اب کے مار کے نہیں مارکے دیکھ

انڈ و پاک کی کہانیوں، افسانوں، ناولوں، فلموں، ڈرا موں اور تاریخ کی کتابوں کو اٹھا کر دیکھ لیں ان میں قوم کا ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا تھا جو ہر تھپڑ کھانے کے بعد یہ کہتا نظر آتا تھا کہ “اب کے مار کے دیکھ”۔ اب قوم کا وہ طبقہ تو ضرور موجود ہے لیکن کہنے سے پہلے ہی ماردیا کرتا ہے اور پھر مرجانے والے کو دیکھ کر کہتا ہے “کہو کیا حال ہے”۔ قوم کے اس طبقے نے تو اپنی ساری عادات و روات کو کچھ یوں بدل کر رکھ دیا کہ اب نہ ان کے وہ الفاظ قصوں میں، نہ کہانیوں میں، نہ کتابوں میں، نہ فلموں اور نہ ہی ڈرا موں میں سنائی دیتے ہیں اور نہ ہی کہیں تحریر کی صورت میں نظر آتے ہیں لیکن اس طبقے نے پاکستان کی دیگر اقوام کا مزاج ایسا بگاڑ کر رکھ دیا ہے کہ بڑے سے بڑا واقعہ ہوجائے، پڑوس کے ملک سے بڑی سے بڑی تخریب کاری ہو جائے اور سرحدی خلاف ورزیاں حد سے ہی کیوں نہ گزر جائیں، جواب میں انتظار کیا جاتا ہے کہ اب کے مارے گا تو تو پھر دیکھ لیا جائے گا۔

ممکن ہے کہ ہر سوال کے جواب میں دو گولے زیادہ ہی برسادیئے جاتے ہوں یا دو کے مقابلے میں چار لاشیں گرا دی جاتی ہوں لیکن کبھی یوں نہیں ہوا کہ ایسا بھرپور جواب دیا گیا ہو کہ دشمن کی میلی آنکھ دوبارہ ہماری سرحدوں کی جانب دیکھنے کی جرات ہی نہ کر سکی ہو۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا تاہم بھارت نے حملہ کیاتومنہ توڑ جواب دیں گے۔ اس بیان کے “حسنِ بیان” میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موجودہ حکومت کس حملے کے متعلق یہ سمجھے گی کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ کشمیر قانونی اور اخلاقی اعتبار سے پاکستان ہی تھا اور پاکستان کشمیر کی صبح ازل سے تا دم تحریر اس کو پاکستان کا حصہ ہی قرار دیتا آیا ہے۔ اب تک پاکستان میں قائم ہونے والی کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں بنی جس نے ایک لمحے کیلئے بھی، کہنا تو کجا، یہ بھی سوچا ہو کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے دنیا کے ہر فورم پر یہی آواز اٹھائی کہ کشمیر پاکستان ہی کا حصہ ہے اور اگر اس میں اقوام عالم کو کوئی تردد ہو تو وہ وہاں استصواب رائے کرا کے دیکھ لے۔ پاکستان نہ صرف کشمیر کو اپنا حصہ کہتا اور مانتا رہا ہے بلکہ یہ قربانی بھی دینے کیلئے تیار رہا ہے کہ اگر کشمیری چاہیں تو وہ کشمیر جس پر بھارت نے جارحیت کرکے قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ کشمیر جو پاکستان کے زیر اثر ہے، ایک آزاد و خود مختار ملک بننے کے حق بھی مانگے گا تو پاکستان ان کے اس حق کو بخوشی قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کشمیر میں جو آواز “آزادی” کی بلند ہو رہی ہے اس میں ابھی تک خود مختاری کی کوئی بھی آواز شامل نہیں بلکہ وہاں کا بچہ بچہ اگر آزادی کا نعرہ بلند کررہا ہے تو وہ ہندوستان سے آزادی کا نعرہ بلند کر رہا ہے۔ ان کے نعروں میں جو بات الم نشرح ہے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کی آواز ہے اور وہ واضح طور سے بھارت سے علیحدگی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ کشمیر میں بلند ہونے والے نعر وں اور چلنے والی تحریکوں کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کشمیر سو فیصد پاکستان ہی ہے، پاکستان ہی تھا اور پاکستان ہی رہے گا اور کشمیر کا ایک ایک فرد صرف اور صرف پاکستان ہی کے ساتھ رہنا اور بسنا چاہتا ہے۔ اگر یہ سب سچ ہے، اگر پاکستان کا 1947 سے یہی کہنا ہے کہ کشمیر پاکستان ہے اور کشمیر پاکستان کی “شہ رگ” ہے تو پھر پاکستان کے عوام موجودہ حکومت سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ پاکستان پر حقیقی حملہ کونسے حملے کو تصور کیا جائے گا۔

اسمبلی میں واضح طور پر یہ کہا گیا اور کہا بھی وزیراعظم کی جانب سے گیا کہ “اگر بھارت نے ہمارے کشمیر یعنی وہ کشمیر جو ہمارے زیر تسلط ہے، اس پر حملہ کیا تو ہم اس حملے کا بھرپور جواب دیں گے، ایک ناقابل فہم بات ہے۔ یہ کہنا اس بات کو تسلیم کرلینے کے مترادف ہے کہ وہ کشمیر جس پر بھارت نے فوج کشی کرکے قبضہ کیا ہوا ہے، جہاں اس نے کشمیریوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا ہوا ہے اور جہاں انسانی خون کو پانی سے بھی زیادہ سستا بنایا ہوا ہے، وہ کشمیر پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت ہی کا حصہ اور علاقہ ہے اور وہ وہاں کے عوام کے ساتھ جس قسم کا سلوک روا رکھنا چاہے رکھنے اور کشمیر کی تقدیر بدلنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے۔ اگر حکمرانوں کی یہی سوچ ہے اور جو “ان کا ان کا” اور “ہمارا ہمارا” ہی کا معاملہ ہے تو پھر 70 برسوں سے کٹا چھنی کس بات کیلئے ہوتی رہی ہے؟۔

وزیر اعظم کی اس بات سے اہل پاکستان اور اہل کشمیر پر کیا گزررہی ہوگی کہ “اگر ہم پر حملہ ہوا تو ہم اس کا جواب بھرپور طریقے سے دیں گے”۔ گویا جس کشمیر پر بھارت نے کاری وار کر کے اسے لہولہان کرکے رکھ دیا ہے، جس کشمیر کی خاطر آج تک افواج پاکستان اور کشمیری مجاہدین جانوں، عزتوں اور آبروؤں کی قربانی دیتے چلے آئے ہیں، وہ ہمارا تھا ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کشمیرجس پر بھارت نے جبراً قبضہ کیا ہوا تھا، جب پاکستان کا حصہ تھا ہی نہیں تو پھر پاکستان سے لیکر اقوام عالم تک پاکستان نے کس لئے ایک شور برپا کیا ہوا تھا۔ جب تمہارا تمہارا اور ہمارا ہمارا ہی کا جھگڑا تھا تو اس کیلئے 70 سال لگانے کی کیا ضرورت تھی۔

اگر آئینی آرٹیکل 370 اور اس کی ذیلی شق 35 اے کے خاتمے کے بعد کی صورت حال کے مطابق کشمیر کو دیکھا جائے تو کشمیر اس وقت 1947 والی پوزیشن میں آگیا ہے۔ جب کشمیر 1947 والی پوزیشن میں آگیا ہے تو وہ کشمیر جو پاکستان کے زیر تسلط ہے کیا بھارت کا اگلا مطالبہ اس کشمیر کو پاکستانی فوج سے واپس لینے کا نہیں کیا جائے گا۔ کیا پاکستان کے زیر تسلط کشمیر میں اگلی تحریک، تحریک آزادی یا آزاد و خود مختار کشمیر کی صورت میں نہیں چلائی جا سکتی۔ جب مقبوضہ کشمیر کے عوام کی پاکستان سے الحااق کی جدوجہد پر پاکستان کی جانب سے اس قسم کی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جائے گا تو کشمیری، وہاں کے ہوں یا یہاں کے، مایوسی کے ایک ایسے دور میں داخل نہیں ہوجائیں گے جہاں دونوں کا اعتبار پاکستان سے اٹھ جائے اور وہ یک زبان ہوکر اقوام متحدہ سے اپنے حق کیلئے از خود اٹھ کھڑے ہوں۔ ان سارے خدشات کا ہو وقت موجود رہنا نا قابل امکان نہیں بلکہ ایسا ممکنات سے قریب تر ہے۔ اس صورت حال میں اگر خود ہمارے زیر تسلط کشمیر میں کوئی منفی تحریک چل نکلی تو یہ صورت حال بہت ہی تشویش ناک ہوگی اور جس طرح مشرقی پاکستان میں ہندوستان نے مکتی باہنی کا ساتھ دے کر پاکستان کو دولخت کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اللہ نہ کرے کچھ ایسی ہی صورت حال پاکستان میں بھی جنم لے لے۔

وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا کہ “مودی ہٹلر کے راستے پر چل نکلا ہے، اس نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 ختم کرکے اپنا آخری پتہ کھیل لیا ہے، جب کرفیو اٹھایا جائے گا تو وادی کے اندر سے شدید ردعمل آئے گا، مودی سرکار نسل پرست لوگوں کا ٹولہ ہے، یہ ٹولہ بھارت میں صرف ہندوں کو دیکھنا چاہتا ہے، اسے پوری دنیا میں بے نقاب کریں گے، کشمیریوں کی سفارتی، سیاسی اوراخلاقی حمایت جاری رکھیں گے، یہ رائے عامہ کی جنگ ہے، ہم یہ جنگ ضرور جیتیں گے”، حوصلہ افضا ہی سہی لیکن کیا الفاظ کے مرہم کشمیریوں کے کاری زخم کو بھر سکیں گے؟۔ جس کشمیر پر ایسی کاری ضرب کو پاکستان اپنے ہی جسم پر پڑنے والی ضرب ماننے کیلئے تیار نہیں اور اس بات کا انتظار کررہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے باہر نکل کر جب پاکستان کے کشمیر کی جانب کوئی محاذ کھولے گا تب پاکستان یہ سمجھے گا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے، تو کیا صرف ہمدردی کے یہ میٹھے بول ان کے دل میں لگنے والی آگ کو گل و گلزار بنا سکیں گے؟۔

میں جس خدشے کی بات کر رہا ہوں وہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اور اگر اس پر غوروخوض نہ کیا گیا  تو آنے والے دن کوئی بہت اچھی کہانیاں سناتے نظر نہیں آ رہے۔ پاکستان سے اعتماد اٹھ جانے کے بعد اپنے آپ کو “اِدھر اُدھر” کی قید سے سے آزاد کرکے خود مختاری کی جانب چلے جانا کوئی ایسا امر نہیں جس کو انہونی سمجھا جائے کیونکہ “اِس پار بھی لیں گے آزادی اُس پار بھی لیں گے آزادی” کے نعرے اور موجودہ صدر آزاد کشمیر کا یہ فرمانا کہ “اگر یہی صورت حال رہی تو ہم کچھ اور بھی فیصلہ کر سکتے ہیں”، کی باتیں ایسی نہیں جن کو آسان سمجھا جائے لہٰذا پاکستان، پاکستان کی حکومت اور پاکستان کی عسکری قوتوں کو اس ساری صورت حال میں تماشائی بننے کی بجائے کوئی ٹھوس اور حتمی قدم اٹھانا پڑے گا۔ اگر سوچ و بچار میں زیادہ وقت گزرگیا تو “شہ رگ” کٹ جانے کے بعد خون کے بہاؤ کو روکنا ممکنات سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں