ریلوے کا جدید نظام صرف ای ٹکٹ تک محدود

پاکستان ریلوے کی ای ٹکٹ ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد خوشی ہوئی کہ شکر ہے لائن میں لگنے سے بچ گئے اور ٹکٹ گھر بیٹھے ہی ہوگئے۔ اس خوشی کو ہم نے اپنے دوستوں سے بھی شیئر کیا اور انہیں بھی مشورہ دیا کہ اب ریلوے میں سفر کرنا ہوتو ٹکٹ کے حصول کے لیے اسٹیشن جانے کی ضرورت نہیں بلکہ گھر بیٹھے ہی یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ ای ٹکٹ کرانے کے بعد جب ٹرین میں سفر کرنے کا دن آپہنچا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ ٹرین اپنے وقت سے کوئی 6گھنٹے لیٹ ہے۔ بچارگی کے عالم میں اب اسٹیشن پر فیملی کے ساتھ موجود کوئی ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں آرام سے بیٹھاجائے اوراس 6گھنٹوں کو گزارا جائے جو پاکستان ریلوے نے زبردستی ہمارے کھاتے میں ڈال دیے تھے۔
کافی تگ ودو کے بعد صرف اتنی جگہ ملی کہ ہم نے ایک کونے میں جاکر فرش پر چادر بچھا کر بچوں کو وہاں بٹھا دیا اور خود کھڑے ہوکر ان 6گھنٹوں کے بیتنے کا انتظار کرنے لگے۔ جیسے جیسے وقت گزر تا گیا ایسے ہماری ذہنی حالت خراب ہوتی گئی۔ہرمسافر اسٹیشن پر نا مناسب انتظامات دیکھ کرافسوس ہی کرتا رہا۔ ناپینے کا پانی میسر تھا اور نہ ہی فیملی کے بیٹھنے کی کوئی ایسی جگہ جہاں وہ آرام سے بیٹھ کر وقت گزار سکے۔ شیر خوار بچے ماؤں سے لپٹ لپٹ کر رونے کے بھی منظر دکھائی دیے،مگر مشرقی خواتین جتنی بھی آزاد خیال کیوں نہ مگر وہ رش والی جگہوں پر بچوں کو دودھ پیلانے سے اجتناب ضرور برتتی ہیں۔ کراچی کینٹ اسٹیشن انتظار گاہ برائے مستورات کو تالا لگا ہوا تھا اور چابی کے بارے میں معلوم ہوا کہ اسٹیشن ماسٹر کے پاس ہے اورموصوف ابھی اسٹیشن آئے ہی نہیں۔ ایک قلی سے ٹرین کی آمد اور اسٹیشن ماسٹر سے متعلق یہ معلوم ہوا کہ موصوف اسٹیشن آتے ہی نہیں،اورٹرین کا جو ٹائم بتایاگیا ہے اس وقت پر بھی ٹرین کی آمد کی کوئی امید نہیں۔ قلی کی پیش گوئی اس وقت درست ثابت ہوئی جب اللہ اللہ کرکے ہم نے چھ گھنٹے گزار دیے۔ جب لوگوں کا احتجاج بڑھنے لگا تو ایک مرتبہ پھر کسی گمنام جگہ سے ایک اعلان ہوا کہ ٹرین کی آمد میں مزید دوگھنٹے باقی ہیں۔گمنام اس لیے کہا کہ اسٹیشن پر موجود استقبالیہ پر کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا جو درست معلومات دے سکے۔ مجبورا قلی کا ہی بار بار سہارا لینا پڑتاتھا۔ 6گھنٹوں کے طویل انتظار کے بعد اب مزید دو گھنٹے مجھ سمیت تمام مسافروں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہونے والا تھا۔
مرد حضرات جیسے تیسے کرکے اپنا وقت گزار رہے تھے مگر خواتین کا گرمی اور حبس کے مارے برا حال تھا۔ اس اسٹیشن پر موجود پنکھے صر ف اتنی ہوا دے رہے تھے کہ ان سے دل کو تسلی مل رہی تھی۔ دل سے موجودہ ریلوے وزیر اور حکومت کے لیے کافی اول فول بھی نکل رہے تھے۔ کئی مسافر اس کا برملا اظہار کررہے تھے اور کئی مجھ جیسے مسافر صرف دل ہی دل میں انہیں۔۔۔ بک رہے تھے۔
حکمرانوں کے منہ سے جب بھی سنا تو گزری حکومت کا رونا ہی سنا۔ یہاں بھی صورت حال یہ ہی تھی۔ شیخ رشید صاحب جب بھی منہ کھولتے ہیں خواجہ سعد رفیق کو ہی مورد الزام ٹھہرا کر چلتے بنتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ریلوے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس ریڑھ کی ہڈی کو توڑ کر رکھ دیاگیا ہے اور اس کے پیچھے بھارت یا اسرائیل کا ہاتھ نہیں بلکہ اس کی اپنی انتظامیہ اور غیر ضروری اسٹاف کا ہاتھ کارفرما ہے۔
ریلوے میں لگ بھگ پوری فوج بھرتی کی گئی ہے اور اب بھی یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے، عوام کو روزگار کے نام پر جہا ں ایک طرف دھوکا دیا جارہاہے تو دوسری طرف اسی روزگار کو معیشت اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا بھی ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔ ریلوے ٹریک آج بھی پرانے زمانے کے ہیں جنہیں کبھی تبدیل کرنے کا خیال نہیں آیا۔ جس طرح دو بوند بارش کے بعد بجلی غائب ہوجاتی ہے ٹھیک اسی طرح دو بوند بارش کے بعد ریلوے نظام بھی ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔
کراچی کینٹ اسٹیشن پر موجود اسٹالز پر ملنے والی ہر چیز پر دگنی رقم طلب کی جاتی ہے۔ دس روپے والا بسکٹ 25روپے میں فروخت کیاجاتا ہے اور جب اضافی رقم کے بارے میں پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ ہم ریلوے کو کرایہ دیتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ریلوے کو کرایہ دیتے ہیں تو کیا اسٹیشن سے باہر موجود دکانیں فری میں لگائی گئیں ہیں کیا وہاں کوئی کرایہ نہیں دیتا۔ ان کی اس عجیب منطق کم از کم ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ شاید وزیر ریلوے کو اس کی سمجھ ہو۔ زائد المعیاد چیزیں بھی یہاں کھلے عام دستیاب ہیں جن کے بارے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر کوئی شخص شکایت کرنے اسٹیشن ماسٹر کے پاس جائے تو وہاں موصوف ملتے ہی نہیں۔ میں گزشتہ کئی برس سے ٹرین میں سفر کرتا آرہا ہوں لیکن ہر بار بدانتظامی معاملات دیکھ کر اب دل جلتا ہے۔ حکمرانوں کی اس پر کب توجہ ہوگی معلوم نہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اب ریلوے ریڑھ کی ہڈی نہیں رہی بلکہ ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے جو معیشت اور قومی خزانے پر بلاوجہ کا اضافی بوجھ ہے۔
کراچی کینٹ اسٹیشن پاکستان کا مصروف ترین اسٹیشن ہے مگر یہاں کا سیکورٹی نظام بھی انتہائی غیر معقول ہے۔ اسٹیشن پر موجود پولیس اہلکار دن کے وقت اپنی اپنی ڈیوٹیاں چھوڑ کر محض اپنی جیبیں گرم کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ دو ماہ قبل رات کو مہمانوں کو لینے جب میں اسٹیشن آیاتو اس وقت بھی ٹرین لیٹ تھی اور اس دوران میں نے پورے اسٹیشن کا چکر لگایا مگر کہیں کوئی پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتا نظرنہیں آیا۔ اتنے مصروف ترین اسٹیشن کی یہ حالت کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کو جنم دے سکتی ہے۔ جن پولیس والوں کو رات میں دیکھا تو وہ دس،دس روپے فی ٹیکسی اور رکشہ والوں سے وصول کرتے ہی دیکھا۔ جب ان سے سلسلے میں بات کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ الٹا ہمیں ہی چور ڈاکو سمجھنے لگے اور دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ اپنے کام سے کام رکھو۔ ان حالات کو دیکھ کر صرف یہ کہاجاسکتا ہے کہ دنیا سدھر سکتی ہے مگر یہ لوگ کبھی نہیں سدھرسکتے۔
دو گھنٹے گزرنے کے بعد ٹرین کی آمد کا اعلان ہوا۔ ٹرین پلیٹ فارم پر آکر رکی اور ہم نے اپنا سامان ٹرین میں رکھنا ابھی شروع ہی کیا تھا کہ ہارن بجنے اور ٹرین چلنے کی آواز نے ہمیں چونکا دیا۔یہ بدانتظامی کی اعلیٰ ترین مثال ہے کہ مسافروں نے اپنا سامان بھی ٹھیک طریقے سے ٹرین میں نہیں رکھا اورٹرین نے ہارن بجادیا۔ اس موقع پر چند نوجوانوں کا اللہ بھلا کرے انہوں نے بہترین حل نکالا اور زنجیر یں کھینچنے لگے اور ٹرین رک گئی۔ جیسے تیسے کرکے سامان اور بچوں کو مطلوبہ سیٹ پربٹھانے میں کامیاب ہوہی گیا۔ اب سفر کا اختتام کب اور کن حالات میں ہوگا وہ تمام پاکستانی بخوبی جانتے ہیں۔ لیکن اب کم سے کم ای ٹکٹ کا مشورہ دینے سے پہلے دوستوں سے صرف اتنا کہنا چاہوں گاکہ ای ٹکٹ کا جو جدید نظام ریلوے نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نکالا ہے اس پر ہرگز بھروسہ نہ کیاجائے کیوں کہ ٹرینوں کی حالت آج بھی پچاس سال پرانی ہے جس پر کوئی اب تک کوئی کام نہیں کیاگیا سوائے رنگ وروغن کے۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں