’’نہ کھلتے یوں راز سرِبستہ،نہ یوں رسوائیاں ہوتیں‘‘

مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ’’مبینہ ویڈیو‘‘میں کتنی حقیقت ،کتنا افسانہ دیکھنے کی ابھی کوئی صورت سامنے نہیں آئی تھی اور یہ کہ مبینہ ویڈیو کی فرانزک کروانے کا شور ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ اِس سے پہلے کہ مبینہ ویڈیو میں کتنی حقیقت،کتنا افسانہ،اور یہ کہ یہ کتنی سچی ،کتنی جھوٹی،درست بھی کہ غلط ،کا پتا چلتا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا،مریم نواز اور جج ارشد ملک کے درمیان اِس لڑائی پر جج صاحب کی مریم نواز کی پریس کانفرنس کے ایک دن بعداتوار والے روز ایک پریس ریلیز سامنے آگئی،جس میں انہوں نے اِس ویڈیو کی تردید کی ،اِسے جھوٹا کہا اور حقائق کو توڑمروڑکر پیش کیا گیا بُولا،وہیں اِس میں کسی بات پر اقرار بھی موجود تھا اور کہیں کسی بات پر انکار بھی تھا،اُن کی پریس ریلیز کا معاملہ ’’نہ وہ کھل کر اقرار کرتے ہیں ،نہ کھل کر انکار کرتے ہیں ‘‘والا تھا،کہ اُن کا 11 جولائی کے دن والا بیان حلفی بھی سامنے آگیا،جس میں انھوں نے اپنے دعوے کے حق میںتفصیلی حقائق بیان کیے،انہوں نے اپنی پس پردہ کہانی کے نئے کرداروں سے بھی متعارف کروایاہے،اُن کے موقف کی مختصر تفصیل کچھ اِس طرح سے ہے۔فروری 2018 ء میں جج ارشد ملک کی احتساب عدالت میں تقرری کے فورا بعد مہر جیلانی اورناصر جنجوعہ نے اُن سے رابطہ کیا،ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ اُس نے مسلم لیگ نون کی حکومت کی ایک بااثرشخصیت کے ذریعے انہیںاحتساب عدالت کا جج لگوایاہے۔اُس کے کچھ عرصہ بعد اگست2018 ء میں(نواز شریف کے وکیل کی درخواست پر)فلیگ شپ ریفرنس اور ہل میٹل ریفرنس جج ارشد ملک کی عدالت میں ٹرانسفر کردئیے گئے۔جج صاحب کے دعوے کے مطابق جب اِن مقدمات کی سماعت ابھی ہورہی تھی تونواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے متعددباراپروچ کرکے ترغیبات اور دھمکیوں کے ذریعے انہیںاور دوسرے ملزم کو مقدمہ سے بری کرنے کے لیے کہا،ارشد ملک کا دعویٰ ہے کہ مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ انہیں ایک سماجی تقریب میں ملے اور انہیںوارننگ دی کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ کرنے کی صورت میںانہیںبہت نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُس کے بعد جب ابھی دلائل جاری ہی تھے کہ ناصر جنجوعہ نے نواز شریف کی طرف سے انہیںمالی پیش کش کی اور اِس موقع پر ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا کہ اُس کے پاس یورو کی شکل میںدس کروڑ روپے موجودہیں،جن میںسے دو کروڑروپے کے مساوی یوروزاِس وقت بھی باہر کھڑی اُس کی گاڑی میں پڑے ہیں۔جج صاحب کے دعوے کے مطابق انہوں نے رشوت کی پیش کش کوٹھکرا دیا تونواز شریف کی بریت کے لیے ناصر بٹ نے انہیںمل کر جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاںدیں۔جج ارشد ملک کے حلفیہ بیان میںمزید کہا گیا ہے کہ دسمبر2018 ء کے آخری ہفتے میںمقدمے کافیصلہ سنائے جانے کے بعدبھی ناصربٹ اور خرم یوسف انہیں ملے اور پوچھا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے انہیں ملتان والی ویڈیو دکھائی ہے۔اُس کے کچھ عرصہ بعد میاں طارق اور اُس کا بیٹااُن کے پاس آئے اور انہیں اُن کی خفیہ اور سازباز سے ریکارڈ کی ہوئی غیر اخلاقی سرگرمیوں پر مبنی ویڈیو دکھائی۔اِس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے ناصر جنجوعہ نواز شریف کی تسلی کے لیے جج ارشد ملک کا’’ایک آڈیو پیغام‘‘ریکارڈ کرنا چاہتے تھے،جس میں وہ کہہ رہے ہوں کہ میں نے کسی ثبوت اور شہادت کے بغیرانتہائی دبائو میںنوازشریف کو سزادی ہے۔حلفیہ بیان کے مطابق اس ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے ناصر بٹ نے انہیں اپنے ہمراہ جاتی امراء جانے کا مطالبہ کردیا،چنانچہ6 اپریل2019 ء کو جج ارشد ملک جاتی امراء گئے،،جہاں نواز شریف نے خود اُن کا استقبال کیا،جب جج ارشد ملک نے ثبوت کی بناء پراپنے فیصلے کا دفاع کرنے کی کوشش کی تو نواز شریف نے اِس پر سخت ناگواری کا اظہار کیا،اِس اظہار ناراضگی کے ازالے کے لیے ناصر بٹ نے مطالبہ کیا کہ وہ اِس سزا کے خلاف اپیل کی تیاری میںاُن کی مدد کریں،یہی وہ ملاقات اور امداد تھی ،جس کا موادمریم بی بی کی پریس کانفرنس میں پیش کیا گیاتھا۔اِس حلفیہ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جج ارشد ملک 28 مئی2019 ء کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے گئے،مدینہ میں قیام کے دوران یکم جون 2019 ء کو ناصر بٹ انہیں وہاں ملے اور مجبور کرکے انہیں حسین نواز سے ملانے کے لیے لے گئے،حسین نواز بڑے جارحانہ موڈ میں تھے اور انہوں نے انہیںپچاس کروڑروپے کی پیش کش کی اورکہاکہ اِس کے بدلے میں انہیں اِس بناء پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا ہوگا کہ ’’وہ بغیر کسی ثبوت اور شہادت کے دبائو میں آکر نواز شریف کو سزا سنانے پر اپنے ضمیر پر مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔اپنے حلفیہ بیان میں جج ارشد ملک دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ پیش کش ٹھکرادی اورجب ناصر بٹ اور خرم یوسف نے یہی پیش کش دہرائی توبھی اُسے مسترد کردیا،6 جولائی2019 ء کو مریم کی پریس کانفرنس اِسی پیش کش کو ٹھکرائے جانے کے بعد کی گئی ہے۔جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں خود پر بیتی ہوئی تمام صورتحال کو واضح کرکے سب کو حیران و پریشان کرکے ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا،جہاں مریم نوازکی دکھائی جانے والی ویڈیو نظرانداز کرنے والی نہیں، وہیںجج صاحب کا بیان حلفی بھی بھول جانے کے قابل نہیں،اِس لیے کہ ملکی سیاسی و احتسابی صورتحال میں جہاں مریم نواز کی دکھائی جانے والی ویڈیو ایک’’سماں‘‘باندھے ہوئے ہے،وہیں جج ارشد ملک کا بیان بھی ایک ’’جہاں‘‘سموئے ہوئے ہے۔مریم نوازکی پیش کردہ ’’مبینہ ہ ویڈیو‘‘ اور جج ارشد ملک کے اِس حوالے سے دئیے گئے ’’حلفیہ بیان‘‘نے ہمارے مردہ، کھوکھلے،فرسودہ ،بے جان سسٹم کی ساری قلعی کھول کے رکھ دی ہے اور سب کچھ سب پر آشکارہ کردیا ہے کہ کس طرح ہمارے منصف بیرونی سیاسی اور ادارہ جاتی دبائو کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور ہائی پروفائل کیسوں کی شفافیت اور اُس میں انصاف کا تناسب کس حد تک پایا جاتا؟ہمارا عدالتی نظام کتنا مستحکم اور اُس میں تعینات ججوں کی ذہنی و اخلاقی حالت کتنی اچھی؟عدلیہ میں انصاف کا پیمانہ کیااور ہماری صورتحال کیا؟اور یہ کہ ہماری عدالتیںانصاف کی فراہمی کے حوالے سے اپنے کہے پرکس حدقائم و دائم اور یہ کہ اِس کے ہی جج بعدازاں فیصلہ کس طرح کی باتیں کرتے نظر آتے؟مریم نواز کی ’’مبینہ ویڈیو‘‘اور جج ارشد ملک کی اِس حوالے سے کمزور صورتحال ہمارے مردہ اور فرسودہ سسٹم کے منہ پر ایک زور دار تماچہ ہے اور ہمارے لیے سوچنے کے ساتھ ایک لمحہ فکریہ بھی ۔ مریم نواز کی ویڈیو میںکتنی صداقت،کتنا جھوٹ، ویڈیو کتنی سچی، کتنی جھوٹی سے قطع نظر جج ارشد ملک کا حال اِس حوالے سے انتہائی کمزور اور صورتحال بہت خراب اورگھبیر ہے،مریم کی اِس پیش کردہ مبینہ ویڈیو نے ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریوں کوسامنے لا کھڑا کیا ہے،ہمارا نظام کتنا فرسودہ ،نکما اور بے کار ہے کی تمام حقیقتوں کو بے نقاب کردیا ہے،عدالتی نظام میں کتنی خرابیاں اور قباحتیں،کو سامنے لے آیاہے اور یہ کہ اِس حوالے سے ہمارے ججز ز کا کردار کتنا قابل ِ تحسین اور فخر کے لائق ،وہ بھی قوم کو دکھا دیا،جہاں تک جج صاحب کو دی جانے والی دھمکیوں کا معاملہ ہے تو جج صاحب کو چاہیے تھا کہ جو لوگ اُن کو دھمکیاں دے رہے تھے ،اُن کے بارے موقع پر بتاتے،ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے معزز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب اور مانیٹرنگ جج اعجاز الحسن صاحب کو اِس بارے آگاہ کرتے،اُن کوعدالتی کٹہرے میں لاتے،اُن کو کیفرکردار تک پہنچاتے، اُن کی بیخ کنی کے لیے مثبت اقدامات اُٹھاتے،عدلیہ اور اپنا وقار بحال رکھتے،انصاف کی فراہمی میں حائل ہر رکاوٹ کو عبور کرتے،اُن کودوران کیس بلیک میل اور دھمکیاں دینے والے افراد کا پوری جرات سے فوری محاسبہ کرتے،اُن کی ڈیل یا رشوت کی پیش کشوں پر اُن کے خلاف کیس بناتے، سب کچھ ثابت کرکے اُن کو قرار واقعی سزا دلاتے،قانون و انصاف کا بول بالا کرتے،ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتے،اُن کو قانون وانصاف کے دائرے اورکٹہرے میں لا کر سزا دلاتے،مگر وہ ایسا نہ کرسکے،اِس لیے کہ اِن ٹولے کے ہاتھوں مسلسل بلیک میل ہورہے تھے،اِن کے ہاتھوں میں بہت دیر سے کھیل رہے تھے،نجانے وہ کون سے ’’گناہ‘‘ تھے جو جج صاحب نے جوانی میں کیے کہ اُسے منظر عام پر آنے کے ڈر سے ایسے افراد کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر ’’شٹل کاک‘‘ اور ’’کھلونا‘‘بنے ہوئے تھے، اُن کے ہر حکم کو ماننے اور ہر بات کو سہنے پر مجبور تھے،اُن کے ساتھ جاتی امراء تک چلے گئے اور پھر یہ کہ اپنے ہی دئیے گئے فیصلے کے خلاف ،اِس فیصلے کے خلاف اپیل کی تیاری میں اُن کی مدد کرنے پر مجبور ہوگئے ۔نجانے وہ کون سی غیر اخلاقی حرکات و سکنات سرزد ہوئی کہ وہ اُن کے ہر کام ،مطالبے پر عمل بلا چون چراں ایک روبوٹ کی طرح کرتے نظر آئے اور معاملے کی بھنک بھی کسی پر نہ پڑنے دی،وہ تو اللہ بھلا کرے مریم نوازکا کہ ساری صورتحال کاچٹاکھٹا صرف اور صرف اپنے ’’ابو‘‘کو بچانے کے لیے کھول بیٹھی اور ساری کہانی سامنے لے آئی،’’ابو‘‘بچتے کہ نہیںبچتے،یہ تو اعلیٰ عدلیہ پر منحصر ،مگر ’’خود تو ڈوبیں ہیں ،تم کو بھی لے ڈوبے گے صنم‘‘کی طرح جج صاحب کو لے ڈوبی، یہ الگ بات ہے کہ ’’حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ،خوشبو آنہیں سکتی ،کاغذ کے پھولوں سے‘‘اپنا آپ بھی (اپنی احمقانہ سوچ کے پیش نظر ،جن کی اِن سے ہر دم امید رہتی )اچھا کرنے کی بجائے مزید برباد کر بیٹھی، یہ تو مریم تھی جو کہ اتنی گہری ’’ٹاپ سٹوری‘‘کو منظر عام پر لے آئی کہ سارے جہاں کو خبر ہوگئی کہ معاملہ کس حد تک پہنچا ہوا ہے،ورنہ تو پتا ہی نہ چلتا کہ کیا ہورہا، کیا چل رہاتھا،یہ تو مریم تھی جوکہ’’ ابو‘‘ کی محبت میں تمام تر نتائج سے بالاتر ہوکر ساری صورتحال سامنے لے آئی،ورنہ جج صاحب تو احتساب عدالت کی ’’مہان‘‘کرسی پر براجمان ہر طرح کے سیاہ و سفید کے نرم و سخت فیصلے کرتے خاموش یکسر چپ بیٹھے ہوئے تھے،اپنے اندر ایک بہت بڑے طوفان اور اُس کی ہولناکیاں چھپائے ہوئے،جن طوفانوںسے شایدمریم پردہ نہ اُٹھاتی توشایداِن طوفانوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کاکسی کو اندازہ ہی نہ ہوتا اور یہ کہ سب خدا کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا،مریم بول اُٹھی ،اِس لیے کہ سیاست میں ابھی ’’پختہ‘‘ نہ تھی،جج خاموش رہا ،اِس لیے کہ’’ پکا ‘‘تھا،مریم کا بولنا دال میں کچھ نہیں، بہت کچھ کالا والی بات ہے اور جج کااتنا کچھ ہوگیا ،پرتب سے مسلسل خاموش رہنا اُن کے گہنگار اور غلط ہونے کی نشانی ہے۔ اِس لیے کہ جج اتنابھولا نہیں،جتنا اب بن رہا،یا نظر آرہا،یقینا خدشہ پایا جاتا کہ اپنی تعیناتی میںبطور جج ایسے لوگوں سے مراعات و فوائد سمیٹتارہا ،اِن کے ہر جائز و ناجائز کام میں کام آتا رہا،اِن کے ہر اچھے برے کام کا ساتھی رہا ہوگا،تبھی تو اتنے میل ملاپ کا سلسلہ تھااور یہ کہ مل بیٹھنے کی یہ بیٹھک کوئی ایسے ہی نہ تھی، یہ ملاقاتوں ،مل بیٹھنے کا سلسلہ نیا نہیں ،پرانا ہے اور یہ شناسائی کے قصے بھی کوئی ایک دو دن کی کہانی نہیں،پورے عرصہ پر محیط سلسلوں کی ایک داستان ہے،جس سے پردہ اُٹھایا ہے تو مریم نے، بحالت ِمجبوری میں، بچنے کی آخری صورت کے طور پر،اور جس پر چپ سادھ رکھی تھی جج صاحب نے ،چپ کا روزہ توڑڈالا تو بحالتِ مجبوری میں، اپنے پاس رہا کچھ نہ تھا،راز کی ہنڈیا ’’بیچ چوراہے‘‘ پھوٹ چکی تھی،مریم اور اُس کے خاندان کی غلطیوں کی صورت میں،جج ارشدملک کی اپنے عہدے اور حلف کی پاسداری سے تجاوز کی صورت میں،مجرم دونوں ہی ٹھہرے،بس واردات کا انداز ،طریقہ الگ اور اپنا اپنا ٹھہرا ۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں