ہم لوگ اور ہماری نرالی عادتیں

ہم بہت مزے کے لوگ ہیں ہماری عادتیں بہت نرالی ہیں ، دنیا میں یہ سب ہمارے خطے میں ہی ہوتا ہے ۔

ہم بریانی چمچے سے کھاتے ہوئے گوشت کو چمچہ کنارے رکھ کر ہاتھ سے توڑتے ہیں ، بریانی آلو اور چنوں کی ہو تو آواز دے دے کر آلو اور چنے بھرپور مانگتے ہیں

ہم بن کباب والے سے ایکسٹرا چٹنی ضرور مانگتے ہیں پیاز بھی مانگتے ہیں

ہمارے صوفوں کی دراڑ میں خوب کاغذ ، ٹافیز کے ریپر نکلتے ہیں ، ہماری چابیاں ، ہماری چھوٹی چھوٹی ضروری چیزیں بھی یہیں سے ملتی ہیں ۔

ہم ناڑا پرونا ضرور ڈھونڈتے ہیں

ہمیں تولیہ بھی نہانے کے بعد یاد آتا ہے ، نہاتے ہوئے صابن ضرور ہاتھ سے سلپ کرتے ہیں ، ہم تو شیمپو ختم ہو جائے تو اس کی بوتل میں پانی بھر اس کے جھاگ سے دو دفعہ نہا لیتے ہیں

ہم بستر پر بچھی دوسرے کی  استری شدہ قمیض پر کہنی گاڑ کر بیٹھتے ہیں

پڑوس سے آئی ڈش کو سونگھتے ضرور ہیں

سیل میں پاور بچی ہے یا نہیں زبان لگا کر چیک کرتے ہیں

موٹر سائیکل کا پٹرول اس وقت ڈلواتے ہیں جب تک موٹر سائیکل لٹا نہ لیں

جب تک ٹی وی کے ریموٹ کی پٹائی لگا کر اس کا حلیہ نہ بدل دیں سیل نہیں بدلتے

گاڑی راستے میں خراب ہو جائے تو بونٹ کھول کر ادھر ادھر ہاتھ ضرور مارتے ہیں

کسی کا کبھی آنکھوں کے موتیا کا آپریشن نہ بھی ہوا ہو دل کے مریض کو آپریشن کے لیے مشورے اعلیٰ دیتے ہیں

محفل میں کوئی شخص انہونا واقعہ سنائے تو ذہن پر زور دے کر اپنے ساتھ ہوئے کسی ایسے واقعہ کو یاد ضرور کرتے ہیں

ناک سے گندگی نکال کر کرسی صوفہ بستر کے نیچے ضرور چھپاتے ہیں جیسے کوئی قیمتی موتی ہو

خواتین کو سامنے سے آتا دل بھر کر دیکھ کر مڑ کر بھی ضرور دیکھتے ہیں

کسی انتظار گاہ میں بیٹھ کر باربار موبائل ضرور چیک کرتے ہیں جیسے خاموشی سے چپکے سے کال اور میسج آجاتا ہو اور ہمیں پتہ نہیں چلتا

روڈ پر ہوئے حادثہ دیکھ کر اپنے جیسے تماشائی سے پوچھتے ہیں “کیا ہوا؟” اور وہ کندھے آچکا کر کہتا ہے “پتہ نہیں”

ہماری چائے میں بسکٹ بھیگ کر ضرور گرتا ہے ، آخر میں بچی شکر کو انگلی سے لپیٹنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ، ہمارے چائے کے کپ میں جمی پتری کو ہم کپ کے کنارے پر ہی چپکا دیتے ہیں

نہاری پائے کھاتے ہوئے شوربہ ضرور یادگار کے طور پر کپڑوں پر گراتے ہیں

جب کوئی انتقال کر جائے تو ضرور کہتے ہیں “کل ہی تو مجھ سے ملے تھے ، صبح تو میری بات ہوئی ہے” ، “ابھی تو کھانا کھایا تھا ” بھئی روح نکلنے سے ایک سیکنڈ پہلے بندہ زندہ ہی ہوتا ہے

بلی کو ہم ہمیشہ “ہش” کہہ کر بھگاتے ہیں “اوئے” نہیں کہتے

نماز پڑھتی ماں جب اپنی ران پر ہاتھ مار کر کسی کام سے روکے تو رک جاتے ہیں ویسے جب تک وہ کتا ذلیل کمینہ نہ کہے ہم نہیں رکتے

ہمیشہ اپنے گھر پر پہلی دستک کو  پڑوس کے گھر کوئی آیا ہے سمجھ کر ان سنی کر دیتے ہیں

دن میں لائیٹ چلی جائے اور دورانیہ طویل ہو جائے  تو  لائیٹ آئی یا نہیں سامنے گھر یا پڑوس میں دیکھتے ہیں

موبائل اور کمپیوٹر کی خرابی کا علاج ری اسٹارٹ کرنے کو سمجھتے ہیں ۔

ہم بہت سادہ لوگ ہیں پر لوگ ہمیں کیا کیا سمجھتے ہیں۔

حصہ
mm
صہیب جمال نے لکھنے لکھانے کی ابتداء بچوں کے ادب سے کی،ماہنامہ ساتھی کراچی کے ایڈیٹر رہے،پھر اشتہارات کی دنیا سے وابستہ ہوگئے،طنز و مزاح کے ڈرامے لکھے،پولیٹکل سٹائر بھی تحریر کیے اور ڈائریکشن بھی کرتے ہیں،ہلکا پھلکا اندازِ تحریر ان کا اسلوب ہے ۔ کہتے ہیں "لکھو ایساجو سب کو سمجھ آئے۔

6 تبصرے

جواب چھوڑ دیں