حج عبادت بھی تربیت گاہ بھی

حج ایک ایسی عظیم اور منفرد عبادت ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اس کے فوائد بے شمار ہیں۔دینی و دنیاوی فوائد، مالی و معاشی فوائد،سماجی و معاشرتی فوائد،ان فوائد کو سمیٹنے کا تعلق یقیناً انسان کے ارادے و محنت کے ساتھ ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:
لیشہدوا منافع لہم ویذکروا اسم اللہ فی أیام معلومات علی ما رزقہم من بہیمۃ الأنعام فکلوا منہا وأطعموا البائس الفقیر. ترجمہ،……..
حج کا سفر اور بالخصوص مناسک حج ایک مسلمان کو اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ وہ اپنے تمام معاملات کو اللہ کے آگے پیش کرے اور اسی سے ان مسائل کے حل کی دعا کرے۔
اور دعا کو اپنی زندگی میں اپنی روزانہ کا معمول بنا لے۔ ہم غور کریں تو یہ بات بلکل واضح نظر آتی ہے کہ مناسک حج میں چھ مقامات پہ دعا مسنون ہے۔
طواف، سعی کے دوران،صفا و مروہ پہ، عرفہ،مشعر حرام، چھوٹے اور بڑے جمرات کو کنکریاں مارنے کے بعد، اور ان کے علاوہ سارا سفر ہی دعا کی قبولیت کا وقت ہے۔
حج کی عبادت درس اعتدال دیتی ہے۔ امت اسلامیہ اعتدال اور توازن کی امت ہے۔ دین اور دنیا، عبادات اور معاملات میں اعتدال ایک حسن ہے اور یہ اعتدال ہی اسلام کی ایک امتیازی خوبی بھی ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دوران حج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنی پہ سوار حالت میں مجھ سے فرمایا کہ میرے لئے بھی (جمرات کو مارنے کے لیے)کنکریاں اکٹھی کر لے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سات کنکریاں اکٹھی کر لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کنکریوں کو اپنی ہتھیلی مبارک میں اچھال رہے تھے اور فرما رہے تھے ان جیسی (چنے کے دانے کے برابر سائز کی)کنکریاں مارنا۔پھر فرمایا اے لوگو دین میں زیادتی و غلو کرنے سے بچ جاؤ یقیناً تم سے پہلے لوگوں کو دین میں زیادتی و غلو نے ہی ہلاک کیا۔ (مسند احمد)
کنکریاں مارنے میں بھی سائز بڑا کرنا غلو ہے اور جو لوگ عبادات میں اتنا آگے گزر جاتے ہیں کہ حقوق العباد ہی بھول جاتے ہیں تو یقیناً یہ بھی غلو ہے جو باعث سعادت نہیں باعث وبال ہے۔ اعتدال و میانہ روی ہی ہر کام کا حسن ہے۔
حج نفوس کا تزکیہ اور دلوں کی گندگی صاف کر کے اطمینان جیسی خوبصورت دولت سے مالا مال کرتا ہے اور اس دولت کا حصول تب ہی ممکن ہے جب ایک حاجی حج کے دوران مشقت و تھکاوٹ کا،بدانتظامی کا، کسی ایجنٹ کی خیانت کا،لوگوں کی بدسلوکی کا رونا رونے کی بجائے اپنی زبان کو مسلسل اللہ کی یاد سے تر رکھے۔ اور اپنی زبان و دل کو اللہ کے ذکر کے ساتھ اتنا مضبوط جوڑ لے کہ دنیا کی ہر مصیبت اس کے لئے آسان ہو جائے۔اسی لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو تمام مناسک حج میں ہر فرض کی ادائیگی کے ساتھ اللہ کے ذکر کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 198سے 203 تک اس بات کی وضاحت موجود ہے۔کہ عرفات سے واپسی پہ مزدلفہ سے واپسی پہ اور حج کے اختتام پہ اور ایام تشریق میں اللہ کا ذکر کرو۔عبادت کی فضیلت اور اس کے درجات اور اس کا اجر و ثواب اور اس کی تاثیر کا اللہ کے ذکر سے گہرا تعلق ہے۔
مسند احمد میں ایک روایت ہے معاذ بن انس الجھنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،ایک بندے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا حاجی زیادہ اجر والا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا زیادہ ذکر کرنے والا“۔
سفر حج وہ مبارک سفر ہے جس میں ایک مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق معاہدہ کر کے زاد راہ باندھ لیتا ہے لیکن وہ اس خطے میں رہائش اور کھانے اور سفر کی سہولیات سے بالکل ناواقف ہوتا ہے لیکن اللہ پہ توکل کرتے ہوئے اپنا مال،جان، عزت اللہ کے سپرد کرتے ہوئے اللہ پہ بھروسہ توکل کر کے سفر کرتا ہے۔اور یہ حج ہمیں توکل کا صحیح مفہوم بھی سمجھاتا ہے اور توکل کی اصل حقیقت سے روشناس کرواتا ہے کہ توکل ہر گز یہ نہیں کہ آپ ہاتھوں پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور کوشش نہ کریں اور اسباب تلاش نہ کریں اور کہتے رہیں کہ یہ میرا توکل ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اہل یمن حج کرنے کے لیے آتے تو کوئی سامان (کھانا)وغیرہ ساتھ نہ لے کر آتے پھر وہاں لوگوں سے مانگتے اور کہتے کہ ہم تو توکل کرنے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔اور تم زاد راہ لیا کرو یقیناً بہترین زاد راہ تقوی ہے(البقرہ 197)
اسباب کے استعمال کے بغیر توکل کرنا خلاف فطرت اور خلاف شریعت ہے۔ اپنی محنت اور اپنی صلاحیت خرچ کرنے کے بعد انسان اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دے تو یقیناً پھر اللہ ضرور مدد کرتا ہے۔
سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: اگر تم اللہ پہ اس طرح بھروسہ کر لو جس طرح بھروسہ کرنے کا حق ہے تو یقیناً وہ تمہیں اسی طرح رزق دے جس طرح وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے وہ صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کے وقت پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔
تو اس حدیث میں بھی توکل کی یہ تعریف سمجھائی گئی کہ توکل پرندوں والا اور تلاش بھی ویسے ہی کرنی چاہیے۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں