بچپن سے ہی ایک ذکر سنا تھا، ایک دلفریب تذکرہ، کشمیر کی ارضی جنت کا، اور ذرا بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ وہ ارضی جنت تو دشمن کے قبضے میں ہے، اور اس کا تھوڑا سا حصہ پاکستان کے ساتھ الحاق شدہ ہے، اور پھر اس جبری قبضے کی تفصیلات معلوم ہوئیں تو کشمیری قوم کی حالت پر سخت دکھ ہوا، جو آج سے نہیں بلکہ ڈوگرہ راج کے زمانے سے غلامی در غلامی کا عذاب سہہ رہی ہے، بار بار اسے دھوکہ دیا گیا، اور کتنی ہی بار آزادی کی منزل دو ہاتھ کے فاصلے پر پہنچ کر ان سے چھین لی گئی، کسی مکار نے، کسی عیار نے کسی بین الاقوامی ادارے کی طفل تسلیوں نے ہر بار ہی کشمیریوں سے حق ِ آزادی چھین لیا۔ یہ کہانی۶۴۸۱ء سے شروع ہوتی ہے جب کشمیری قوم کا سودا ۵۷ لاکھ نانک شاہی میں ہوا، اور اسے گلاب سنگھ کی جھولی میں ڈال دیا گیا، ۷۴۹۱ء کی تحریک آزادی میں مسلم آبادی کا علاقہ جموں و کشمیر آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا، مگر ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ نے کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کے خوابوں کو چکنا چور کرتے ہوئے بھارت سے الحاق کی سازش کی، جسے کشمیر کے عوام نے تسلیم نہیں کیا اور بزور شمشیر اپنا حق حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دی، اور اپنی قوت ِ ایمان اور جذبہء جہاد سے کشمیر کے کافی حصّے کو آزاد کروا لیا، بھارت نے کشمیر کی ریاست کو ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اقوام ِ متحدہ میں پہنچ کر واویلا کیا، اور یوں کشمیر ایک متنازعہ خطہ قرار پایا جس کے عوام نے اپنی مرضی سے رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا، کشمیر کے آزاد شدہ حصّے نے پاکستان سے الحاق کر لیا، اور دوسرے حصّے پر بھارت نے جبراً اپنی فوجیں داخل رکھیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت اپنے وعدوں کی تکمیل میں لیت و لعل ہی سے کام نہیں لیتا رہا بلکہ ہر کچھ عرصہ بعد ظلم کے اس شکنجے کو اور زیادہ شدید کرتا چلا جا رہا ہے۔
کشمیر کے دکھ کی کہانی کہاں سے شروع کروں، جب معاہدہء امرتسر کے نتیجے میں اس آزاد قوم کو غلام بنا لیا گیا، اور ڈوگروں نے اس پر ظلم کی انتہا کر دی، ان سے جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا، مساجد کو اصطبل اور بارود خانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا اور مسلمانوں کو اذان دینے اور جمعہ کا خطبہ دینے کی بھی اجازت نہ دی جاتی۔ ایک شر انگیز اور متنفر قوم کو کشمیر کے مسلمانوں پر اس طرح حاکم بنا دیا گیا کہ گویا سکھوں کو کشمیریوں کے قتل کا پروانہ تھما دیا، جس کی سفاکی کی انتہا یہ تھی کہ اگر کوئی سکھ کسی کشمیری کو قتل کر دیا جاتا تو اسے سزا کے طور پر (سولہ روپے) ۶۱ نانک شاہی ادا کرنے پڑتے، جس میں سے دو روپے مقتول خاندان کو (دیت کے طور پر) ادا کئے جاتے۔یعنی انیسویں صدی میں ایک کشمیری کے خون کی قیمت صرف دو روپے تھی۔
معاہدہء امرتسر کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا:
دہقاں وکشت وجوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند وچے ارزاں فروختند
۰۳۹۱ء میں عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی، اور کچھ نوجوانوں نے ڈوگرہ مظالم کے خلاف عوامی مطالبات کی یاد اشت پیش کرنے کا منصوبہ بنایا، اوراسے عوام کے ایک اجتماع میں پیش کیا، وہیں ایک نامعلوم تعلیم یافتہ نوجوان عبد القدیر نے لوگوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح مزاحمت پر آمادہ کیا،ڈوگرہ حکمران کو خبر ملی تو اسے فوری طور پر گرفتا ر کر لیا گیا، اس کا مقدمہ سنٹرل جیل سری نگر میں چلایا جا رہا تھا، جہاں عوام کی بڑی تعداد اس مقدمے کو سننے کے لئے جمع تھی، جب سیشن جج وہاں پہنچا تو لوگوں نے اس کی گاڑی روک کر اس سے مطالبہ کیا کہ عبد القدیر سے انصاف کیا جائے، جس پر جج مشتعل ہو گیا اور پولیس کو بلا لیا، اس موقع پر ایک نوجوان نے اذان دینا شروع کی، تو پولیس کی جانب سے اس پر فائر کھول دیا گیا، پھر دوسرا نوجوان آگے بڑھا اور اس نے گولی کھائی، یہاں تک کہ اذان مکمل ہونے تک اکیس (۱۲) کشمیری رتبہء شہادت پا چکے تھے، یہ ہے کشمیر کی تاریخ!! یہ ہے ایمان کی وہ حرارت جسے ظلم اور جبر کی کوئی طاقت کشمیریوں کے دلو ں سے مٹا نہیں سکی۔
یوم ِ شہداء ۳۱ جولائی ۱۳۹۱ء ہی کو آزادیء کشمیر کا بیج ایمان اور تقوی کی سرزمین میں لگ گیا تھا، اس کے بعد اقتدار ڈوگرہ سامراج سے ہندو بنیے کو منتقل ہو، خواہ دہائیوں تک شیخ عبد اللہ اور اس کی اولاد بھارتی حکمرانوں کی کٹھ پتلیوں کا کام کرتے رہیں، کشمیریوں کے دلوں سے آزادی کی شمع گل نہیں کر سکے۔ ملک اور ریاستیں خار دار باڑ لگا کر نہیں بنتیں، جبر کی زنجیریں اٹوٹ رشتے نہیں پیدا کرتیں، اور جذبہء آزادی طاقت کے زور پر سرد نہیں کیا جا سکتا، اگر ایسا ہوتا تو بھارتی ایوانوں میں آئین کی شق۰۷۳ کے خاتمے کے بعد کشمیری مایوسی کی چادر لپیٹ کر سو جاتے، لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ہر طاقتور اسی زعم میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ جبر اور ظلم سے حق دار کا منہ بند کر دے گا، یا کچھ مراعات دے کر رام کرلے گا، بھارت بھی گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر میں ”کیرٹ اینڈ سٹک“ کی پایسی اپنائے ہوئے ہے مگر کشمیریوں کو ”کیرٹ“ متاثر کرتی ہے نہ وہ سٹک سے خوفزدہ ہوتے ہیں، بوڑھا علی احمد گیلانی جس کی جوانی آزادی کا خواب دیکھتے ہوئے گھل گئی، جس کا بڑھاپا اسی خواب کو دیکھتے ہوئے گزر رہا ہے، بلکہ یہی خواب اسے جوان کر دیتا ہے، وہ جب بولتا ہے تو شیر کی گرج سے، اور بھارت کی دلربا پر کشش پیش کش کے جواب میں غیر متزلزل ایمان کے ساتھ کہتا ہے:
اگر بھارت ہماری سڑکوں پر تارکول کے بجائے سونا بھی بچھا دے۔۔ تو بھی اس کا ساتھ قبول نہیں، کیونکہ یہ نظریے کا الحاق ہے، یہ مسلمان علاقے کا مسلمانوں کے ساتھ فطری الحاق ہے۔
اس فکر کی اہمیت کو وہی جان سکتا ہے جو قائدِ اعظم کے دو قومی نظریے کو سمجھ گیا ہے، ورنہ بھارت نے تعلیم اور روز گار اور اعلی مراتب اور پرتعیش زندگی کے حصول کا فریب بھی دینے کی کوشش کی اور انتخابات کے ذریعے اپنی کٹھ پتلی حکومت کی آڑ میں جمہوری ہونے کی مکاری بھی کی، لیکن جب کشمیری قوم آزادی سے کم کسی شے پر راضی نہ ہوئی تو انہیں طاقت سے کچلنے کی کوشش کی، اور ان کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسی نہیں اٹھا رکھی، انکے باغوں کو آگ لگائی اور کبھی مکانوں کو، ان کے کاروبار تباہ کر دیے گئے، مردوں کی بڑی تعداد کو شہید کیا گیا، عورتوں کی عصمت دری کی گئی، اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ٹارچر سیلوں میں موت سے بڑھ کر اذیتوں سے دو چار کیا گیا، کتنے ہیں جو ابھی تک جیلوں میں بند ہیں، جنہیں مناسب خوراک ملتی ہے نہ علاج معالجہ کی سہولت، لبریشن فرنٹ کے سربراہ کشمیری لیڈر یاسین ملک مفلوج ہو چکے ہیں، انتہائی شدید بیمار ہیں، مگر آج بھی تہاڑ جیل میں قید ِ تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہیں، کہ ان کے خاندان کو بھی ان سے ملنے نہیں دیا جاتا،کتنے ہی لیڈرز کو شہید کیا جا چکا ہے۔ سید علی گیلانی کی زندگی کا بڑا حصہ جیل کی دیواروں کے پیچھے گزرا ہے، دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی، فریدہ بہن جی اور کئی خواتین بھی اسی ہمت کے ساتھ جدو جہد ِ آزادی میں شریک ہیں۔
بھارت کے عقوبت خانے دنیا کے بدترین ٹارچر سنٹرز ہیں، جہاں نوجوانوں کے ناخن زنبور سے نوچ کر الگ کر دیے جاتے ہیں، ایسی اذیت کہ جسموں کی کھال تک ادھڑ جاتی ہے، کتنے ہی قیدی ذہنی طور پر ناکارہ ہو جاتے ہیں، اور کتنے جسمانی معذور، اور جو اس اذیت کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ان کی تعداد بھی کم نہیں۔
گزشتہ کچھ برس سے بھارتی فوج عوام کے جسموں پر ”پیلٹ گنز“ سے حملہ کر رہی ہے، جس سے کئی نوجوانوں کی آنکھیں تک ضائع ہو چکی ہیں، لیکن کیا جبر کے ان ہتھکنڈوں سے کشمیری عوام آزادی کے خواب دیکھنا چھوڑ دے گی، کیا پون صدی کی قربانیاں ایک صدارتی آرٹیکل کی منظوری سے بے نشان ہو جائیں گی؟؟ ہر گز نہیں، یہ کشمیریوں کے جذبہ ء آزادی کے لئے مہمیز ثابت ہو گا، کشمیر کے شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، جہاں ایک شہید کا خون گرتا ہے تو ایک اور فصل سر کٹانے کو تیار کھڑی ملتی ہے، چند برس پہلے ہی کی تو بات ہے، جب برہان مظفر وانی کو شہید کر کے بھارت نے اپنے طور ایک کانٹا صاف کیا تھا، مگر اس کے پچاس مرتبہ پڑھے جانے والے جنازے نے ہی بھارت کی نیندیں اڑا دی تھیں، اور آزادی کی تحریک کو نیا ولولہ مل گیا تھا۔
مجھے صلح حدیبیہ کے موقع پر بیڑیوں میں جکڑے ہوئے کفار کی قید سے بھاگ کر آنے والے ابو جندلؓ یاد آ رہے ہیں، جن کی اذیت تو ان کے حال پر لکھی تھی، اور کرب ان کے الفاظ بیان کر رہے تھے، اور جب رسول ِ کریم ﷺ نے انہیں معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ظالم کافر باپ کے حوالے کیا تو کوئی اور راستہ نکل آنے کا اشارہ بھی کیا تھا، اور ابو جندل ؓاور ابو بصیرؓ اور کتنے ہی اور مجبوروں کو ظلم سے نکلنے کا راستہ اللہ نے سجھایا تھا، جب انہوں نے شام کی شاہراہ پر کفار کی اقتصادی شاہراہ کو پر خطر بنا دیا تھا، اور اے پیارے کشمیریوں، اگر پون صدی سے تمہارا جذبہء آزادی کوئی سرد نہیں کر سکا، تو اب بھی نہیں کر سکے گا، ہاں تمہارے اس حال تک پہنچنے میں ہماری غفلت بھی شامل ہے، تم تو بھارتی ثقافت کے رسیا نہ بنے، اس کی بڑی بڑی صنعتوں اور نت نئے کاروباروں اور دنیا میں پھیلتے ہوئے اثر و رسوخ پر تم تو نہ ریجھے، مگر ہمارے حکمران ریجھ گئے، اور معاش کے سدھار اور کاروباری رابطوں ہی کو اولیت دے دی، یہ بھول گئے کہ ان کی شہ رگ اغیار کے پنجے میں ہے، اور پاکستان کی آزادی کا نقشہ ابھی ادھورا ہے، ہر برسر ِ اقتدار گروہ نے کشمیر کو اپنی انتخابی مہم کا حصّہ تو بنایا، مگر اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے اس کی تکمیل کا کم ہی خیال آیا، کبھی حریت رہنماؤں کی فہرستیں بھارتی حکمرانوں کو فراہم کی گئیں اور کبھی ان کی پاکستان آمد پر کشمیر ہاؤس کے بورڈ تک اتروا دیے، کبھی واجپائی کا بھر پور استقبال، اور اس کے سامنے مظاہرہ کرنے کی تیاری کرنے والوں پر بد ترین تشدد! کبھی مودی اور جندال سے خفیہ اور اعلانیہ رابطے!
اس سب کے باوجود پاکستانی عوام کے دل اہل ِ کشمیر کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اور اس یوم ِ آزادی کے موقع پر جشن کا نہیں سوگ اور ماتم کا سماں ہے، لیکن ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح طلوع ہوتی ہے، یہ اللہ کا نظام ہے، اور اسے کوئی الٹ نہیں سکتا، جموں و کشمیر پر چھائی تاریکی کی دبیز تہہ ضرور ختم ہو گی، کشمیر آزاد ہو گا۔ ان شاء اللہ
علامہ اقبال کا شعر تضمین کے ساتھ:
اگر”کشمیریوں“ پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
کشمیر کی حیثیت کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے، مگر نظریے کی اس لکیر کو مٹانا بھارت کے بس میں نہیں ہے، کیا یہ تقدیر کا مذاق نہیں ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کی متحرک وزیر ِ خارجہ سشما سوراج آئین کے آرٹیکل ۰۷۳ کے خاتمے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش قرار دے رہی تھی، اور ابھی اس ٹویٹ کی سیاہی بھی نہ مٹی تھی کہ سشما سوراج پر شادیء مرگ طاری ہو گئی، اور کشمیریوں کے نظریے کو دفن کروانے میں پیش پیش سشما سوراج موت کی وادی میں چلی گئی۔
جب تک کشمیری زندہ ہیں، مسئلہ کشمیر بھی زندہ رہے گا، اور آزادی کی منزل بھی پائے گا۔ ان شاء اللہ
بھارت تیرے ہاتھ میں وہ لکیر نہیں ہے
کشمیر تیرے باپ کی جاگیر نہیں ہے!
٭٭٭
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
وہ دانائے سبل ختم الرسل
قارئین کرام یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ میں دلائل موجود ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تاویل و تخصیص کرنے والا دراصل قرآن و حدیث کی تکذیب کرتا ہے۔
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود امتِ محمدیہ کا آج بھی اس پر اجماع ہے کہ مدعی نبوت اوراس کے پیروکارخارج از اسلام اور مرتد ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی باغی، طالع آزما یا فتنہ پرداز نے اپنے آپ کونبی کہنے کی جرأت کی، مسلمانوں نے اس کے خلاف بھرپورجہاد کیا۔ ہر مسلمان کا غیر متزلزل عقیدہ اور ایمان یہ ہے کہ حضور سرورِ عالم سیدنا محمدﷺ آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ حضور اکرمﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو بدبخت اس کے اس دعویٰ کو سچا تسلیم کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہے اور اسی سزا کا مستحق ہے جو اللہ تبارک تعالیٰ نے مرتدکے لیے مقررکی ہے۔
بحیثیت مسلمان ازروئے قرآن و حدیث ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید ان پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی اور قرآن کو تا قیامت محفوظ بھی کردیا۔ سلسلہ نبوت پر ختم کی مہر بھی لگادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے نہ تھا نہ تا قیامت ہوگا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آخری امت ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کی صراحت مختلف آیات میں ملتی ہے۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
بہت سی احادیث میں بھی ختم نبوت کی تصدیق موجود ہے۔ حدیث مبارکہ ہے۔ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا، اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین...
الوداع نہیں کہتے
بی بی سی جماعت اسلامی کی خبریں عموما نہیں لگاتا۔ لیکن اس نے یہ خبر بہت کم وقت میں دے دی کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب اپنے امارات عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ہم جانتے ہیں بی بی سی کس کا چینل ہے۔ان کی نیتیں بھی یہ تھیں کہ اس خبر سے جماعت کو کمزور شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔یہ خبر بھی سنی کہ حافظ نعیم صاحب نے دھاندلی والی نشست لینے سے انکار کردیا۔جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کا کوئی اخلاق نہیں ہوتا۔ان دیانتدار اور اعلی کردار کے حامل سیاست دانوں کو دیکھیں۔ایک نے ہاتھ آئی سیٹ ٹھکرا دی۔ دوسرے نے پارٹی کی سربراہی چھوڑ کر ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی میں عہدوں کی نہیں بلکہ ویلیوز کی اہمیت ہوتی ہے۔اور بےشک یہ احساسِ ذمہ داری فقط جماعت اسلامی میں پایا جاتا ہے۔
ان دونوں واقعات سے ہوا یہ کہ جماعت اسلامی کی جمہوریت شورائیت اور واضح ہوگئی۔ عوام جماعت اسلامی سے مذید متاثر ہوگئی۔ جی ہاں جماعت اسلامی عوامی مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگ اس کی دیانت خدمت کے قائل ہوچکے ہیں۔اس الیکشن کے بعد یہ مغالطہ ختم ہوچکا ہے کہ جماعت کا ووٹ بینک نہیں بنتا جماعت اسلامی کا کم ازکم یہ نتیجہ اس الیکشن میں تھا کہ اسے بلوچستان میں دو سیٹیں کے پی کے میں تین اور سندھ میں پندرہ سے زیادہ ہوتیں اگر زبردستی انتقال ہوئی پارٹی کے نئے جیون کی تیاری نہ ہوتی۔ ووٹ جماعت کو ملا ہے کراچی عوام نے اسے منتخب کیا ہے یہ ہاری نہیں اسے ہروایا ہے۔
یہ استعفی دراصل ہمارے قائد کی اعلی ظرفی ہے۔ انہوں اخلاقی طور سے اچھا کیا۔یہ استعفی ہر اس کارکن پر طمانچہ ہے۔جو سمجھتے ہیں کہ اس میں جماعت کا اس کی قیادت کا کوئی قصور ہے۔ ان سب حالات میں کسی کا کوئی قصور نہیں نہ کارکن کا قصوروار ہے نہ ہی امیر کا قصور ہے۔سمجھنے کی بات ہے کہ جماعت کا مقابلہ وقت کے اصل فرعون سے ہے۔ سیکولر لبرلز ساری طاقتیں مل کر اس کے خلاف ہیں اسلام کے دشمن فرعون نمرود ابو جہل دجالی فتنے آسان ٹاسک کسی بھی دور میں نہیں تھے۔ہمارے دور کے فرعون طاقت میں قدیم فرعون سے کہیں آگے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا جماعت کو نہیں دکھاتا۔پرنٹ میڈیا جماعت پسند اسلام پسند تحریر نہیں چھاپتا۔عوام اگر قبولتی ہے اصل نتائج نہیں دیے جاتے۔قیادت کا کیا قصور وہ کیا اپنی جان مار دیں۔اس الیکشن کو آپ صلح حدیبیہ سے جوڑ لیں یقین کریں جماعت کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔جس عوام نے جماعت کو ووٹ دیا وہ اس کی شکست پر حیران ہے۔ جان چکی ہے کہ دینی جماعتوں میں خطرہ صرف جماعت اسلامی ہے۔عوام نے کبھی کسی موروثی مذہبی لیڈر یا پیر کو یوں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوتے نہیں دیکھا۔جماعت اسلامی عوام کے لیے حل ہے تو باطل نظام کے لیے روک ہی روک ہے۔
یہ جماعت اسلامی کے لیڈر کی اعلی قیادت ہے۔جس میں حافظ نعیم الرحمن، مشتاق احمد صاحب، اکبر چترالی اور مولانا ہدایت الرحمن جیسے ہیرے پیدا کیے اور چمکنے کے خوب مواقع دیے۔سراج صاحب آپ...
حیا ہی پروانہ خیر
ویمن یونیورسٹی کی بس میں سب سے پہلی سوار ہونے والی حنا امتیاز معمول کے مطابق آج بھی کسی کتاب کی ورق گردانی میں گم تھی اس لیے اسے اپنے ارد گرد ہونے والی غیر معمولی ہلچل کا علم ہی نہ ہوا۔
آج کی کتب بینی نے اسے خاصا الجھن میں مبتلا کیا ہوا تھا فرانسیسی انقلاب کے وقت وہاں کی عوام نے قلم کاروں کی جس طرح پیروی کی وہ حیران تھی کہ کیسے کوئی قوم اپنے ہی جیسے انسانوں کے بنائے ہوئے افکار و نظریات کے پیچھے اندھا دھند چل پڑتی ہے چاہے وہ نظریات اخلاق سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں۔
ڈرائیور کے ہارن کرنے پر اس نے کتاب سے سر اٹھایا تو بس مکمل خالی تھی اس کی ساتھی لیکچرار اور تمام طالبات بس سے پہلے ہی اتر چکی تھیں
یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ آج کیا دن ہے؟
کلاس میں داخل ہوکرحنا نے ابتدائی سلام دعا کے بعد طالبات کی طرف معنی خیز مسکراہٹ سے دیکھا
“ پیاری لڑکیو! آج خیر سے آپ میں سے بیشتر لڑکیوں نے سرخ رنگ کے دوپٹے اور بعض نے تو پورا لباس ہی سرخ پہنا ہے”
“جی میم! آج ویلنٹائن ڈے ہے نا” کسی ایک طالبہ نے جواب دیا
تو ساتھ ہی کسی دوسری طالبہ نے مزید وضاحت بھی پیش کردی “میم اب وہ جونا مناسب سا ویلنٹائن سب مناتے ہیں ویسا تو ہم کچھ نہیں کر رہے بس سب نے سوچا کہ ایک تہوار آرہا تو چلومنا لیا جائے تفریح ہو جائے گی”
ہممم۔۔تویہ باقی طالبات آپ کے ساتھ شامل کیوں نہ ہوئیں؟ جی نائلہ آپ کا اس دن کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حنا نے ایک طالبہ کو مخاطب کیا جوویلنٹائن ڈے منانے والی لڑکیوں میں شامل نہ تھی۔
میم میرے نزدیک ویلنٹائن اخلاقی لحاظ سے انتہائی نا مناسب تہوار ہے اوراس کا ایجنڈا حیا کے منافی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے
"جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو"
نائلہ لیکن ہم کوئی نا مناسب حرکت تو نہیں کر رہے نا۔ ایک دوسری طالبہ نے نائلہ کو ٹوکا
جی جی ایسا ہی ہے میری شہزادی! آپ کی نیت بالکل صاف ہے آپ کا مقصد تفریح کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہ مجھے معلوم ہے۔ حنا نے خوبصورتی سے دونوں کی بات چیت میں مداخلت کی اور بات کو مزید آگے بڑھایا۔
لڑکیو!بات دراصل یہ ہے کہ جب ہم خود کو اسلام کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں نہ۔۔۔ تو شعوری طور پر حیا کا اختیار کرنا ہمارے لیے اس طرح ضروری ہوجاتا ہے جس طرح سانس لینے کے لیے ہوا میں آکسیجن کا ہونا ضروری ہے کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
” حیا ایمان کی شاخوں میں ایک شاخ ہے۔ “
لیکن اللہ کی پناہ ہم ایسے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں حیا کو کم اعتمادی اور ترقی پذیر عناصر کے برخلاف گردانا جاتا ہے اور یہ وہ نظریات ہیں جو ہمارے کچھ نامی گرامی مہذب طبقے نے مغربی معاشرے سے شاید عاریتاً لیے تھے اور اب سارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر تے جا رہے ہیں
اس...
مایوس مت ہونا
ڈاکٹر فہمیدہ آپ نے تو میرا ووٹ ضائع ہی کروا دیا۔ساجدہ بیگم اپنا چیک اپ کروانے آئی تو ساتھ ہی شکوہ کر بیٹھی،میرے شوہر نے کہا بھی تھا، کہ اس شہر میں جماعت کو کوئی نہیں جانتاووٹ ضائع ہوجائے گا،لیکن میں سمجھی کیا پتاقوم ایک موقع دے ہی دیں دین دار لوگوں کو، ساجدہ باجی تو گویا آج بھری بیٹھی تھیں۔ کیا آپ نےامیر جماعت سراج الحق صاحب کا بیان نہیں سنا؟ڈاکٹر فہمیدہ نے تمہید باندھی، جب ایک نیوز اینکر نے سراج الحق صاحب سےسوال کیا،لوگ جماعت اسلامی کو ووٹ کیوں نہیں دیتے؟ تو سراج الحق صاحب کا جواب تھا: ہر صبح فجر کے وقت مسجد سے اذان کی آواز آتی ہے” *حَیّ عَلی الْفَلاحِ حیّ عَلی الْفَلاحِ* اس آواز کو سن کر اگر کروڑوں لوگ سوتے ہیں اور چند ہزار لوگ اٹھ کر مسجدوں میں جاتے ہیں، تو یہ اس آذان یا موذن کی کمی نہیں ہے۔یہ تو ان لوگوں کی کمی ہے جنہوں نے نیند نہیں چھوڑی اور مسجد کی طرف نہیں دوڑے۔ اس لیے ہم تو اذان دیتے رہیں گےاور پکارتےرہیں گے کہ آو تمہاری دنیا اور آخرت کی کامیابی اس نظام میں ہے،جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں پیش کرچکے ہیں۔
نہیں ڈاکٹر صاحبہ میں تو سوچ رہی تھی ساجدہ باجی نے بات کاٹی،اتنا وقت کا ضیاع ہوا اتنا پیسہ خرچ ہوا اور گھرگھر جاکےسمجھایا بھی لوگوں کو بس اسی لیے نتیجہ دیکھ کرمایوس ہوگئی۔ سادہ طبیعت کی ساجدہ باجی پھر سے گویا ہوئیں۔ ساجدہ باجی کیا آپ نے وہ آیت نہیں پڑھی" الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا"(مال اور اولاد تو دنیا کی زندگی کی رونق ہیں، اور تیرے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ثواب اور آخرت کی امید کے لحاظ سے بہتر ہیں۔) اس لیے میری بہن یہ ہرگز نہ سوچو کہ ہمارا پیسہ یا وقت ضائع ہوا،ارے اس کا اجر تو اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے۔
ہماری ساری تگ ودو اللہ کے دین کو قائم کرنے اور اس ملک میں قرآن کا قانوں نافذ کرنے کے لیے ہے۔ہم نے بالکل مایوس نہیں ہونا اللہ کو ہماری یہی کوشش ہی درکار ہے۔اللہ پاک اپنے جن بندوں سے محبت کرتا انھیں آزمائش میں بھی ڈالتاہےتاکہ پتا چل سکے کون سخت وقت پہ ثابت قدم رہتاہےاور کس کے قدم ڈگمگاتے ہیں،ڈاکٹر فہمیدہ نے نرمی سے سمجھایا۔پھر تو ڈاکٹر صاحبہ ہمیں دوبارہ سے اس مہم کی تیاری میں جُت جانا چاہیے۔بالکل میری بہن!نظام کب نافذ ہوگا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے،لیکن ہماری کوشش تو ہرحال میں جاری رہنی چاہیے۔ ہم تو اللہ کے سامنے عزر پیش کرنے والے بن سکیں، کہ اے اللہ میں نے اپنی پوری کوشش کی جہاں تک ہوسکا میں نکلی،جہاں مجھے پکارا گیا میں نے لبیک کہا، میرے مولا تو جانتا ہے،میں نےاپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی، ہر گھر پہ دستک دی، ہر فرد کودعوت دی، لیکن یارب تو گواہ رہنا میری اس ادنٰی سی کوشش پہ اور مجھے ہمت دے کہ میں اور زیادہ دین کی خدمت کرسکوں، ڈاکٹر فہمیدہ فرط جذبات سے بولیں۔ ساجدہ باجی شرمندگی سے...
امید ابھی کچھ باقی ہے
ابھی آٹھ فروری کو الیکشن منعقد ہوئے پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کے مصداق آزادانہ و منصفانہ شفاف انتخابات کی امید تھی۔ لیکن اس دن جو کچھ ہوا جو دیکھا جو سنا کچھ بھی نیا نہ تھا۔ لوگ گھروں سے کم نکلےجو نکلے ان بیچاروں کے امیدواروں ووٹوں پرڈاکہ ڈالا گیا کراچی میں دو سیاسی جماعتوں کا پلڑا بھاری تھا لیکن راتوں رات نتائج تبدیل کردیے گئے پہلے اور دوسرے نمبر پر جیتنے والے امیدوار منہ دیکھتے رہ گئے اور تیسرے، چوتھے، پانچویں نمبر والے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کیا گیا ۔ اگر سلیکشن ہی کرنا تھا تو الیکشن کا ڈھونگ کیوں رچایا گیا؟ کیوں قومی خزانے کا پیسہ ضائع کیا گیا؟ جبکہ ہر حکومت خزانہ خالی ہونے کا واویلا اور مزید قرض لینے کی کوشش کرتی ہے۔
اس الیکشن کے منظر نامے میں عوام کے آنے والے دنوں میں ملک کی تعمیر و ترقی کے سارےخواب بکھر گئے۔ ( دھاندلی والے) نتائج پر ایک تمثیل،:
راوی کی امید سحر کی کشتی سمندر میں ڈگمگارہی تھیؑ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ سمندر میں ظلمت وجہالت کی آلودگی بہت زیادہ بڑھ گئی تھی کہ کشتی بار بار غوطے کھانے پر مجبور ہوئی لیکن وہ پھر بھی باز نہ آئی بھرپور قوت لگا کر بالآخر ساحل تک جا پہنچی لیکن وہاں پر موجود ہوس لالچ مادہ پرستی وموقع پرستی اور خود غرضی کے خطرناک مگر مچھوں نے گھیر لیا۔ وہ کنارے پر الٹا دی گئی۔ اس کے باوجود زخمی دل اور چھلنی جسم کےساتھ خود کو رکو نہیں تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیزتر کے عزم کے ساتھ از سر نو سمندر پار کرنے کی تگ و دو میں لگی رہی ( احتجاج ثبوتوں کے ساتھ انصاف کی طلب میں نکل پڑی امید ابھی کچھ باقی ہے۔ اسکا خیال ہے کہ امید کی روشنی شعور اور دانش کی کرنوں سے تا حد نگاہ وطن عزیز میں خیر ہی خیر ہوگی۔ راوی کی کشتی کا یہ ماننا ہے کہ
Try try again
Where there is a will there is a way.
No pain mo gain.
تو خاک میں مل اور آگ میں جل
جب خشت (راکھ)بنے تب کام چلے
یعنی اپنی ہستی کو مٹادےاگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے۔ یہ عزم کبھی اسے جھکنے دبنےاور ڈرنے نہیں دیتا مایوس ہرگز نہیں امید سحر سے ہم ۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہء توحید سے۔ ان شاءاللہ ۔ دراصل کسی بھی مشن یا کام میں کا میابی یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے صبر اور استقامت سے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے بحیثیت مسلمان خلیفتہ الارض اللہ نے حق کے راستے کی جدوجہد ہم پرفرض کی ہے ہمیں اللہ کی زمین پر اللہ کا دین غالب کرنا ہے اس لیےہمیں ہمیشہ حق کا ساتھ دینا حق پر ڈٹے رہنا حق کو پھیلانا ہے ہمت اور حوصلے صبر و استقامت کے ساتھ ۔ ہمیں ہر حال میں یہ فرض ادا کرتے رہنا ہے اور ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں نتیجہ جو بھی ہو۔ بس نیت خالص ہو جذبے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...
ماشاء اللہ بہت معلوماتی ملی جذبات کو انگیز کرنے والی تحریر ہے
کشمیر کی موجودہ صورت حال پر دل بہت غمگین ہے۔۔۔ آپ کی بر وقت پر تاثیر تحریر پڑھ کر کچھ امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارے حکمران اپنی شہ رگ کے لئے سنجیدگی سے سوچ کر ، کچھ عملی اقدامات بھی کر لے۔ صرف بیان بازی اور مذمت سے کام نا لیں۔