چیخ

ڈرامہ سیریل کسی بھی ملک کی پہچان ہوتے ہیں، جیسے لوگ دوسری جگہ جا کر اپنے ملک اور کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں، ایسے ہی ڈرامہ ملک اور کلچر کی پوری دنیا میں نمائندگی کرتے ہیں ۔کبھی وہ وقت تھا جب ہمارے ڈرامہ سیریل اپنے منفرد نظریے اور منظر نامے کی وجہ سے پہچانے اور جانے جاتے تھے، جہاں ان کا کوئی مقصد ہوتا تھا اور لوگ کچھ سیکھا کرتے تھے مگر اب رونا دھونا، ساس بہو اور بے تکی منظر کشی ،جہاں نہ کوئی پیغام رکھتی ہے اور نہ سیکھنے کو کچھ ۔ ہمیں سمجھنا ہے کہ ٹی وی،ڈرامہ، فلم  اب بڑا ذریعہ بن چکے ہیں، جو سوچ بناتے اور بدلتے ہیں، اب ایسے میں جب ہمارے لوگ سازشیں دیکھیں گے تو وہ کیا اور کیسے کچھ سیکھیں گے جب کہ بے پناہ ایسے موضوعات ہیں جن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے جو معاشرے کو نسور کی طرح تنگ کر رہے ہیں  اور دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں مگر شاید ہماری ڈرامہ انڈسٹری انہیں دیکھنے سے قاصر ہے یا لوگ دیکھنا نہیں چاہتے۔

چیخ ڈرامہ اے-آر-وائی کی خوبصورت پیشکش ہے۔ سالوں بعد ایک کمال ڈرامہ منظر عام پر آیا ہے جہاں ساس بہو کے روایتی جھگڑوں اور شوہر کے ظلم و ستم کی ماری ہوئی بیوی کو چھوڑ کر کسی سنجیدہ اور توجہ طلب معاشرتی پہلو پر منظر نگاری کی گئی ہے ۔ جہاں خاندان، پیار محبت ،جذبات احساسات،مروت لحاظ، بہادری، سچائی، ظلم و ستم، دہشت ،ناانصافی ،غرور تکبر، درد تکلیف سب کچھ ہے۔ جہاں خوشیوں بھری زندگی گزارتی ہوئی ایک لڑکی کو جانے کیا سوجھتی کہ وہ ایک دوسری لڑکی کی خاطر اپنے خاندان سے لڑ پڑتی ہے اور اپنے رشتے ناتے، اپنی خوشیاں سب کچھ دائو پر لگا دیتی ہے۔ سچائی کا جھنڈا تھامے تن تنہا ظلم کو فاش کرنے چل پڑتی ہے ۔ وہ موڑ بھی آتا جہاں محبت، سب رشتےناتے ،ماں شوہر سب سمجھانے آتے ہیں کہ بازآ جائو وگرنہ سب کھو دو گی مگر وہ نہیں رکتی ۔ جہاں ظالم سب کچھ کچلنے کے در پر ہے جو اس کے آگے آئے مارا جائے گا کچلا جائے گا ،ایک لڑکی ہے کھڑی مقابلے پر سب کچھ ہار کے، ایک باپ ہے کھڑا  بیٹی کے لئے انصاف مانگ رہا،ایک ماں ہے جو دوسری بیٹی کے لئے انصاف چاہتی ہے مگر اپنی بیٹی کےلئے ڈر رہی ہے اور ایک شوہر ہے جو اپنے خاندان  کے خلاف کھڑا ہے بیوی کے ساتھ، کیونکہ وہ حق پر ہے۔

جہاں سزا دی جاتی ہے سچ پر کھڑا رہنے کی اور ظلم کے خلاف بولنے پر پاگل قرار دے دیا جاتا ہے ۔

جہاں قانون اندھا ہو اور بکتا ہو وہاں انصاف عدالتوں میں نہیں ملا کرتا کیونکہ عدالتیں ثبوت مانگتی ہیں اور ثبوت خریدے جاتے ہیں ۔ مگر انصاف خریدنے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک عدالت اور بھی ہے جہاں ہر فیصلہ انصاف پر ہوتا ہے اور وہ عدالت جب فیصلہ کرتی ہے تو دنیا کی سب عدالتیں بے بس اور لاچار رہ جاتی ہیں  پھر کوئی رشتہ ناطہ، تعلق واسطہ اور پیسہ کام نہیں آتا ۔

ظالم جیت کر بھی ہارا ہے اسے کبھی چین نصیب نہیں ہوتا وہ سدا کا بدبخت ہے جو سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے مگر وہ اسے نہیں ملتا اسے سچ کی چیخ کہیں آرام سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔

اور سچ ہار کر بھی ظلم پر بھاری ہے اور جیتا ہے کیونکہ اسے کسی چیز کا خوف نہیں ہوتا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے وہ قانون اور عدالتیں جنہیں انصاف دینا ہے جب نہیں دے پائیں گی تو پھر کوئی کیسے نکلے گا انصاف کے لیے۔ ہمیں بدلنا ہے اس نظام کو اور سچ کے لیے چیخ بننا ہے ایسی چیخ جو ظالم کی نیندیں حرام کر دے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں