موٹیویشنل اسپیکر

اس وقت دنیا کے بہترین کاروباروں میں سے ایک کاروبار  حوصلہ مند خطابت ہے۔موٹیویشنل اسپیکر لوگوں کو ان کی خامیوں، کمزوریوں سے آگاہ کرتے ہیں اور ان پر قابو پانے کے طریقے انہیں بتاتے ہیں۔ آپ کے پاس سوچنے کی صلاحیت ہے، اپ کی تعلیم کچھ بہتر ہے اور آپ نے تمام معاملات کو گہری نظر سے دیکھا ہے۔ آپ نے مختلف کاروباروں کا، حالات کا، مختلف لوگوں کی زندگیوں، انکے کاروباری نظریات کا، ان کے ذاتی کردار، افکار اور ان کی ذات سے جڑی کامیابیوں، ناکامیوں کا مطالعہ کیا ہے۔ آپ نے متعدد شعبوں سے متعلق لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں، ان سے ان کے حالات، ان کے شعبے کے معاملات، ان کے طور طریقے، مشکلات، فنی مہارتیں، ان کے متعلقہ لوگوں کے مزاج، کردار، شعبے سے حاصل ہونے والے منافع اور نقصانات کا خاکہ آپ نے حاصل کیا ہے۔ آپ نے محنت کی ہے، اس سب ریکارڈ کو آپ نے اپنے گراف میں محفوظ کیا، اس گراف کو آپ نے اپنے ذہن میں اپڈٹ کیا۔ مذہب کو پڑھا۔ آپ نے بہترین گفتگو کا سلیقہ سیکھا، الفاظ کے در و بست، ہجے، لہجے کا اتار چڑھاؤ، الفاظ کے درست موقع پر درست استعمال سمیت گفتگو کے ہر پہلو کو درست کیا، نکھارا، اپنی گفتگو کو پُر تاثیر بنایا اور پھر گفتگو کے اس تراشیدہ فن کو اپنے محنت سے حاصل کیے گئے تمام مشاہدات سے ہم آہنگ کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ انہیں ایک ریفری کی طرح گائیڈ کیا؛ جس کی نظر ہرکھلاڑی کے ہر طریقے پر ہوتی ہے اور وہ ہر کھلاڑی کے بارے میں بتا دیتا ہے کہ فلاں نے فلاں کام کیا، درست کیا یا غلط کیا۔ آپ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ آپ اپنے شعبے میں اس اس مسئلے سے دوچار ہیں تو اس اس مسئلے کا یہ حل ہے، آپ کو فلاں کمزوری پر قابو پانے کی ضرورت ہے، فلاں طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ کو اخلاقیات، ذاتیات، اصولی، قانونی، سمیت فلاں اوصاف کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اور ایسا سب کچھ کرنے کا، لوگوں کو سمجھ کر، انہیں سمجھانے کا، انہیں حوصلہ دینے کا، انہیں بتانے کا کہ تم اچھے ہو، اچھا کر رہے، برے ہو یا برا کر رہے ہو، آپ معاوضہ لیتے ہیں۔

 ہمارے کچھ دوست حوصلہ مند خطیب کے اچھے خاصے معاوضے پر اعتراض کرتے ہیں، تو میری رائے یہ ہے کہ حوصلہ مند خطابت کے لیے ابتدائی ادوار میں کی جانے والی کوششیں اور جھیلی جانے والی مشکلات دیکھی جائیں۔ بغیر معاوضہ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنا، خود کو ڈی گریڈ کر کے لوگوں سے درخواست کرنا کہ مجھے بولنے دیں، کم تجربہ کاری کے دور میں گفتگو کے دوران اٹکنے، گفتگو بھول جانے، گفتگو سمیٹ نہ سکنے، باتوں باتوں میں موضوع سے ہٹ جانے یا کسی بھی ہلکی، چھوٹی موٹی خامی کی وجہ سے لوگوں کی باتیں سننا، برداشت کرنا اور دوبارہ سے خود کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا۔ بڑے حوصلہ مند خطیب کا ہتک آمیز رویہ برداشت کرنا۔ یہ سب ہو پھر بھی اپنے آپ کو اسی فیلڈ سے منسلک رکھنا تو دیکھا جائے۔ پھر اس سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو ایک حوصلہ مند خطیب کے طور پر متعارف کروانے کے لیے جو مستقل سالہا سال پر مشتمل کوشش ہوتی ہے، کیا اس کے بدلے میں یہ معاوضہ انہیں نہیں ملنا چاہیے؟ جب ہر کاروبار سے ہاتھ اٹھا کر صرف لوگوں کو گائیڈ کرنے پر اپنی زندگی کا قیمتی وقت صرف کر دیا جائے تو کیا اس کے بدلے میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے معاوضہ لینا غلط ہے؟ کیا اپنے گھر سے ہفتہ ہفتہ دور رہ کر، مختلف قسم کے لوگوں کی میزبانیاں برداشت کرنا، مختلف جگہوں پہ رہنا، عجیب رویوں کو برداشت کرنا، سفر کی مشکلات جھیلنا، گاڑیوں کے دھکے کھانا، کرایوں کی مد میں اپنی جیب سے پیسے لٹانا، انجانی جگہوں پر، انجانے لوگوں کے پاس جانا، ایسا اسان کام ہے؟ کیا اس کے بدلے میں اگر انہیں لیکچر کا معاوضہ دے دیا جائے تو یہ غلط ہے؟

بات یہ ہے کہ ہمیں حوصلہ مند خطیب، مشیرانِ کردار اور ماہرینِ نفسیات کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ بڑی بڑی ڈگریاں، جن کا بوجھ اٹھانا بڑے بڑے پہلوانوں کے لیے بھی مشکل ہے، یہ بچے ہاتھوں میں لیے پھررہے ہیں۔ تعلیم کی مد میں ان پر کروڑوں خرچ کر دیے جاتے ہیں۔ انہیں ان کی پڑھائی کا مقصد ایک عدد نوکری بتایا جاتا ہے۔ انہیں والدین کی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ان کی اپنی سوچ کا گلا دبا دیا جاتا ہے۔ انہیں چھوٹا چھوٹا کہہ کر ان سے بڑا ہونے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ان پر انپڑھ سوچ مسلط کر دی جاتی ہے۔ جو کام ان سے ہو نہیں سکتا، وہ زبردستی ان سے کروایا جاتا ہے، جو کام یہ کر سکتےہیں وہ انہیں کرنے نہیں دیا جاتا۔ ان سے ان کا وقت چھین لیا جاتا ہے، تاکہ یہ اپنے ذوق، اپنی پسند، اپنی مرضی کا کام نہ کر سکیں، لیکن اس کے باوجود بھی اگر یہ اپنی مرضی کا کام کر جائیں تو ان کی اس کام میں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ انہیں ڈانٹا جاتا ہے، انہیں روکا جاتا ہے، “فضول کام” کہہ کر انہیں متنفر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سب کچھ تقریبا ہر نوجوان کو جھیلنا پڑتا ہے۔ پھر ہمارے جوانوں کا طبقہ ہے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے نوجوانی میں اوپر بتائے گئے رویے جھیلے ہوتے ہیں اور پھر انہیں اچانک جوان ہو جانا پڑتا ہے۔ اکثر اس وجہ سے کہ ان کے بڑے، جو انہیں چھوٹا چھوٹا بنائے رکھتے تھے، یا تو وفات پا جاتے ہیں، یا بیمار ہو جاتے ہیں، یا تھک ہار کر انہیں کہہ دیتے ہیں کہ اب اپنی ذمہ داری پر ایک ہی رات میں بڑے ہو جاؤ۔ پھر یہ جوان لڑکے اپنے بڑے پن کو سنبھال نہیں سکتے، جوانی کے جوش میں بگڑ جاتے ہیں یا جوانی کی ذمہ داریوں کے بوجھ کے نیچے دب کر ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں اور قصہ ختم ہو جاتا ہے۔

 ایسے حالات میں لازم ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہم میں موجود ہوں، جو ہمارے رویوں، ہمارے افکار اور ہمارے اندر چلنے والی سوچوں کے جواز اور عدم جواز اور ان سوچوں کی صحت کے بارے میں ہمیں آگاہ کر سکیں۔ ہمیں والدین کی حیثیت سے، اولاد کی حیثیت سے، بڑے بھائی، چھوٹے بھائی کی حیثیت سے رویوں کے اختیار کرنے کا ٹیکنیکل اور پڑھا لکھا سلیقہ سکھائیں اور ہمیں اپنی زندگیوں کو آسان بنانے میں مدد فراہم کریں۔ اور ایسے لوگ حوصلہ مند خطیب ہی ہیں۔

حصہ
mm
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔.

جواب چھوڑ دیں