شریف خاندان کی بے چہرگی اُس کی اپنی تاریخ کے آئینے میں

صرف میاں نوازشریف نہیں پورے شریف خاندان کا نہ کوئی مذہب ہے، نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی تاریخ ہے، نہ کوئی اخلاقیات ہےنہ کوئی کردار ہے۔ اس خاندان کے پاس صرف ایک چیز ہے: انفرادی اور خاندانی مفاد مریم نواز کے ویڈیو دھماکے کے بعد جج ارشد ملک کے بیانِ حلفی کا دھماکا ہوگیا ہے۔ اس دھماکے کی گونج مریم نواز کے ویڈیو دھماکے سے کم نہیں۔ ارشد ملک نے اپنے بیانِ حلفی میں کہا ہے کہ شریف خاندان نے پہلے انہیں دس کروڑ اور پھر پچاس کروڑ میں خریدنے کی کوشش کی۔ ارشد ملک کے بقول ان کی ملاقات میاں نوازشریف اور حسین نواز سے کرائی گئی۔ ان دونوں شخصیتوں نے ارشد ملک کو تعاون کرنے کے لیے کہا۔ ارشد ملک کے مطابق انہیں ایک غیر اخلاقی ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ جس طرح مریم نواز کے ویڈیو دھماکے کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا اسی طرح عدالتی عمل سے قبل ارشد ملک کے بیانِ حلفی کے بارے میں بھی کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔ لیکن بدقسمتی سے شریف خاندان کی تاریخ اتنی ہولناک اور شرمناک ہے کہ اس کے تناظر میں ارشد ملک کو شریف خاندان پر ایک قسم کی اخلاقی برتری حاصل ہے۔ ویسے تو پاکستان کی سیاست میں ہر طرف ’’بے چہرگی‘‘ کا مرض عام ہے، مگر شریف خاندان کی بے چہرگی اتنی افسوس ناک ہے کہ بے ساختہ یہ شعر یاد آجاتا ہے ؎

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

بدقسمتی سے یہ بے چہرگی شریف خاندان کا ماضی بھی ہے، حال بھی اور مستقبل بھی۔ چنانچہ اندیشہ یہ ہے کہ شریف خاندان اپنی بے چہرگی پاکستان اور پاکستانی قوم پر بھی مسلط نہ کردے۔
شریف خاندان کی مذہبیت کا پروپیگنڈہ اتنے بڑے پیمانے پر ہوا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ مگر شریف خاندان کی مذہبیت کا جتنا چرچا ہوا ہے شریف خاندان اتنا ہی غیر مذہبی بلکہ مذہب دشمن ثابت ہوا ہے۔
میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کے والدِ بزرگوار سب سے زیادہ مذہبی کہے جاتے ہیں، مگر اُن کی مذہب اور اخلاق دشمنی اس امر سے ظاہر ہے کہ انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف آصف نواز جنجوعہ کو کھانے پر بلایا، انہیں اپنا ’’بیٹا‘‘ قرار دیا اور انہیں بی ایم ڈبلیو کار رشوت کے طور پر پیش کی۔ راویانِ روایت کا کہنا ہے کہ جنرل آصف نواز نے رشوت کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا۔ مگر بہرحال بڑے شریف صاحب نے جنرل آصف نواز کی وفاداری اور ضمیر کو خریدنے کے لیے بڑی چال چلنے سے گریز نہیں کیا۔ رشوت ہر صورت میں بری ہے، مگر سیاسی رشوت اس لیے زیادہ بری ہوتی ہے کہ اس سے اجتماعی خرابیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
معروف سیاست دان چودھری شجاعت نے اپنی خودنوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں لکھا ہے کہ ان کے اور شریفوں کے درمیان معاہدہ ہوا تو میاں شہبازشریف قرآن پاک اٹھا لائے اور کہا کہ قرآن ہمارے اور آپ کے درمیان ’’ضامن‘‘ ہے، ہم آپ سے کیے گئے ایک ایک وعدے کو پورا کریں گے۔ مگر چودھری شجاعت کے بقول شریف خاندان نے اپنا کوئی وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ جس وقت شہبازشریف قرآن کو ضامن بنانے کی بات کررہے ہوں گے اُس وقت وہاں میاں نوازشریف اور دوسرے شریف بھی موجود ہوں گے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو شریفوں نے اجتماعی طور پر قرآن کو ضامن بنایا۔ چنانچہ انہوں نے وعدہ خلافی کی تو یہ ’’گناہ‘‘ بھی اجتماعی تصور کیا جائے گا۔ مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی حالت اچھی نہیں، مگر کمزور سے کمزور مسلمان بھی جب قرآن کو گواہ بنا لیتا ہے تو وہ اپنے وعدے کو پورا کرتا ہے۔ مگر شریف خاندان نے قرآن کی حرمت کا پاس نہ کیا۔ یہ جرأت شریف خاندان کے سوا شاید ہی کبھی کسی مسلم خاندان نے کی ہوگی۔ اس ایک واقعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شریف خاندان کا اجتماعی باطن کتنا تاریک ہے، اور اس خاندان کے ووٹرز اور سپورٹرز کس طرح شریف خاندان کو طاقت مہیا کرکے اپنی دنیا اور آخرت تباہ کررہے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد شریف خاندان کے اتنے قریب تھے کہ شریف خاندان اپنے خاندانی جھگڑوں میں قاضی صاحب کو ثالث بنایا کرتا تھا، اور بلاشبہ قاضی صاحب اس قابل تھے کہ انہیں ثالث بنایا جائے۔ مگر پھر ایک وقت وہ آیا کہ میاں نوازشریف نے پوری ڈھٹائی سے قاضی صاحب پر دس کروڑ روپے لینے کا شرمناک الزام لگایا۔ یہ شریف خاندان کی محسن کُشی کی ایک صورت تھی، اور محسن کُش لوگوں کی مذہبیت اور اخلاقیات ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ میاں نوازشریف نے قاضی صاحب کے ساتھ جو کیا اُسے عام آدمی کی زبان میں ’’استعمال کرو اور پھینکو‘‘ کہتے ہیں۔ یہی تماشا میاں صاحب نے طاہرالقادری کے حوالے سے کیا۔ ایک وقت تھا کہ میاں نوازشریف طاہرالقادری سے پوچھا کرتے تھے: کہیں آپ امام مہدی تو نہیں! اُس وقت میاں صاحب نے طاہرالقادری کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے عمرہ کرایا۔ مگر اب میاں نوازشریف طاہرالقادری کو فتنہ قرار دیتے ہیں۔ بلاشبہ انسان سے انسان کو سمجھنے میں غلطی بھی ہوجاتی ہے، مگر میاں نوازشریف نے جو کچھ قاضی صاحب اور طاہرالقادری کے ساتھ کیا وہی کچھ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کیا، حالانکہ جنرل ضیاء الحق شریف خاندان کے سب سے بڑے محسن تھے۔ جنرل ضیاء الحق کی وجہ سے شریف خاندان کو اپنے کارخانے واپس ملے۔ جنرل ضیاء الحق کی وجہ سے میاں نوازشریف سیاست میں آئے اور اعلیٰ ترین مناصب تک پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف جنرل ضیاء الحق کو اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے۔ مگر جنرل ضیاء الحق کے مرنے کے کچھ عرصے بعد شریفوں نے جنرل ضیاء الحق کو بھی الوداع کہا، اور اب وہ اُن کا ذکر ایک ’’آمر‘‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کبھی جنرل ضیاء میاں صاحب کے ’’باپ‘‘ تھے، اور اب ’’پاپ‘‘ ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شریف خاندان کا کیا مذہب ہے، کیا اخلاق ہے، کیا تہذیب ہے، اور کیا کردار ہے۔ بلاشبہ جنرل ضیاء آمر تھے، مگر جنرل ضیاء کو آمر وہی کہہ سکتا ہے جو خود آمر نہ ہو۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء فوجی آمر تھے، میاں نوازشریف سول آمر ہیں۔ کیا ایک ’’سول آمر‘‘ ایک فوجی آمر کو ’’آمر‘‘ کہتا ہوا اچھا لگتا ہے!
اسلامی جمہوری اتحاد کے زمانے میں ملک پیپلزپارٹی کے حامیوں اور مخالفین میں بٹا ہوا تھا۔ میاں صاحب اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنما تھے، اور اسلامی جمہوری اتحاد میں نام کے لیے سہی ’’اسلامی‘‘ لگا ہوا تھا۔ مگر میاں نوازشریف نے اسلام کی رتی برابر بھی پروا نہ کی۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کو روندنے کے لیے اُن کی خودساختہ ننگی تصاویر پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہیلی کاپٹر سے پھنکوائیں اور بدقسمتی سے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ بھی لگوایا۔ یہ بڑی سنگین وارداتیں تھیں، چنانچہ ایک بار امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اُن سے دونوں باتوں کی تصدیق چاہی۔ قاضی صاحب نے افسوس کے ساتھ کہا کہ میاں نوازشریف نے یہ دونوں کام کرائے۔ تسلیم کہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی شکست ضروری ہوگی، مگر کیا اس کے لیے اُن کی کردارکُشی کے لیے اُن پر بہتان باندھنا ضروری تھا؟ جیسا کہ ظاہر ہے یہ واقعات بھی شریف خاندان کی بے چہرگی کے عکاس ہیں، اور ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’’شریفوں‘‘ کا کوئی مذہب، کوئی اخلاق، کوئی تہذیب اور کوئی کردار نہیں۔ وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کسی کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مریم نواز سیاست میں آنے کے لیے کوشاں ہیں، اور خدا کا شکر ہے اُن کے حریفوں میں کوئی میاں نوازشریف جیسا نہیں ہے۔
ہم ایک روز قاضی حسین احمد کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نہ جانے کہاں سے میاں نوازشریف اور صحافیوں کے باہمی معاملات کا ذکر چھڑ گیا۔ قاضی صاحب نے بتایا کہ ایک روز میں میاں نوازشریف کے ساتھ موجود تھا کہ انہوں نے مجیب الرحمن شامی کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ قاضی صاحب کے بقول انہوں نے میاں صاحب سے کہا کہ شامی صاحب اب اتنے برے بھی نہیں ہیں۔ یہ سن کر میاں نوازشریف نے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ شامی کو نہیں جانتے، اُسے پیسے ملنے میں دیر ہوجاتی ہے تو وہ فون کرکرکے جینا حرام کردیتا ہے۔ ہم اپنی کم عمری اور لاعلمی کی وجہ سے یہ واقعہ سن کر حیران ہوئے اور ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ شریف خاندان صحافیوں کو خریدنے کا کام بھی کرتا ہے۔ رئوف کلاسرا اپنے ایک کالم میں بتا چکے ہیں کہ میاں نوازشریف اور زرداری بڑے پیمانے پر صحافیوں کے قلم کو خریدنے کا کام کرتے ہیں، بلکہ میاں صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو پورے میڈیا ہائوسز ہی کو خرید لیتے ہیں۔ شریف خاندان کے اس دھندے نے صحافت اور صحافیوں کے مزاج پر جو اثر ڈالا ہے اُس کا اندازہ اِس بات سے کیجیے کہ ایک بار ہفت روزہ تکبیر نے میاں نوازشریف کی تصویر کے ساتھ سرِورق پر یہ شعر شائع کیا ؎

ہیں سرنگوں ترے آگے ترے تمام حریف
خدا نواز رہا ہے تجھے نواز شریف

تکبیر کے پاس ایجنسیوں کی رپورٹس تو ہوتی ہی تھیں، اس شعر سے معلوم ہوا کہ میاں صاحب تکبیر کے لیے اتنے اہم تھے کہ تکبیر میاں صاحب کے سلسلے میں خدا کی مرضی بھی معلوم کرلیتا تھا۔ میاں نوازشریف اور ان کا خاندان پوری سیاسی بے حیائی کے ساتھ جنرل پرویزمشرف سے ڈیل کرکے سعودی عرب فرار ہوا تو عطا الحق قاسمی نے اپنے ایک کالم میں ایک خاتون کے حوالے سے لکھا کہ میاں نوازشریف کو مدینے والے نے اپنے پاس بلالیا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں مثالیں ’’صحافت باختگی‘‘ کی بڑی مثالیں ہیں،اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں نوازشریف جس چیز کو چھو لیتے ہیں اسے کرپٹ کردیتے ہیں۔
قاضی حسین احمد نہ صرف یہ کہ طویل عرصے تک شریف خاندان کے قریب رہے بلکہ جماعت اسلامی اور نواز لیگ نے آئی جے آئی کی سیاست میں بھی طویل عرصے تک ایک ساتھ جدوجہد کی۔ بلاشبہ بعدازاں جماعت اسلامی نے اپنے راستے جدا کرلیے، مگر اچھے لوگ ماضی کی رفاقت کو برسوں یاد رکھتے ہیں، مگر میاں نوازشریف نے واجپائی کو لاہور بلایا تو جماعت اسلامی نے ایک چھوٹا سا علامتی مظاہرہ کیا، جسے میاں صاحب کے سرپرست مجید نظامی نے بھی سراہا، مگر شریف خاندان جماعت اسلامی کے چھوٹے سے مظاہرے پر اتنا ناراض ہوا کہ وہ جماعت اسلامی کی قیادت پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے جماعت اسلامی کی قیادت کو والٹن روڈ کے دفتر میں بند کرکے اتنی آنسو گیس برسائی کہ قاضی حسین احمد اور سید منورحسن نے ہمیں بتایا کہ آنسو گیس کی برسات اگر بیس پچیس منٹ مزید جاری رہتی تو جماعت اسلامی کی پوری قیادت دم گھٹنے سے جاں بحق ہوجاتی۔ یہی نہیں، شریفوں کی ہدایت پر پنجاب پولیس نے جماعت اسلامی کے کارکنوں پر وہ تشدد کیا کہ اس تشدد کی ویڈیو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ واجپائی کو لاہور بلانا میاں نوازشریف کا حق تھا، اور اس پر پُرامن احتجاج کرنا جماعت اسلامی کا حق تھا، مگر میاں صاحب نے ایک چھوٹے سے مظاہرے پر اپنے فاشزم کا بلڈاگ چھوڑ دیا۔ شریف خاندان کا یہی فاشزم بالآخر تحریک منہاج القرآن کے بے گناہ اور نہتے کارکنوں کے خلاف زیادہ شدت سے بروئے کار آیا،اور کئی درجن لاشیں تخلیق کرنے میںکامیاب رہا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو خاندان جماعت اسلامی کی قیادت اور منہاج القرآن کے کارکنوں کے لیے جان لیوا ہے وہی خاندان الطاف حسین جیسے دہشت گرد اور ایم کیو ایم جیسی دہشت گرد تنظیم کے لیے ہمیشہ نرم خو بنارہا۔ میاں نوازشریف نے نہ صرف یہ کہ بار بار ایم کیو ایم کو اقتدار میں شریک کیا بلکہ وہ آج بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے ؎

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مگر شریف خاندان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شریف اور مہذب لوگوں کے لیے سخت اور الطاف حسین جیسے لوگوں کے لیے نرم ہے۔ بلاشبہ نواز لیگ گلو بٹ، ناصر بٹ اور رانا ثنا اللہ جیسے لوگوں کی جماعت ہے۔ یہ لوگ شریف خاندان کی اصل شخصیت کے ترجمان ہیں۔
میاں نوازشریف اب بھی خود کو مذہبی باور کراتے ہیں، مگر ان کی حکومت نے ختمِ نبوت کے تصور پر حملہ کیا۔ بھٹو خود کو سیکولر اور لبرل کہتے تھے، مگر انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہی سہی، ختمِ نبوت کا تحفظ کیا۔ اس کے برعکس میاں صاحب خود کو مذہبی کہتے ہیں مگر انہوں نے ختمِ نبوت پر بھرپور حملہ کیا۔ آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں اقوام متحدہ نے تجویز بھیجی کہ آپ زنابالرضا کو قانونی قرار دیں، مگر پی پی پی کی حکومت نے انکار کردیا۔ میاں صاحب کے گزشتہ دورِ حکومت میں یہ تجویز دوبارہ آئی اور اس تجویز کو ’’قابلِ غور‘‘ قرار دیا گیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ توہینِ رسالتؐ کی مرتکب آسیہ مسیح کو یورپی یونین اور امریکہ کے دبائو پر رہا کیا گیا۔ اس دبائو کی ایک صورت یہ تھی کہ یورپی یونین نے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ نے آسیہ کو رہا کردیا۔ ویسے میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، مگر آسیہ مسیح کی رہائی کے سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ، عمران خان، پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک صفحے پر تھے۔
عدالتوں کے سلسلے میں بھی شریف خاندان کا ریکارڈ بہت خراب ہے۔ اس نے سپریم کورٹ پر حملہ کرایا، اس نے جسٹس قیوم پر دبائو ڈالا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے بقول جب میاں نوازشریف کی حکومت کو برطرف کیا گیا اور اس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں آیا تو جسٹس نسیم حسن شاہ اور بینچ کے دوسرے کئی جج کمرے میں بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ ہم ایسا فیصلہ کریں گے جو ’’قوم‘‘ کو خوش کردے گا۔ یہ بات میاں صاحب کے مقدمے کی سماعت کے دوران کہی جاتی تھی، اسی لیے جسٹس نسیم حسن شاہ نے میاں صاحب کی حکومت کو بحال کیا تو بے نظیر نے اسے ’’چمک‘‘ کا نتیجہ قرار دیا۔ پاناما کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد میاں صاحب نے ایک بار پھر عدالتوں پر لفظی حملے کرائے، چنانچہ نواز لیگ کے کئی رہنمائوں پر توہینِ عدالت کے مقدمات چلے۔ اب احتساب عدالت کا جج ارشد ملک بھی کہہ رہا ہے کہ اسے حسین نواز نے 50 کروڑ روپے اور کئی دیگر مراعات کی پیشکش کی۔ یہ بات سچ ہے یا جھوٹ، اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے، مگر میاں صاحب اور اُن کے خاندان کی تاریخ دیکھی جائے تو ارشد ملک کے بیان پر اعتبار کرنا زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوتا۔ طوائفوں کا جسم خریدنے والے بدترین لوگ ہوتے ہیں، مگر صحافیوں اور عدالتوں کی رائے اور ضمیر خریدنے والے طوائفوں کا جسم خریدنے والوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں، اس لیے کہ وہ معاشرے میں حق و انصاف کی راہیں مسدود کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے دروغ گوئی بھی شریف خاندان کا پیشہ ہے۔ پاناما کا ہنگامہ برپا ہوا تو میاں نوازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا: جنابِ عالی یہ ہیں وہ ذرائع جن سے برطانیہ میں املاک خریدی گئیں ۔ مگر وہ ان کارخانوں کے سلسلے میں منی ٹریل فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے قطری کا خط اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا، بعد میں اس خط سے مکر گئے۔ پاناما کا ہنگامہ برپا ہی ہوا تھا کہ جیو پر ثنا بُچّہ پروگرام کررہی تھیں، اچانک مریم نواز ٹیلی فون کے ذریعے اُن کے پروگرام میں شامل ہوگئیں۔ انہوں نے پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہا کہ میری بیرونِ ملک کیا پاکستان کے اندر بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔ مگر بعدازاں ثابت ہوگیا کہ وہ جھوٹ بول رہی تھیں۔ میاں شہبازشریف کہا کرتے تھے کہ وہ آصف زرداری کا پیٹ چاک کرکے لوٹی ہوئی دولت برآمد کریں گے، مگر آج وہ آصف زرداری کے ’’اتحادی‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ تھوڑا بہت جھوٹ تو اکثر لوگ بولتے ہیں، مگر شریف خاندان لگتا ہے کہ ہمیشہ جھوٹ ہی بولتا ہے اور وہ بھی سفید جھوٹ۔
میاں نوازشریف کی بھارت پرستی معمولی چیز نہیں۔ لوگ میاں نوازشریف کی بھارت پرستی کو واجپائی کی لاہور یاترا، یا مودی کی یاری کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، مگر یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ میاں صاحب اندر کمار گجرال کے زمانے سے بھارت پر فدا ہیں۔ اندرکمار گجرال نے ایک بار ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ رات بارہ بجے اپنے بستر پر ہوتے ہیں کہ ان کے بیڈ روم میں میاں نوازشریف کا فون آجاتا ہے۔ گویا میاں صاحب اپنے فون سے اُن کی نیند خراب کردیتے ہیں۔ میاں صاحب مودی کی تقریبِ حلف برداری میں اس طرح گئے جیسے وہ مودی کے درباری ہوں۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل درانی نے اپنی تصنیف ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں یہ انکشاف کیا ہوا ہے کہ ایک زمانے میں میاں شہبازشریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر کے ساتھ دونوں پنجابوں کو ایک کرنے پر بات چیت کررہے تھے۔ ہوسکتا ہے یہ اطلاع درست نہ ہو، مگر شریف خاندان یا نواز لیگ نے اب تک اس اطلاع کی تردید نہیںکی، حالانکہ الزام اتنا سنگین ہے کہ شریف خاندان کے سوا کسی پر بھی لگتا تو اب تک وہ غداری کے الزام میں جیل میں بند ہوتا۔ مگر شریفوں کے لیے ایک دو نہیں سات خون معاف ہیں۔
شریف خاندان کا تازہ ترین کارنامہ پیر کے اخبارات کی زینت بنا ہے۔ برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل کی ایک خبر کے مطابق شہبازشریف اور اُن کے اہلِ خانہ نے زلزلہ زدگان کی برطانوی امداد چرا کر اپنے اکائونٹس میں ڈلوائی۔ خبر کے مطابق برطانیہ میں زیر حراست برطانوی شہری آفتاب محمود نے شہباز خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کی۔ شہبازشریف کے داماد نے امدادی فنڈ میں سے پونے 19 کروڑ وصول کیے۔ میاں شہبازشریف نے ڈیلی میل کی خبر کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ ڈیلی میل میں خبر فائل کرنے والے رپورٹر نے اس کے جواب میں کہا کہ آپ ضرور ایسا کریں، ہم آپ کا مقابلہ کریں گے۔ یاد رہے کہ ڈیلی میل نے گزشتہ سال نوازشریف کی 32 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ سے متعلق خبر شائع کی تھی۔ میاں نوازشریف نے اُس وقت اعلان کیا تھا کہ وہ ڈیلی میل کے خلاف مقدمہ کریں گے، مگر ایک سال ہوگیا اور ابھی تک مقدمے کا دور دور تک پتا نہیں ہے۔ اس پس منظر میں توقع ہے کہ شہبازشریف بھی ڈیلی میل کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔ حالانکہ برطانیہ میں جھوٹی خبروں کو چیلنج کرکے شریف خاندان کروڑوں روپے کما سکتا ہے، مگر جھوٹ سچ کے سامنے کہاں کھڑا ہوسکتا ہے!
ظاہر ہے کہ یہ شریف خاندان کی تاریخ کی ’’چند جھلکیاں‘‘ ہیں، مگر ان جھلکیوں سے ظاہر ہے کہ صرف میاں نوازشریف نہیں پورے شریف خاندان کا نہ کوئی مذہب ہے، نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی تاریخ ہے، نہ کوئی اخلاقیات ہے، نہ کوئی کردار ہے۔ اس خاندان کے پاس صرف ایک چیز ہے: انفرادی اور خاندانی مفاد۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ جو لوگ ان تمام حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود شریف خاندان کے ووٹر اور سپورٹر بنے ہوئے ہیں کیا اُن کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا؟ اور کیا اُن کا بھی شریف خاندان کی طرح کوئی مذہب ، کوئی اخلاق، کوئی تہذیب اور کوئی کردار نہیں ہے؟۔

حصہ
mm
شاہنواز فاروقی پاکستان کے ایک مقبول اورمعروف کالم نگار ہیں۔ آج کل جسارت کے کالم نگار اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے اسٹاف رائیٹر ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبان، ادب، شاعری، تنقیدکے ساتھ برصغیر کی تاریخ وتہذیب، عالمی، قومی اور علاقائی سیاست ، تعلیم، معیشت، صحافت، تاریخ اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ اسلام اورمغرب کی آ ویزش اور امت مسلمہ کے ماضی وحال اور مستقبل کے امکانات کا مطالعہ ان کا خصوصی موضوع ہے۔ اس کے علاوہ سوشلزم اور سیکولرازم پر بھی ان کی بے شمار تحریریں ہیں۔ فاروقی صاحب ’’علم ٹی وی‘‘ پر ایک ٹاک شو ’’مکالمہ‘‘ کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ شاہنوازفاروقی اظہار خیال اور ضمیر کی آزادی پر کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں۔

جواب چھوڑ دیں