کراچی ٹینکر مافیا کے نرغے میں

ایک وقت تھا کہ شہر کراچی میں پانی کی کوئی کمی نہ تھی۔ یہاں ہر وقت پانی دستیاب رہتا تھا۔لیکن اب گزشتہ کچھ عرصے سے شہر کراچی ٹینکر مافیا کے نرغے میں ہے اور پانی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ مہنگے داموں پانی خریدیں۔ اربابِ اختیار پانی کی قلت کے کئی جواز تراشتے ہیں لیکن شہر کی سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں دوڑتے واٹر ٹینکر اس بات کی نفی کرتے ہیں اور یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ شہر میں پانی قلت نہیں ہے۔ کراچی میں سوائے چند ایک علاقوں کے الحمد اللہ پورے شہر میں پانی دستیاب ہوتا تھا۔ پانی کی قلت زیادہ تر مضافاتی علاقوں میں ہوتی تھی ۔ لیکن ان علاقوںمیں بھی جو مضافاتی علاقے ہیں، ان میں تو واقعتاً پانی کی کمی ہوتی تھی اور وہاں پانی کی لائنیں نہیں ہوتی تھیں جیسے کہ بلدیہ ٹائون ، سرجانی ٹائون  وغیرہ ۔ لیکن کچھ علاقے ایسے بھی تھے جہاں پانی با آسانی دستیاب ہوتا تھا لیکن واٹر بورڈ اور ٹینکر مافیا کی ملی بھگت سے ان علاقوں میں پانی کی مصنوعی قلت ظاہر کرکےوہا ں مہنگے داموں پانی بیچا جاتا تھا۔ ان علاقوں میں ڈیفنس، شیریں جناح کالونی، پی۔ای۔سی ۔ایچ۔ایس وغیرہ شامل ہیں ۔ راقم الحروف نے خود یہ معاملات دیکھے کہ پی۔ ای۔سی۔ایچ۔ ایس۔ کے بعض علاقوں میں واٹر بورڈ کے کچھ بدعنوان اہلکار علاقے کا پانی بند کردیتے تھے۔ بعد میں مختلف خرابیاں وغیرہ ظاہر کرکے لوگوں سے بھاری رقوم وصول کی جاتیں اور پانی کھول دیا جاتا لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ بند کردیا جاتا۔

یہ تو رہا پوش علاقوں کا معاملہ! جو علاقے نسبتاً خوشحال ہیں وہاں ٹینکر مافیا کو من مانی کرنے کی اجازت دی جاتی اور مہنگے داموں پانی بیچا جاتا۔ ان علاقوں میں نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی وغیرہ شامل ہیں۔ اب گزشتہ کچھ عرصے سے ٹینکر مافیا نے لیاقت آباد میں اپنے قدم جمانے شروع کیے ہیںاور یہ لیاقت آباد میں کئی مقامات پر بورنگ کے ذریعے زیرزمین پانی نکال کر سائٹ ایریاوغیرہ میں بیچا جارہا ہے۔بورنگ مافیا کا طریقہ ٔ واردات بہت سادہ اور پرُ کشش ہے۔ یہ لیاقت آباد میں لیاری ندی کے ساتھ اورقریب کے گھروں کو کرائے پر لیتے ہیں۔ لیاری ندی کے قریب کے مکانات ندی کی وجہ سے بہت معمولی کرائے پر دستیاب ہوتے ہیں کیوں کہ ایک تو یہ ندی کے قریب ہوتے ہیں اور دوسرا یہ نسبتاً کافی اندر واقع ہوتے ہیں ۔ بورنگ مافیا یہاں بھاری کرائے پر مکانات حاصل کرتے ہیں ۔ جس مکان کو کوئی فیملی 8 یا دس ہزار روپے میں بھی کرائے لینا پسند نہیں کرے، اس مکان کو یہ مافیا 20 سے 30 ہزار روپے کرایے پر حاصل کرتے ہیں۔ مالک مکان کو جب اتنی رقم نظر آتی ہے اور ساتھ فیملی کا کوئی جنجھٹ بھی نہیں تو وہ بخوشی مکان کرائے پر دیتا ہے اور اس کے بعد اپنی آنکھیں اور کان بند کرلیتا ہے۔

اب بورنگ مافیا یہاں ایک ہی کمرے میں 4/5  جگہ بورنگ کرکے ان کو ایک بہت بھاری موٹر کے ساتھ منسلک کردیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کم از کم 12 انچ قطر کی پائپ لائن کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے۔ اگر آپ لوگ تین ہٹی سے لے کر لسبیلہ تک لیاری ندی کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں تو آپ کو 12 انچ قطر کے کالے رنگ کی بے شمار پائپ لائنیں نظر آئیں گی۔یہ لائنیں مختلف گھروں میں بورنگ کرکے وہاں سے شہر کے مختلف علاقوں میں پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔

ایک طرف یہ بورنگ مافیا واٹر بورڈ کے عملے کی ملی بھگت یا غفلت کے باعث اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔ دوسری جانب پانی جیسی بنیادی چیز لوگوں کو خریدنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ مافیا شہر کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کررہا ہے۔ کیوں کہ جس رفتار سے یہ مافیا زیر زمین پانی نکال رہا ہے ۔ اس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح بہت تیزی سے کم ہورہی ہے۔ لیاقت آباد کی ایک مسجد میںکنواں کھود کر پانی کی موٹر لگائی گئی تھی۔ اس کنویں کی وجہ سے پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں پورا محلہ مسجد سے پانی بھر کر اپنی ضرورت پوری کرتا تھا، لیکن بورنگ مافیا کے آنے کے بعد اس مسجد کے کنویں میں پانی کی سطح اچانک نیچے چلی گئی ہے اور مسجد انتظامیہ کو مجبوراً یہ لکھ کر لگانا پڑا ہے کہ مسجد سے پانی نہ بھرا جائے۔

زیر زمین پانی تیزی سے نکالنے سے دوسرا نقصان یہ ہورہا ہے کہ زیر زمین پانی کے کم ہونے کے نتیجے میں زمین کے اندر ویکیوم بنے گا۔ جب یہ خلا بنے گا تو اس خلا کو بھرنے کے لیے مٹی آگے آئےگی اور وہ اس خلا کو بھرے گی، جس کے نتیجے میں اس جگہ کی زمین دھنس جائے گی ، یا وہاں اچانک گڑھا پڑ جائے گا۔ آنے والے دنوں میں لیاقت آباد اور لیاری ایکسپریس وے کو شدید نقصان پہنچنے کا امکان ہے ۔ کیوںکہ زیادہ تر بورنگ لیاری ندی کے قریب اور لیاری ایکسپریس وے کے ساتھ ساتھ کی گئی ہے۔ زیر زمین خلا بننے کی صورت میں لیاری ایکسپریس وے کی بنیادیں کمزور ہوجائیں گی اور اللہ نہ کرے کبھی کوئی سنگین حادثہ پیش آسکتا ہے یعنی پل گرنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔اس طرح نہ صرف یہ اربوں روپے کے منصوبے کو نقصان پہنچائے گا بلکہ قیمتی انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب زمین اندرونی طور پر کمزور ہوجائے گی تو مکانات کے گرنے کا بھی امکان ہے اور میرے منہ میں خاک صورت حال اس طرح کی بنتی جارہی ہے کہ اگر کبھی کراچی میں کوئی ہلکا سا بھی زلزلہ آیا تو لیاقت آباد اور لیاری ندی کے ساتھ کے علاقوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

اس پوری صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کراچی واٹر بورڈ میں اکثریت کراچی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہی ہے۔ لیکن ان لوگوں کو اپنے شہر اور شہر والوں کی تکلیف کا کوئی خیال نہیں ہے۔محض چند روپوں کی کاخاطر یہ لوگ بورنگ اور ٹینکر مافیا کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ ان کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ چند روپے لے کر یہ شہر کو ناقابل تلاف نقصان پہنچا رہے ہیں۔

اربابِ اختیار کو چاہیے کہ وہ بورنگ مافیاکے خلاف فوری کارروائی کرکے ان کا قلع قمع کرے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے حادثے کا امکان نہ رہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر کراچی میں پانی کی مصنوعی قلت ختم کرکے شہر کو پانی فراہم کیا جائے اور انہیں ٹینکر اور بورنگ مافیا سے نجات دلائی جائے۔

حصہ
mm
سلیم اللہ شیخ معروف بلاگرہیں ان دنوں وہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیچرز ٹریننگ بھی کراتے ہیں۔ درس و تردیس کے علاوہ فری لانس بلاگر بھی ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ...

12 تبصرے

جواب چھوڑ دیں