اسلام یا اسلام آباد

پاکستان عالم کا واحد ملک جو مذہب اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔تحریک پاکستان میں اکابرین کی کاوشیں اور اصغر سودائی کا یہ نعرہ کہ لے کے رہیں گے پاکستان اور بٹ کے رہے گا ہندوستان یا پھر پاکستان کا مطلب کیا؟لاالہ الااللہ اس بات کا مکمل عکاس اور غماز ہے کہ مسلمانان ہند ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جس کے اداروں میں صدائے لاالہ کی گونج ہواور انہیں اداروں میں عملا ً مذہب اسلام کے سنہری اصولوں کا اطلاق ہو۔چشم فلک نے دیکھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانان برصغیر نے لبیک کی صدا بلندکرتے ہوئے اپنا الگ وطن 14اگست1947 کو حاصل کرلیا۔نامساعد سیاسی و معاشی حالات میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور اسی شہر میں قائد اعظم نے 11اگست کو قانون ساز اسمبلی سے خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا کہ”آپ آزاد ہیں،آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے،آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے،اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے،آپ کا تعلق کسی بھی مذہب،ذات یا نسل سے ہو،ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے“یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں مختلف طبقہ ہائے کے افراد بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ قائد اعظم دراصل ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔یہ محض ایک بیان ہے مگر ایسے کئی بیانات تاریخ پاکستان کی کتب میں مل جائیں گے جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ پاکستان کا نظریہ سیاست و ریاست اور عقیدہ کیا تھا،جیسے کہ فروری 1948 میں اپنے ایک خطاب میں کہا کہ ”پاکستانی قانون کو پاکستانی اسمبلی نے ابھی بنانا ہے مجھے یقین ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہوگا۔آج بھی یہ اصول ایسے ہی قابل عمل ہیں جیسے کہ وہ تیرہ سو سال قبل تھے۔اسلام اور اس کے نظریہ نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے،یہ ہمیں انصاف،مساوات اور دیگر اچھائیوں کا درس دیتا ہے،ہم ان اقدار کے وارثین ہیں اور مستقبل کے پاکستانی قانون کو بنانے کی مکمل ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں“ان دو بیانات سے قائد کے وژن کا مکمل ادراک ہو جاتا ہے کہ وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق ہر اس شہری کو وہ سہولیات فراہم کی جائیں جو اس ملک کا باسی ہو۔اس پر کسی قسم کا جبر نہ ہو اور ان کے جذبات،مذہب اور زندگی کی مکمل حفاظت کی جائے جو کہ اسلام کا خاصا بھی ہے۔
لیکن پاکستانی سیاست کا اگر اندازہ لگایا جائے تو تو یہ بات اندھوں کو بھی معلوم ہو گئی ہے کہ ہمارے ساستدان اسلام نہیں اسلام آباد کے حصول کے متمنی ہیں،ان کے اغراض و مقاصد میں اسلام آباد یعنی شہر اقتدار سے وہ اختیارات کا حصول ہے جنہیں استعمال کر کے وہ اپنی ذات کو منوا سکیں نہ کہ مذہب اسلام کے سنہری اصولوں کے اطلاق کو ممکن بنا سکیں۔وہ نظریاتی سیاستدان ہو کہ مذہبی مولانا،دونوں کا مقصد سیاست،اقتدار،حکومت،اختیارات اور طاقت کا حصول ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اختیارات اور طاقت کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں انہیں جب جب موقع ملتا ہے کبھی اسلام تو کبھی اسلام کے طالب علموں یعنی مدارس کے طلبا کو اپنے اس سیاسی مقاصد کے لئے استعمال میں لاتے ہوئے کبھی شرم و حیا کو خاطر میں نہیں لاتے کیونکہ ان کی منزل اسلام نہیں بلکہ اسلام آباد ہوتی ہے۔سیاسی مقاصد کے لئے طلبا کا استعمال یا مدارس کے طلبا کے استعمال کے لئے جو سب سے زیادہ نام لیا جاتا ہے وہ مولانا فضل الرحمن کا ہے کہ جنہوں نے جب بھی ضرورت ہوئی مدارس کے طلبا کو مذہبی اشتعال دلا کر اسلام آباد میں جمع کیا ہے کہ ان کا اسلام خطرہ میں ہے،اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ مذہبی کارڈ کا استعمال دیگر سیاسی جماعتیں استعمال نہیں کرتیں،جب بھی جس کو بھی موقع ملتا ہے وہ ایسا کرنے سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹتیں،اگر موجودہ حکومت کی ہی بات کی جائے تو اس نے اسلام آباد دھرنے میں مولانا طاہرالقادری کا سہارا لیا اور پھر ریاست مدینہ کی بات کرتے ہوئے جماعت میں موجود مذہبی افراد کی وابسطگیوں کے حصول کو معاون بنایا،اگرچہ شیلٹر ہوم اور بے گھر افراد کے چھت کی فراہمی جیسے پروگرامز شروع کر کے ریاست مدینہ کی طرف قدم ضرور بڑھا رہے ہیں تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری اگر ماڈل ٹاؤن میں مدارس کے بچوں کو ڈھال نہ بناتا تو ہو سکتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن والا دلخراش واقعہ وقوع پزیر نہ ہوتاگویا انہوں نے بھی اسلام اور طلبا کو اپنے سیاسی مقاصد اور اسلام آباد کے لئے استعمال کیا۔اگرچہ نواز حکومت اور پیپلز پارٹی براہ راست ایسا نہیں کرتیں اور کر بھی نہیں سکتیں کیونکہ انکے پاس مذہبی پاور شو کے لئے ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جو مولانا کے پاس ہے،لہذا یہ دونوں جماعتیں جو کہ ان کے بارے میں مشہور بھی ہے کہ یہ وکیل نہیں جج ہی کر لیتی ہیں، جب بھی ضرورت ہوتی ہے مولانا کو استعمال میں لے آتے ہیں جیسا کہ موجودہ سیاست میں ہو رہا ہے کہ چونکہ مولانا فضل الرحمن کے پاس اپنی سیاسی نشست نہیں ہے اس لئے وہ دونوں جماعتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے مدارس کے طلبا کو اسلام آباد کی سڑکوں پر لانے کا عندیہ دیتے رہتے ہیں جس کا مقصد اسلام نہیں بلکہ اسلام آباد کا حصول ہے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں