’’تخلیقی تدریس ‘‘ آخری قسط

تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کرنے کے طریقے؛۔طلبہ میں فطری طور پر تخلیقی مزاج کا اگر فقدان بھی پایا جائے تب بھی اساتذہ کسی قدر اپنی کاوشوں سے بچوں میں تخلیقی مزاج کو پیدا کرنے میں کامیا بی حاصل کر سکتے ہیں۔بچوں میں تخلیقی انداز فکر کو پیدا کرنے اور اس کو پروان چڑھانے میں درجہ ذیل نکات عملی طور پر بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔
(1)طلبہ کو اساتذہ تنقیدی، تجزیاتی اور تخلیقی انداز میں مطالعے کی عادت ڈالیں۔طلبہ کو ان کے تخلیقی افکار،خیالات اور وہ تمام چیزیں جو ان کے ذہن کو متاثر کرتی ہے کو تحریر کرنے اور اس پر فکر و تدببر کرنے کی تلقین کریں۔
(2)دوران تدریس تمام رموز و نکات کے اظہار سے اساتذہ اجتنا ب کر یں تاکہ طلبہ میں غور و فکر کی عادت پیدا ہو سکے۔ا طلبہ کو ان کی رائے کے اظہار کی مکمل آزادی فراہم کریں اور تدریس کا ایسا دوستانہ ماحول پیدا کریں کہ طلبہ مضمون سے متعلق کوئی بھی سوال کرنے سے ہر گز نہ ہچکچائیں اور ایک بہتر نتیجے پر پہنچنے میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
(3)طلبہ کے شوق وذوق اور دلچسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کو مختلف گروپس میں تقسیم کرتے ہوئے مختلف تصورات و نظریات جو ان لبھاتی ہیں میں مصروف کریں۔ان کو ہدایت دیں کہ وہ بالکل تخلیقی اور اختراعی انداز میں اپنے نظریات و تصورات کو پیش کرنے کی کوشش کریں۔
(4)طلبہ سے اساتذہ ایسے سوالات کریں کے ان کے اصل قابلیت عود کر آجائے۔طلبہ کے غیر معمولی اور معصوم سوالات کو اہمیت دیں اور بیکار سوالات کرنے پر ان کو تحقیر و تضحیک کا نشانہ نہ بنائیں۔ طلبہ سے ایسے سوالات کریں جس کے کئی جوابات متوقع ہو اس طرح کے سوالات سے طلبہ کی حقیقی قابلیت معلوم ہونے کے علاو ہ ان کی بہتر تربیت ہوسکتی ہے۔
(5)طلبہ کے قابلیت کو للکارنے والے (challenging)تعلیمی سرگرمیوں (assignments)تفویض کریں۔رٹہ مارنے کی عادت کی حوصلہ شکنی کریں۔تعلیمی سرگرمی بھی اس نوعیت کی انھیں تفویض کریں جو ان میں تحقیق،تنقید،تجزیہ اور تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کر سکے۔
(6)طلبہ کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی سرگرمیوں اور مشاغل میں مشغول کریں تاکہ ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم نمو پاسکے۔طلبہ کے اچھے تصورات و نظریات کو کارآمد اور مفید بنانے میں ان کی رہبری اور رہنمائی کے فرائض انجام دینے سے اساتذہ ہر گز منہ نہ موڑیں۔
(7)ایسے تعلیمی منصوبے اور سرگرمیاں ترتیب دیں جو محدود اکتساب کی نفی کرتی ہو۔تعلیمی مشاغل اور سرگرمیاں ہمہ مقصدی اور تنوع سے بھر پور ہونی چاہیئے تاکہ باآسانی بچوں میں تحریک اور ترغیب پیدا کی جاسکے اور ان کی نظر و فکر کو وسعت مل سکے۔اساتذہ کا سب سے اہم کام طلبہ کو محدود اکتساب اور تنگ نظری سے بچانا ضروری ہوتا ہے۔تاکہ وہ ہر صحت مند نظریے کی تائید و حمایت کر سکیں۔
(8)طلبہ کی تخلیقی کام اور فکر و نظر کی دوسروں کے سامنے تعریف و توصیف کریں۔تاکہ ان کی ہمت افزائی ہو اور وہ اپنی صلاحیتوں کو اور بہتر کر سکیں۔طلبہ کے اختراعی اور تخلیقی کاموں پر انعامات کے ذریعہ بھی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے اور یہ طریقہ بچوں میں تخلیقی انداز فکر اور طرز استدلال پیدا کرنے میں نہایت معاون ہوتا ہے۔
(9)طلبہ کواسکول میں منعقد ہونے والے آرٹ،سائنس،ادب اورماحول و فطرت سے متعلق مختلف پرگرامس میں حصہ لینے کی ترغیب دیں تاکہ انھیں اپنی تخلیقی افعال و کارکردگی پیش کرنے کا بہتر موقع مل سکے۔
(10)تخلیقی انداز فکر پیدا کرنے میں معاون عناصر جیسے تخلیقی تخیل،تجسس اور تحقیق پسندی کو بچوں میں فروغ دیں۔
(11)طلبہ کو تخلیقی انداز میں مشاہدہ کرنے کی تعلیم دیں اور فارغ اوقات میں غیر معمولی اور خاص خصوصیات کے بارے میں سوچنے کی نہ صرف عادت ڈالیں بلکہ ان عوامل کے فروغ میں معاون سرگرمیوں کو مناسب منصوبہ بندی کے ذریعہ عمل میں لائیں۔
(12)اساتذہ ہر قسم کی تنقید ذات سے بچوں کو بچا کر رکھیں اور اس عادت کی حوصلہ شکنی کرتے رہیں۔تنقید ذات کی وجہ سے بچے تحریک و ترغیب سے دور ہوجاتے ہیں اور یہ کیفیت ان میں عدم محرک بن جاتی ہے۔غیر موافق ذہنی حالت بچوں میں نئے نظریات و افکار کے جنم میں بہت بڑی رکاوٹ مانی جاتی ہے۔
(13)طلبہ کو فکر ی وسعت و وسیع النظری کی اہمیت و افادیت کی تعلیم دیں۔الگ انداز سے تحقیق کی اور منفرد و مختلف طریقوں سے معلومات کو منظم و مربوط کرنے کے ہنر سے طلبہ کو لیس کریں۔
(14)ہر مضمون کے اہم نکات و نوٹس کو پہلے ایک عام نوٹ بک(Rough Book) میں تحریر کرنے کی طلبہ کو تقلین کریں کیونکہ یہ طریقہ کار طلبہ میں تخلیقی صلاحیت کے فروغ میں بہت معاون و مددگار ہوتا ہے۔اس طرح کے کام سے تحریر کردہ تصورات کو از سر نو ترتیب دینے اور نظریات و تصورات کی حقیقت تک پہنچنے علاوہ تخلیقی انداز میں کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
چند اسکولی سرگرمیاں جو تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ میں مدد گار ہوتی ہیں؛۔کلارک (Clark)کے مطابق انسانی زندگی کے تمام افعال بشمول جذبات، ادراک عمل اور وجدان(intuition)کے حسین امتزاج کا نام تخلیقیتCreativity) (ہے۔اساتذہ کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایسے وافر مواقع کی فراہمی کو یقینی بنائے جس کے ذریعہ بچوں میں تخلیقیت اور اختراعیت کو نمایا ں فروغ مل سکے۔تخلیقی مزاج کے فروغ کے لئے مخصوص تعلیمی سرگرمیوں اور منصوبوں کو عملی طور پر شامل نصاب اور تدریس کا حصہ بنا نا ضروری ہوتا ہے۔طلبہ میں تخلیقی مزاج و تخلیقی اظہار میں معاون چند سرگرمیوں کو ذیل میں بیان کیا جارہا ہے جس پر عمل پیرائی کے ذریعے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایاجاسکتا ہے۔
(1)قارئین کلب کی تشکیل(readers club formation)؛۔کتب بینی کے ذریعہ طلبہ میں تخلیقی سوچ پیدا کی جاسکتی ہے۔ کتب بینی کے ذریعہ طلبہ مضمون کی گہرائی وگیرائی تک پہنچنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔مسئلہ کو مختلف انداز میں دیکھنے سمجھنے اورسلجھانے صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔کتب بینی قوت متخیلہ کو مہمیز کرنے میں کلیدی کردار انجام دیتی ہے۔کتب بینی کی وجہ سے طلبہ معلومات کو نہ صرف دوسروں کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں بلکہ کسی موضوع پر اپنے شخصی نظریات بھی درج کروانے کے لائق ہوجاتے ہیں۔کتب بینی کے ذریعہ بچے بحث و مباحث اور مذاکروں کے لائق ہوجاتے ہیں اور یہ سرگرمیاں ں طلبہ کے تجربہ اور افکار میں گہرائی و گیرائی کا باعث بنتے ہیں۔
