پلاسٹک کی مصنوعات بلائے جان

ہمارے اکثر تجربوں میں یہ بات آئی ہے کہ جو چیز جتنی زیادہ فائدہ مند ہو تی ہے بسا اوقات بلکہ حقیقتاً اس سے کئی گنا نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ سہولیات اگر زحمت بن جا ئیں اس کے اثرات نہ ختم ہوانے والے مہلک اور جان لیوا ہونے لگیں تو ان سہولیات سے جتنا جلدی ہو چھٹکارا حا صل کر نا چاہئے کہ یہی عقل مندی اور اہم ضرورت ہے۔ پلاسٹک کی دنیا حسین رنگین اور بہت ہی سستی، سہل اور اپنی دسترس میں ہوتی ہے۔
ٹا فی سے لیکر بڑی بڑی مشینوں کے پلاسٹک کور انہیں محفوظ پائیدار بناتے ہیں۔ اسی طرح ہزاروں پلاسٹک کے برتن کھانے پینے کی اشیاء کے پیکنگ مٹیریل، گلاس، بوتلیں، چائے کافی کے گلاس، پارسل کی اشیاء خصوصاً پلاسٹک کی تھیلیاں سرفہرست ہیں۔ گرما گرم پکوان سے لیکر ٹھنڈے یخ خستہ کھانے بھی ان ہی پلاسٹک کی تھیلیوں میں آتے ہیں۔ پھر سبزی، گوشت مرغی مچھلی پھل فروٹ آتے ہی پلاسٹک کی تھیلیوں اور ڈبوں میں ہیں بلکہ آجکل تو آپ دیکھ ہی رہے ہونگے کہ آرائشی اشیاء جھنڈے، کپڑے ہزاروں طرح کے غبارے اور سجاوٹ کا سامان چشمے ٹوپی سے لے کر جیولری یہاں تک کہ جوتے چپل سب کے سب پلاسٹک کے بنے ہوئے ہیں۔ بعض دفعہ تو ردی پلاسٹک ناکارہ اور استعمال شدہ سرجیکل مواد اور ان ٹوٹے پھوٹے پلاسٹک کے سامان اور تھیلیوں کو ری سائیکل کر کے دوبارہ ناقص قسم کا پلاسٹک اور مزید سستی تھیلیاں اور کچرے کے ڈبے اور سستے برتن بنتے ہیں جتنی وافر مقدار میں یہ ہیں۔ ہلکی اور سستی ہونے کی وجہ سے انسان ان کا اتنا عادی ہو گیا ہے کہ ان کے بغیر جینے کاتصور نہیں ہے۔ ان کے نقصانات، مہلک اور تکلیف دہ بیماریوں کا پایا جانا بھی کافی بڑھتا جا رہا ہے۔ جسمانی بیماریاں ہر طرح کے کینسرز ان ہی پلاسٹک کی مصنوعات کا تحفہ ہیں۔ پھر گندگی کی ایک بڑی وجہ بھی یہی پلاسٹک کا کچرا جن میں تھیلیاں سر فہرست ہیں اور ہر جگہ اور مقام کو آلودہ کیے جارہی ہیں برسوں سے کر رہی ہیں اور مزید برسوں تک کرتی رہیں گی کیونکہ یہ تحلیل نہیں ہوتیں دو سو سال تک اپنی حالت میں رہتی ہیں پھوٹک ہو کر ریزہ ریزہ ہو کر بھی زمین میں گندگی، فضا میں گندی بن کر رہتی ہیں۔ آبی حیات، پیڑ پودوں کیلئے بھی تباہی پھیلاتی ہیں۔ نظارے الگ بگاڑتی ہیں۔ ہر طرف آلودگی یہاں تک کہ درختوں میں اٹک اٹک کر ان کیلئے نہ صرف خطرہ ہوتی ہیں بلکہ پوری فضا کو مستقل آلودہ کرتی رہتی ہیں۔ فطری اشیاء قدرتی اشیاء میں یہ صلا حیت ہوتی ہے کہ وہ تحلیل ہوجاتی ہیں اور زمین کی زرخیزیت میں اضا فہ کرتی ہیں مگر یہ پلاسٹک مصنوعات نہ کھلتی ہیں نہ تحلیل ہوتی ہیں بلکہ پانی کی بوتلوں سے پانی میں اور کھانے پینے کی اشیاء میں دھیرے دھیرے تحلیل ہو کر ہر طرح کی زندگی کیلئے مسلسل خطرہ رہتی ہیں۔ آجکل بیماریوں کی نوے فیصد وجہ یہی تھیلیاں ہیں۔ یہی مصنوعات ہیں سارا دن بچے بڑے انہی میں لگے رہتے ہیں اور ان کے اثرات ان پر مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ پھر اچانک بیماریوں کے اعلانات سر سے پانی گزار دیتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیونکہ زندگی صحت سے جڑی ہے صحت نہیں توکچھ نہیں لہٰذا ہمیں اپنا لائف اسٹائل یعنی طرز زندگی بدلنا ہو گا۔ کاغذ اور کپڑے، دھاتی اور مٹی یا لکڑی کی اشیاء کو ہر پیمانے پر اپنانا ہو گا تا کہ آئندہ آنے والے گھمبیر خطرات سے بچا جا سکے۔ پچھلے کئی عشروں سے اس کیلئے اقدامات ہو رہے ہیں۔ اسکولوں میں باقاعدہ بچوں کا ان سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ حکومتوں کو بھی ہلایا گیا ہے۔ مگر زبانی یا کبھی تھوڑا بہت عملی اقدامات ہوتے ہیں اور پھر وہ بھی ختم! لیکن اب پانی سر سے گزر چکا ہے صفائی کا عملہ جانتا ہے کہ آلودگی کی وجہ فساد کی جڑ یہی ہے اس لئے اس سے جلد از جلد چھٹکارا پانی کی ضرورت اب کئی گنا بڑھ گئی ہے تو عمل بھی کئی گنا بڑھ جانا چاہئے موجودہ کچرے کو ٹھکانے لگانا بھی کوئی معمولی کام نہیں لیکن اس میں سنجیدگی اور تسلسل کی مؤثر کاروائی کی جتنی ضرورت اب ہو گئی ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ ہم مستقبل کو ایک صحت مند معاشرہ اور دنیا کو آلودگی سے پاک صرف اور صرف انفرادی، اجتماعی اور حکومت سے معاونت کی بنیاد پر کرکے اپنایہ حق نبھا سکتے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ نہ صرف اپنے گھریا ملک کو بچایا جائے بلکہ پوری دنیا کی بھلائی کیلئے جان توڑ کوششیں کی جائیں۔ میرا یہ مضمون اسی سلسلے کی پہلی خاموش کوشش ہے۔ امید ہے آپ سب اس کوشش میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں گے اور اس دنیا کوصرف آج کیلئے نہیں، کل کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کیلئے پلاسٹک کی مصنوعات پر قابو پاکر آلودہ ہونے سے بچائیں۔ ان شا ء اللہ

حصہ

جواب چھوڑ دیں