کراچی حوالے کردیں‎

ملک ریاض حسین چیمہ 8 فروری 1954کو سیالکوٹ کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے، لیکن ان کا خاندان اور ان کے والد بینک کرپٹ ہونے کی وجہ سے سڑک پر آگئے۔ بمشکل اپنا میٹرک مکمل کرنے کے بعد ملک ریاض نے “ملٹری انجینئرنگ سروس” میں بطور کلرک نوکری شروع کردی جبکہ پارٹ ٹائم میں انہوں نے پینٹر کا کام بھی شروع کردیا۔ یہ سارا سارا دن فوجیوں کے مکانوں کے سامنے بیٹھے رہتے اوررنگ کروانے کی منتیں کرتے رہتے تھے۔

 ملک ریاض اس وقت مزید مشکلات سے دوچار ہوگئے، جب ان کی بیٹی شدید بیمار ہوگئی اور اس کے لیے انہیں  اپنے گھر کے برتن تک بیچنے پڑ گئے۔ان کی بیوی بیناریاض کی زندگی کا سب سے بڑا خواب دو کمروں کا اپنا ذاتی مکان تھا، ملک ریاض کی ایمانداری یا بے ایمانی، محنت یا دھوکہ دہی اور ان کے روزگار کے حلال یا حرام ہونے پر لکھنا نہ میرا موضوع ہے اور نہ ہی مقصد۔

میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ پورے ایشیا میں سب سے بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا نام “بحریہ” ہے۔ اس کمپنی کے تحت کراچی میں دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم اور دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسجد زیرتعمیر ہے، جو سیاحوں کو کھینچ کھینچ کر وہاں لے کر آئے گی مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ میں ہفتے میں سینکڑوں دفعہ کلفٹن، ناظم آباد  اور لیاقت آباد انڈر پاسسز سے گزرتا ہوں اور معلوم ہوتا ہے گویا کسی پہاڑ کی سرنگ میں داخل ہورہے ہیں۔ بارشوں کے بعد سے تو ناظم آباد انڈر پاس کی لائٹس بھی خراب ہو چکی ہیں اور شاید وہ کراچی کا سب سے بڑا انڈرپاس ہے۔

 دوسری طرف آپ کلفٹن میں موجود بحریہ ٹاؤن کے زیر انتظام انڈر پاس میں سے گزر جائیں یا عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے سامنے جاتے پل پر سے گزریں تو آپ فیس بک پر “فیلنگ دبئی” کا اسٹیٹس لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ کراچی سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود جنگل میں منگل کا عملی نمونہ اگر آپ نے دیکھنا ہو تو آپ “بحریہ ٹاؤن” کراچی چلے جائیں۔

 اس شہر میں لوگ لاکھوں روپے حکومتی اسکیموں اور پرائیویٹ کنسٹرکشن کمپنیز کو دے کر اس حسرت میں اللہ کو پیارے ہوگئے کہ کبھی تو ہمارا “اپنا گھر” بھی ہو اور دوسری طرف 5 سے 8 سالوں کے اندر اندر لوگوں کو اپنے پیسے وصول ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔

اگر ملک ریاض کرپٹ ہے تو مجھے یقین ہے کہ کراچی کی شہری حکومت، سندھ کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت اس سے 100 گناہ زیادہ کرپٹ ہےتو کیا وجہ ہے کہ کراچی کی مینجمنٹ کو “بحریہ ٹاؤن” کے حوالے نہ کر دیں؟ آپ نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نام پر کراچی کے تین ڈسٹرکٹس کو چائنہ کی کمپنی کے حوالے کر رکھا ہے۔ پورا پنجاب ترکی کی کمپنی کے حوالے ہے تو کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے ہی ملک کے آزمودہ  ادارے کےحوالے شہر کے معاملات نہیں کرتے ہیں ؟

اس معاملے میں شہباز شریف کا طرز عمل سب سے بہترین تھا۔ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کے “سلیکٹڈڈ” حکومتی نمائندے اور ہڈحرام کام چور بیوروکریسی نے کچھ نہیں کرنا ہے اس لیے انہوں نے “پیسہ ہمارا اور کام تمہارا” کی بنیاد پر پنجاب کے 11 ہسپتال ڈاکٹر عبدالباری کے حوالے کردیئے، دانش سکول پرائیویٹ این- جی -او کو دے دیئے اور صفائی ترکی کے حوالے کردی۔ عوام کا پیسہ تو کم از کم جگہ پر لگنا شروع ہو گیا۔

میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ملک ریاض  اور بحریہ ٹاؤن کو جو شخص بھی پیسے ادا کرتا ہے اس کو اس کی ادائیگی کے مطابق بہترین سہولیات کے ساتھ بحریہ ٹاؤن میں “سیف اینڈ سیکیور” رہائشی ملتی ہے۔ لاکھوں روپے بھرنے کے بعد، ایک سوئی سے لے کر بجلی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس دینے کے باوجود یہاں تو ہمارے معصوم بچے چار بندوں کی بارش کے بعد بے دردی اور سفاکیت سے کرنٹ لگ کر ہماری آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں۔ ہر ہر چیز پر ٹیکسز کے باوجود چند گھنٹوں کی بارش شہر کو مفلوج کرکے رکھ دیتی ہے اور ہمارے حکمران چائے کے ہوٹلوں میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔

 آپ المیہ ملاحظہ کریں ملک کو 70 فیصد ریونیو دینے والے، پورے ملک کے ہر شہر کے ہر شہری کو روزگار دینے والے، دنیا کے 10 بڑے شہروں میں شمار ہونے والے کراچی کے ساتھ اس  سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ ہم کوڑے کے ڈھیر پر زندگی گزار رہے ہیں۔ “وزیراعظم کراچی سے” اور “اپنوں کا ووٹ” لینے والوں کو تو احساس بھی نہیں ہے کہ ایک دن کی بارش نے بائیس خاندان اجاڑ کر رکھ دیئے ہیں، شہر میں سفر کرنا انگریزی کے “سفر” کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔

ہم 70 فیصد وہیکل ٹیکس دے کرٹرانسپورٹ سے محروم ہیں، سمندر رکھ کر پانی سے محروم ہیں۔ “نئے پاکستان” میں بھی صفائی سے محروم ہیں اور پورے ملک کی معیشت کو کندھے پر اٹھانے کے باوجود کسی بھی قسم کی سہولت سے محروم ہیں۔ دنیا میں دھوپ سمندر اور کوڑے سے بجلی بنتی ہے اور کراچی تینوں وسائل کی بہتات کے باوجود مہنگی ترین بجلی اور گھنٹوں گھنٹوں لوڈشیڈنگ سہنے پر مجبور ہے۔ واش روم  میں ہوں تو پانی آنے کا یقین نہیں ،سڑک پر ہوں تو ٹرانسپورٹ ملنے کا یقین نہیں اور بارشوں میں گھر سے باہر زندگی کا یقین نہیں  ہے۔

 شہری صوبائی اور وفاقی حکومت میں موجود تمام ذمہ داران اور حکومتی امراء، سب کے سب پیسہ یہاں سے کماتے ہیں ہیں، عوام کے ٹیکسوں پر پلتے ہیں اور جاکر باہر اڑاتے ہیں، ان کے کاروبار، ان کے روزگار اور ان کے بیوی بچے تک باہر ہیں،لیکن بہرحال ملک ریاض پاکستان پر لگاتا ہے یہیں سے کماتا ہے اور یہاں کے لوگوں کو آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ پاکستانی عوام کے بارے میں سوچتا ہے اس کے پاس دوہری شہریت بھی موجود نہیں ہے۔ سپریم کورٹ سے لے کر شہری حکومت تک سب کے منہ میں رشوتیں ٹھونس ٹھونس کر سب سے اپنے کاروبار کو بچاتا ہے لیکن مشکل میں چھوڑ کر کہیں نہیں بھاگتا۔

 امریکہ سے ڈاکٹرزکو  بلوا کریہاں علاج کرواتا ہے۔اپنے ملک میں بہترین اسپتال بنواتا ہے اور سیاحوں کو پاکستان لے کر آتا ہے۔ اس کے فراڈ، بےایمانی اور دھوکہ دہی کے بارے میں میں نے بخدا نہیں دیکھا صرف سنا اور پڑھا ہے لیک اس کے کاموں کو پاکستان کا ہر شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ جن جن کو آپ ووٹ دے کر اپنے سروں  پر اپنی لاشیں گرانے کے لئیے بٹھاتے  ہیں وہ ان سے زیادہ پاکستانی عوام سے مخلص ہے۔

 اس لئے خدا کا واسطہ ہے کچھ نہ کریں پانچ سال کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ پر کراچی کو ملک ریاض اور “بحریہ ٹاؤن” کے حوالے کر دیں۔ آپ آج شہری، صوبائی اور وفاقی حکومت سے کوئی تعمیراتی اسکیم لانچ کروا دیں اور دوسری طرف ایک اسکیم بحریہ ٹاؤن سے لانچ کروادیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں عوام کی لائنیں کہاں لگی ہونگی؟ تو پھر ہم کیوں کچھ عرصے کے لیے شہر بحریہ ٹاؤن کے حوالے نہیں کردیتے؟ شہری حکومت کے 24ارب اور صوبائی حکومت کے زیر انتظام موجود تمام بلدیاتی اداروں اور بجٹ کو “بحریہ ٹاؤن” کے حوالے کردیں۔ مجھے یقین ہے کہ کراچی والے دنیا میں سر اٹھا کر عزت سے جینے کے قابل ضرور ہو جائیں گے۔

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں