذا دونوں تقریباً بیس بیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اس پارک تک آئے تھے۔ وہ دونوں بہن بھائی بچوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کیا۔ حقیقی خوشی دونوں کے چہروں پر عیاں تھی۔ سمیر محبت و شفقت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔
تنویلہ !بہن ایک سال بھی چھوٹی ہو تو وہ بیٹی کی طرح ہوتی ہے۔ اس طرح تم بھی میری چھوٹی بہن ہی نہیں بیٹی بھی ہو ۔ کبھی ہماری طرف بھی آ جایا کرو ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی مہینوں کو کراس کر کے سالوں پر آ گئی ہو۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ آخری بار میرے گھر میں تقریباً سوا سال پہلے آئی تھی۔
بھائی کیا کروں؟ بچوں میں وقت ہی نہیں ملتا آنے کا ان کے منتھلی ٹیسٹ ختم نہیں ہوتے کہ گرینڈ ٹیسٹ شروع ہو جاتے ہیں اور پھر فوراً فائنل امتحان بس ایسے ہی , کوشش بھی کروں تو گھر سے نکلا نہیں جاتا۔
لیکن بھائی آپ بچوں کے ساتھ جلدی چکر لگا لیا کریں میں آپ سے بہت اداس ہو جاتی ہوں۔
تنویلہ نے بڑی مہارت سے حلق میں اٹکے آنسو نگل لیے لیکن آواز کی گلو گیری بھائی سے چھپانے میں ناکام ہو گئی۔
سمیر متفکر نظروں سے بہن کو دیکھنے لگا اور بڑی محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
تنویلہ! ہمارے گھروں میں نہ آنے کی وجہ تمہاری مصروفیات نہیں۔ چل شاباش گڑیا,سچ سچ بتا کیوں نہیں آتی اپنے میکہ گھر میں۔
بھائی کوئی وجہ نہیں! بس ادھر جانے سے امی کی یاد زیادہ آتی ہے، صرف یہی وجہ ہے۔
تنویلہ نے بھائی کو ٹال کر اپنے چہرے پر زبردستی والی مسکراہٹ سجا لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تنویلہ کا مختصر سا کنبہ والدین، دو بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل تھا۔ تنویلہ دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی لیکن والدین نے بڑے...
طنز و مزاح
ڈنڈا پیر
ایک شریف شہری کو پہلی مرتبہ گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو بے چارہ بہت پریشان ہوا کہ جس گلی میں بھی وہ داخل ہوتا اسی گلی کے آوارہ کتے اسے کاٹنے کو دوڑتے۔کبھی اس گلی تو کبھی اس گلی بھاگتے بھاگتے جب وہ تھک کر ہانپنے لگا تو اسے ایک فقیر صدا لگاتے ہوئے دکھائی دیا۔سادہ لوح شہری سیدھا اس فقیر کے پاس گیا کہ چلو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوں جب اپنے دوست کے گھر پہنچ جائے گا تو اس فقیر کا شکریہ ادا کر دے گا۔ابھی تھوڑی دور ہی دونوں گئے ہوں گے کہ فقیر نے شہری سے پوچھا کہ بیٹا کیا ماجرا ہے میں تو گھر گھر صدا لگانے اور مانگنے والا ایک حقیر سا انسان ہوں،تم میرے ساتھ ساتھ کس مقصد کے لئے چل رہے ہو۔فقیر کی یہ بات سنتے ہی شہری کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا کہ چلو اب بابا جی میری مدد ضرور کریں گے۔اس نے سارا ماجرا فقیر کو سنادیا۔فقیر تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور پھر اس نے اپنے ہاتھ والا ڈنڈا شہری کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ:
جاؤ بیٹا اب تمہیں گلی کے پالتو اور آوارہ کتے کچھ نہیں کہیں گے
اس کہانی لکھنے کے پیچھے کا مقصد کیا ہے امید ہے کہ اہل فکرودانش اور پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے ضرور سمجھ چکے ہوں گے کہ پاکستانی نظام کو چلانے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہے۔کیونکہ پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ’’وگڑیاں،تگڑیاں دا ڈنڈا پیر‘‘۔اس اکھان کا اطلاق صرف انسانوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ بھیڑوں کا ریوڑ بھی جب کبھی منتشر ہو جائے تو چرواہا ایک ہی لاٹھی کے ساتھ سب کو ہانک کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔یعنی بابا بنا، ڈنگوری کس کام کا؟یہ بھی ہے کہ بابے کے بغیر بکریاں نہیں چرتیں۔حالانکہ بکریوں کوبابے سے کوئی غرض نہیں ہوتی ان کو تو بابے کے ہاتھ میں ڈنڈے کا ڈر ہوتا ہے۔جو کام ہماری سیاسی جماعتوں کا رہا ہے مجھے لگتا ہے کہ انہیں بھی بابے کے ڈنڈے کی ضرورت ہے ۔کہ ان کے بنا ان میں نظم وضبط قائم نہیں ہو سکتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ڈنڈے کی ضرورت کیوں ہے؟کیا ہم باشعور قوم نہیں،ہم اپنا بھلا اور برا خود نہیں سوچ سکتے،ہم اچھے اور برے میں از خود تمیز نہیں کر سکتے کیا؟۔میرا خیال ہے کہ نہیں،اگر ہم عوام میں یہ استطاعت ہوتی تو پھر اور بھلا کیا چاہئے تھا۔ہم تو غلام ہیں اپنی خواہشات اور مجبوریوں کے۔ہم تو مقید ہیں روٹی ،کپڑا اور مکان کے دائرے میں،ہمارے پاؤں میں تو بیڑیاں ہیں اپنی اغراض کی۔تو پھر ہمیں کیا،کہ کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے کہ بغل میں چھری۔ہمارا کام تو کوزہ گر کے حمار کی طرح بس سر جھکائے ،گلے میں باندھی گھنٹی کی صدا کی فریکوئنسی کے ساتھ قدم اٹھاتے جانا ہے بنا سوچے اور دیکھے کہ کیا مالک بھی ساتھ ہے کہ نہیں۔ہم عوام کو ہمارے سیاستدانوں نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ ہم کوئی سوال اٹھا سکیں بلکہ ہمارے اذہان میں تو اب سوال پیا ہی نہیں ہوتے۔سٹیفن کنگ نے ٹھیک...
دسمبر کو عزت دو
آپ سب بھی واقف ہی ہوں گے کہ دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف رونے دھونے والے اور دسمبر کو اپنی اداسیوں اور دکھوں کا ذمہ دار ٹھرانے والوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ چونکہ ہم واٹس اپ، فیس بک ، انسٹا گرام کے دور میں سانسیں لے رہے ہیں تو ہر صارف نے حد سے بڑھ کر دکھی دسمبر کی شاعری لگائی ہوتی ہے۔ جس سے ملاقات کرو دسمبر کا نام لیتا اور آہیں بھرتا ہے ساتھ ہی دسمبر کی شاموں کی طوالت اور بے نام سی اداسی کا ذکر چھڑ جاتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر دسمبر یہی دیکھا یہی سنا ہے "دیکھ دسمبر پھر نہ آنا " اب زمینی گردش کا معاملہ ہے ورنہ دسمبر اتنی ناقدری کے بعد نا ہی آئے ۔ دسمبر میں برفیلی ہوائیں تو چلتی ہی ہیں مگر آپ کو ٹھنڈی ٹھار آہیں واہیں بھی جمانے کے لئے موجود ہوتی ہیں۔ اس بار سوچا کہ پتا تو چلایا جائے یہ نا معلوم سی اداسی آخر کیوں گھیر لیتی ہے۔؟کیا واقعی دسمبر بہت ظالم ہے؟ کیا دسمبر کا نام لیتے ہی دل کی دھڑکن آہستہ ہو جاتی ہے؟ کیا دسمبر واقعی اداسی لئے آتا ہے؟بہت سی دوستوں سے پوچھا کہ بتائیں تو بھلا دسمبر کا واویلا حقیقت ہے یا افسانہ ؟ زیادہ تر افراد کے جواب سے مطمئن نہ ہو سکے۔ ان کو وجہ ہی معلوم نہیں کہ دسمبر کیوں افسردہ کرتا ہے۔ جب پوچھا کہ آپ کے ساتھ کچھ ذاتی سانحہ ہوا تو جواب یہی تھا کہ ارے نہیں ہمیں تو "دسمبر بہت خاص لگتا" ہمیں کوئی دکھ نہیں دیا دسمبر نے۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ہم لوگ سنی سنائی باتوں پر تو کان دھرتے تھے ہی، ہم نے سنے سنائے دکھ بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ جب اردگرد دسمبر کا واویلا دیکھا تو ہم بھی شامل ہو گئے۔ اس میں ایک بڑا حصہ ہماری شاعری کا ہے۔ گانوں نے بھی خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔بہت کم ہی لوگوں کو اس مہینے کی کوئی شام سہانی لگتی ہے۔
دسمبر پر آپ کو بہت شدید شاعری ملے گی۔(یہ میری ذاتی تحقیق ہے اس سے آپ اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں)۔جس قدر اشعار بلکہ نوہے آپ کو دسمبر پر ملیں گے کسی اور مہینے پر نہیں ملتے۔اسی حوالے سے کچھ دسمبر کے دکھ حاضر ہیں آپ ہی فیصلہ کریں کہ کیا حقیقت ہے کیا افسانہ ہے۔
بعض دفعہ ہمیں دسمبر نے کوئی دکھ نہیں دیا ہوتا بلکہ مئی جون یا ستمبر اکتوبر کا کوئی غم ہمیں پریشان کر رہا ہوتا ہے مگر ہم دسمبر کو کوسنے دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے
بہت غم دسمبر میں دسمبر کے نہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا مگر رویا دسمبر میں
دسمبر سال کا اختتام ہے تو اس پر بھی اسے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھے حسین مہینے کا سوچ کر ہی خوش ہوا جاتا ہے۔۔
سفر میں آخری پتھر کے بعد آئے گا
مزا تو یار دسمبر کے بعد آئے گا
حالانکہ نئے سال کی ایک نظم میں اس کو بھی خام خیالی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا گیا...
حلوے کھانے کے دن آئے
سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گرما گرم پکوان، خاص طور پر حلوے کا خیال آتا ہے۔ حلوے کے جملہ حقوق اگرچہ مولوی کے ساتھ منسوب ہو چکے ہیں تاہم موسم سرما میں سب ہی مولوی بن جاتے ہیں۔ میرے والد صاحب ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شحض بخار میں مبتلا ہو گیا (اس زمانے میں بخار خطرناک امراض میں شمار ہوتا تھا)۔ بہت سے لوگ اس کی تیمارداری کے لئے آئے ہوئے تھے ہر کوئی نیم حکیم بنا ایک سے بڑھ کر ایک بد مزہ ٹوٹکا بتا رہا تھا۔ کچھ کونین چبانے کا تو کوئی کریلے کی افادیت کوئی کسی کڑوی کسیلی دوا کا بتا رہا تھا۔ مریض صاحب نالاں اور پشیماں دکھائی دیتے تھے۔ ایسے میں دروازے کے قریب بیٹھے شحض نے آہستہ آواز میں کہا "اسے حلوہ بنا کر کھلاو ممکن ہے تندرست ہو جائے گا"۔۔ یہ سننا تھا کہ مریض نے سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگ اصل دوائی کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے وہ دروازے والے بندے نے زبردست دوا بتائی ہے۔
بعینہ پار سال کی بات ہے موسم سرما یعنی کہ حلوے کا موسم تھا۔ڈاکٹر کے پاس جانے کا اتفاق ہوا، خون کا ٹیسٹ کیا تو ہیموگلوبن ریکارڈ حد تک اچھا تھا۔ نند صاحبہ کے استفسار پر ان کو راز بتایا کہ میرا ایچ بی تو حلوے سے ٹھیک رہتا ہے۔ وہ ذہنی امراض کی ڈاکٹر ہیں اس لئے تاحال ہمارے حلوے کی چاہ اور ایچ بی کی بہتری کا آپس میں کوئی سراغ نہیں پا سکیں ممکن ہے ذہنی خلل تصور کر کے خاموشی اختیار کی ہو۔ حلوے سے محبت کا یہ عالم ہے کہ بڑی دیورانی صاحبہ کا ماننا ہے کہ ہم ہر حلال چیز کا حلوہ بنانے اور کھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چھوٹی دیورانی کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو ان کے لئے جس قدر حلوہ بنا اس میں ہمارا بھی حصہ ہوتا تھا۔ وہ تو حلوہ کھانے سے اکتا گئیں مگر یہاں سیری نہ ہوئی۔ حلوے کی ہزاروں اقسام ہیں۔ ادب کی دنیا بھی حلوے کی معترف نکلی۔دو قدیم کتب نظر سے گزریں جن کے نام حلوے سے موسوم ہیں۔ نام ملاحظہ ہوں، حلوہ دانش و سرمہ بینش حکیم بھگت(اردو) اور مثنوی نان و حلوا از شیخ بہائی(فارسی)
اب چونکہ حلوے کا موسم پھر سے آ گیا ہے۔ سطوت رسول کی ایک نظم کا شعر ہے ۔
حلوے کھانے کے دن آئے
صحت بنانے آئے دھوپ
تو موسم سرما میں صحت بنائیں اور کچھ نادر و نایاب مگر آسان حلووں کی تراکیب ملاحظہ ہوں۔
چقندر:
جی ہاں درست پڑھا آپ نے۔ چقندر کا استعمال برصغیر میں بہت عام ہے، سلاد سے لے کر اس کا جوس کافی پسند کیا جاتا ہے۔ اس ایک جز بیتھین سے بھرپور ہوتا ہے جو سوجن پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چقندر بلڈ پریشر میں مفید ہے، خون بناتا ہے، جسمانی اور دماغی توانائی سے بھرپور ہے، قبض کا علاج ہے۔ اس کا ذائقہ اکثر لوگوں کو زیادہ مرغوب نہیں ہوتا تو ان کے لئے پیش خدمت ہے چقندر کا حلوہ۔
ترکیب:-
چقندر کو چھیل کر کدو کش کر...
چکنی مٹی کے لوگ
آج کل جگہ جگہ ایک مذہبی وسیاسی جماعت کے بینرز لگے ہوئے ہیں، ایک بینر پر لکھا تھا"قوم کو لاہور اورنج ٹرین،پنڈی میٹرو بس،ملتان میٹرو بس اور پیشاور میڑو سروس مبارک،کراچی والوں ٹیکس دیتے رہو اور دھکے کھاتے رہو"
اطلاعا عرض ہے کہ کراچی کے عوام کو دھکے کھانےمیں بہت مہارت حاصل ہے، چاہے وہ رکشے کے ہوں یا بس کے، گدھا گاڑی کے ہوں یا کھلی سوزوکی کے،سڑکیں اتنی لہراتی اور بل کھاتی کے کمر کا درد بلکل ٹھیک ہوجائے،دس نمبر لیاقت آباد کی سڑک(بکرا منڈی کے سامنے والی)میں جو دھکے کھاتے جھولا جھولنے کا مزہ عوام کو دس سال تک آیا وہ بیان سے باہر ہے، کئی بار خواہش ہوئی کہ سابق مئیر اور وزیراعلی صاحب کو بھی یہاں کے دھکوں کی سیر کرائی جائے، پھر خیال آیا نجانے کراچی میں ایسی کتنی ہی سڑکیں ہونگی وہ بچارے کہاں کہاں کے دھکوں کا مزہ لینگے۔
اب آتے ہیں کراچی والوں کی طرف۔ یہاں مختلف رنگ، نسل، مذہب اور فرقوں کے لوگ آباد ہیں جن کو اپنے حقوق کی سمجھ ہی نہیں ہے،مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے اور سرکارکو کوئی سروکار ہی نہیں
روڈ صاف ستھرے اور خوب صورت ہو یا ٹرانسپورٹ کا نظا م اچھا ہواشرافیہ کو صرف اپنے پیٹ کی فکر ہے ، حالیہ بارشیں ہوئیں توسوچا اس قوم کو اب تو اپنے حقوق کی سمجھ آ گئی ہوگی اور غصے میں بھرے گورنر ہاؤس یا وزیر اعلی ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے، لیکن ان کا حال تو ویسا ہی ہوا جیسا ایک بادشاہ کی رعایا کا تھا ۔
"ایک بادشاہ نے اپنی رعایا کو آزمانے کے لیے پہلےان کا کھانا بند کیا، پھر پانی و دیگر مراعات لیکن عوام کچھ نہ بولی، پھربادشاہ نے حکم دیا کہ کام پر آنے جانے والے راستوں پر ہر آدمی کو چانٹا مارا جائے، کچھ عرصے یہ چیز چلتی رہی آخر کار ایک دن رعایا محل کے باہر میدان میں جمع ہوگئی، بادشاہ خوش ہوا کہ چلو اب ان کو اپنے حقوق کا خیال تو آیا-عوام نے کہا بادشاہ سلامت ہمیں کام پر جاتے ہوئےدیر ہو جاتی ہےآپ سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی آپ چانٹا مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیں تاکہ ہم وقت پر اپنے کام پر پہنچ سکے-یہی حال ہمارے کراچی کی قوم کاہے-
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
پانچ روپے کا ماسک اور 200 کی بریانی
میرے آج کے کالم کا موضوع کچھ عجیب سا لگ رہا ہوگا کہ یہ ماسک اور بریانی کی پلیٹ کا آپس میں کیا تعلق،تو جناب کبھی کبھار تعلق یونہی بنا لینا چاہئے جیسا کہ ایک مزارع ایک زمیندار کے کھیت میں ہل چلا رہا تھا کہ ایسے میں زمیندار کا ادھر سے گزر ہوا۔زمیندار نے دیکھا کہ مزارع ہل ٹھیک سے نہیں چلا رہا ہے تو اس نے ڈانٹتے ہوئے اس مزارع سے کہا کہ غلامیاں! تم ’’سڑیوں کے ساتھ سڑی‘‘یعنی لائن کی ترتیب کے ساتھ ہل نہیں چلا رہے ہو،جس پر غلاماں بولا کہ چوہدری صاحب جب آپ نے اپنی دھی کا پیسہ کھایا تھا تو کیا میں بولا تھا؟چوہدری نے ذرا گھبراتے ہوئے پوچھا کہ بھلا اس جواب کا میرے سوال کے ساتھ کیا تعلق ہے تو مزارع نے کہا چوہدری صاحب ’’گلاں چوں گل ایویں ای نکلدی اے‘‘یعنی باتوں میں سے باتیں ایسے ہی نکلتی ہیں۔
لیکن میرے موضوع یعنی ماسک اور بریانی کا تعلق اس لئے ہے کہ آجکل حکومتی اور اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے جلسوں کا سلسلہ جو چلا ہوا ہے اس میں میری طرح آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ حکومتی ایوانوں سے ان کے مشیران جب بھی ٹی وی ٹاک شوز میں تشریف فرما ہوتے ہیں ان کی ایک ہی آواز ہوتی ہے کہ کرونا کا مرض ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے اس لئے عوام کو ایس او پیز کا خاص خیال رکھنا پڑے گا۔
بات بالکل درست ہے لیکن جب حافظ آباد کا جلسہ ہوتا ہے اور اس میں مہمان خصوصی خود ملک کے وزیر اعظم عمران خان صاحب خود تشریف لاتے ہیں تو کیا انہوں نے اپنے سامنے عوام کے ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو بنا ماسک کے نہیں دیکھا ہوگا؟اگر دیکھا تھا تو پھر کیوں اپنی انتظامیہ کو خبردار نہیں کیا کہ اتنی ساری عوام بنا ماسک کے کیوں ایک جگہ جمع ہوئی ہے۔اور انتظامیہ کا حال دیکھ لو کہ تماشائیوں کی تعداد پر ہر ٹی وی ٹاک شو میں بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے نمبرز اپوزیشن کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھے لیکن کوئی یہ نہیں کہیے گا کہ ہمارے جلسے میں آنے والی عوام کا شعوری لیول آپ کی عوام سے اس لئے بہتر تھا کہ انہوں نے حکومتی ہدایات کے مطابق کرونا کے خلاف ایس او پیز کا زیادہ خیال رکھا ہوا تھا۔
یہی حال اپوزیشن کے جلسوں میں بھی دیکھا گیا ہے اگر صرف گوجرانوالہ،کراچی کے جلسہ کو ہی لے لیں تو ہر میڈیا چینل نے دکھایا تھا کہ لوگوں کا جم غفیر جمع ہونا شروع ہو گیا ہے۔لوگ صبح سے ہی جوق در جوق جلسہ گاہ کی طرف آرہے ہیں ہر طرف بریانی اور کھانے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔بہت اچھی بات ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلا یا جارہا ہے۔کیونکہ بھوکے پیٹ تو سارا دن جلسہ گاہ میں عوام اپنے لیڈران کا انتظار نہیں کر سکتی۔اور ظاہر ہے بریانی کا انتظام بھی اپوزیشن کے ایم پی ایز اور ایم این ایز نے کیا ہوگا ،عوام تو اپنے ساتھ دو وقت کی روٹی ٹفن میں پیک کر کے اپنے ساتھ لانے سے رہی۔اگر...
بہت اچھی تحریر ہے ۔ ماشاللہ ۔۔ اللہ تعالی آپ کی اس کاوش کو قبول کرے ۔ اور نئی نسل کو شعور عطا کرے آمین
بہت اچھی تحریر ہے ۔ ماشاللہ ۔۔ اللہ تعالی آپ کی اس کاوش کو قبول کرے ۔ اور نئی نسل کو شعور عطا کرے آمین یا رب الآلمین