(2) قارئین تھیٹر کی تشکیل(Formation of readers’ theatre)؛۔بغیر کسی شہ نشین(stage)،لباس و پوشاک کے استعمال کے صرف کتابوں میں پڑھی گئی کہانیوں،ڈراموں کو یا د کرتے ہوئے اور باربار کہانی اور ڈرامے کے حالات و واقعات کو دہراتے ہوئے تخلیقی افعال کو بچوں ں میں فروغ دیا جاسکتا ہے۔اس سرگرمی میں بچوں کے چہرے اور تصورات کے ذریعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا باآسانی اندازہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

منصوبو ں پر کام کرتے ہوئے؛۔طلبہ اساتذہ سے مشورہ کرتے ہوئے اپنے موضوعات کا انتخاب کرنے کے ساتھ موضوع کا گہرامطالعہ،تجزیہ،تجربہ اور مختلف جزئیات پر تحقیق کے ذریعہ جامع رپورٹ تیار کرتے ہوئے اپنے نتائج کو پیش کر سکتے ہیں۔ ا یسے منصوبوں کو زیادہ گنجائش رکھی جائے جو طلبہ کے تخلیقی اظہار اور خودکار تحقیق کو دریافت کرنے میں مددگار ہوں۔
لکھاریوں کے کلب کی تشکیل(Formation of Writers’ club)؛۔طلبہ کو مضامین تحریر کرنے،مضامین کی تصنیف و تالیف اور تصیح و اشاعت کے وافر مواقع فراہم کریں اور ان تمام سرگرمیوں کی انجام دہی کے دوران اساتذہ طلبہ کی مسلسل رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دیتے رہیں۔اساتذہ،طلبہ کے تخیلاتی اور تحریر و ترتیب کردہ ادبی کاموں کی جانچ کے ذریعہ حوصلہ افرائی کے ساتھ تعریف و توصیف سے بھی کام لیں۔
سائنس کلب کی تشکیل(Formation of Science club)؛۔زندگی سے سیکھو،کام کرو اور سیکھو کے یہ وہ دو تدریس کے بنیادی اصول ہیں جن اصولوں پر سائنسی علوم کی تدریس ٹکی ہوئی ہے بلکہ سائنسی فکر کے فروغ میں یہ عملی اقعدام نہایت معاون بھی ہے۔بچوں کی فطر ت میں یہ بات داخل رہتی ہے کہ وہ اشیاء (چیزوں) کو بنائیں، توڑیں اور مختلف اشیاء ان کے حوالے کر دی جائے اور فطرت کے اس اصول پر اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تب یہ بچوں میں تخلیقی اظہارکی صلاحیت کو پروان چڑھانے میں نہایت کلیدی کردا رانجام دیتے ہیں۔طلبہ نصابی سرگرمیوں سے ہٹ کر دیگر سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔بچوں میں آزادانہ تحقیق،تجزیہ کاری،اور تجربہ سازی کے لئے نصاب سے ہٹ کر تعلیمی منصوبے اور سرگرمیاں تفویض کریں جو ان میں سائنسی مزاج اور تحقیق کو پروان چڑھائیں۔اسکولوں میں قائم سائنس کلب، بچوں میں پوشیدہ اظہار کی صلاحیتوں اورقوت متخیلہ کو مہمیز کرتے ہوئے مطلوبہ اہداف کی جانب گامزن کرنے فعال کردار انجام دیتے ہیں۔سائنس کلب بچوں میں سائنسی مزاج کے فروغ، سائنس اور سائنسی سرگرمیوں سے حقیقی دلچسپی و رغبت پیدا کرنے،کمرۂ جماعت اور تجربہ گاہ میں سائنسی طرز کارکردگی کو آگے بڑھانے کے ساتھ سائنسی علوم کو عملی صورت گیر ی عطا کرتے ہیں۔سائنس کلب سائنسی علوم کی تدریس کو پرکیف بنانے کے ساتھ سائنسی فہم و ادراک کے اضافے کا باعث بنے ہیں اور بچوں میں بغیر کسی تکان کے سائنسی علوم حاصل کرنے میں ان کے شوق و ولولہ کو زندہ رکھتے ہیں۔سائنسی کلب کے مقاصد میں کم از کم درجہ ذیل مقاصد کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔
(1)سائنسی علم،رجحان اور افہام و تفہیم کو فروغ مل سکے۔
(2)طلبہ کوسائنسی علوم کے مطالعہ کے لئے اعلیٰ اور دنشوارانہ ماحول و مواقع فراہم کرنا۔
(3)طلبہ میں اچھے مقاصد کے لئے صحت مند مسابقت و مقابلہ آرائی کے جذبے کو فروغ دینا۔
(4)طلبہ کو سائنسی ترقی و جدید سائنسی تحقیقات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے انسانی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات سے واقف کرنا۔
(5)طلبہ میں سائنسی رویے،رجحانات کے فروغ کے ساتھ سائنسی انداز میں تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرنا۔
(6)طلبہ میں ہمیشہ ماحول کے تحفظ اور حفاظت کے لئے سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی عادت کو فروغ دینا۔
سائنس کلب کی سرگرمیوں میں،منصوبائی کام(project work)،سمینار،ماڈلس کی تیاری،مشاہدے فطرت کے لئے سفر کرنا،سائنس سے متعلق معلومات کو CDیا پن ڈرائی میں محفوظ کرنا،طبی نباتات(پودوں) کا ہربے ریم تیار کرنا،سائنسی موضوعات سے متعلق خبروں کو اخبارات،رسائل اور جرائد سے کاٹ کر اسکراپ بک میں چسپاں کرنااور اہم پودوں کا ایک چھوٹا سا باغیچہ بنانا وغیرہ جیسی سرگرمیوں کو شامل کرتے ہوئے سائنس کلب کی اہمیت و افادیت کو چارچاند لگائے جاسکتے ہیں۔
مندرجہ ذیل طریقہ پر سائنس کلب ترتیب دے کراسے موثر اور منظم بنایا جاسکتا ہے۔
پرنسپال(principal)
مشیر عہدیدار یا صلاح کار (staff counselor)
خازن کلب(Club Treasure
معتمد کلب (Club Secretary)
گروپ لیڈر(Group Leader) گروپ لیڈر(Group Leader) گروپ لیڈر(Group Leader)
——————————– ——————————– ——————————–
——————————– ——————————– ——————————–
——————————– ——————————– ——————————– گروپ ممبرس
——————————– ——————————– ——————————–
——————————– ——————————– ——————————–
——————————– ——————————– ——————————–
تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے اساتذہ طلبہ کو تخلیقی اظہار و مظاہر ہ کے زیادہ سے زیادہ موقعے فراہم کریں تاکہ وہ منظم اور باقاعدہ طریقے سے ذہنی سرگرمیوں جیسے غور و فکر تنقید و تحقیق،تجربہ و تجزیہ،مشاہدے و مباحثوں میں اپنی خیالات کو سائنسی انداز او ر بہتر استدلا ل کے ساتھ پیش کر سکیں۔درس و تدریس کے دوران ایسے کئی لمحات آتے ہیں جہاں قوت تخلیق کے علاوہ نئے تصورات و نظریات کی تشکیل کا عمل جاری رہتا ہے اور تصورات و نظریات کا اظہار بھی منفرد انداز میں ہوتا رہتا ہے۔اساتذہ روایتی فرسودہ طریقہ تدریس سے انحراف کرتے ہوئے بچوں میں تحریک و رغبت پیدا کے ذریعہ اظہار ذات،تکمیل ذات کے احساس سے سرشار ہوکر دریافت و ایجادات کے ثمرات سے لطف و حظ اٹھا سکیں۔اساتذہ اپنی تخلیقی طریقہ تدریس سے صرف چند طلبہ کی زندگی نہیں بدلتے ہیں بلکہ معاشرے اور سماج کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دیتے ہیں۔قوم کی ترقی اور زبوں حالی کے لئے کئی وجوہات کو نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اساتذہ کا تغافل اور لاپرواہی کسی بھی طور لائق معافی نہیں ہوتی ہے۔اساتذہ اپنے طریقے تدریس سے تمام مادی،انتظامی و دیگر خامیوں و خرابیوں کو خوبیوں میں تبدیل کرنے کی لیاقت و قابلیت اپنے میں رکھتے ہیں اور ایک کامیاب استا د وہی ہوتا ہے جو اپنی تما م تر قابلیت و لیاقت اپنے طلبہ میں منتقل کر دیتا ہے۔ ایسے مثالی اساتذہ کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جاتا ہے۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں