فیس ایپ یا ٹرک کی بتی

بزرگوں نے صحیح کہا ہے کہ نقل کیلئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہماری نوجوان نسل کرکٹ ورلڈکپ کے بعد اب فیس ایپ کے کارنامو ں میں مشغول ہے یا میں اس کو یوں کہوں کہ چلتے ٹرک کی بتی کے پیچھے چل نکلی ہے تو بے جا نہ ہوگا ،وہ کیوں اس کے چند محرکات ہیں جن کا احاطہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے قبل فیس بک نامی سوشل میڈٖیا سائٹ پر کچھ عرصہ قبل 10سالہ چیلنج چل نکلا تھا جس کو بچوں ، بزرگوں ،نوجوانوں سمیت ہر طبقہ فکر نے آزمایا تھا مگر بعد میں پتہ لگا کہ یہ ایک ایسا کھیل جس سے آپ کی زندگی کی اہم معلومات حاصل کی جارہی ہیں ،اس سے قبل ایک اور شیطانی ایپ ٹک ٹاک نے جہاں پوری دنیا میں آتے ہی تہللہ مچادیا تھا ہر بوڑھا ،جوان اس میں گم تھا جیسے کو ئی زندگی گزارنے کا اہم سامان مل گیا ہو،،معاشرے میں ویڈیوز کے ذریعے ایساطوفانِ بدتمیزی جنم لے گیا کہ جس کسی محفل میں جاؤلوگ ویڈیوز بنابناکر ٹک ٹاک نامی شیطانی ایپ پر اپ لوڈ کررہے ہیں، آپ کا دکھ، سکھ ،زندگی کے اہم لمحات ، حادثات سب کچھ آپ کا ٹک ٹاک بن گیا اور پھر ہوا وہی ۔۔۔صرف معلومات اکھٹی کرنے کا ذریعہ کس طرح عالمگیر حکومت کو سنبھالا جائے گا اس کا طریقہ کار کیا ہوگا ،لوگوں کی خواہشات کیا ہیں ان کو کیسے پورا کیا جائے گا ،افراد رز کن کاموں میں مشغول ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جس کا جواب جاننا بے حد ضروری ہے ۔
ایک جانب یہ سارا ڈرامہ موجود ہے تو دوسری جانب فیس ایپ بنانی والی کمپنی کا کہنا ہے کہ کمپنی ان کی پرائیویسی کی حفاظت نہیں کر سکتی جبکہ کمپنی کی پالیسی کے مطابق اس کے سسٹم پر موجود تصاویر محفوظ ہوں ایسا کسی قسم کا کوئی ڈیٹا نہیں تو اب بھلا کوئی مجھے یہ بتا دے کے معاشرے میں پڑھے لکھے افراد یا تو ناپید ہوچکے ہیں یا وہ خود ایسی سرگرمیوں کا شکار ہوچکے ہیں تو جواب شاید آپ کے سامنے ہوگا ۔
‘فیس ایپ’ کیا ہے؟
فیس ایپ موبائل فون کی ایک ایسی ایپلیکیشن ہے جس میں متعدد فلٹرز ہیں اور ایپ کا ‘اولڈ’ فلٹر بے حد وائرل ہوا ہے جو کسی بھی شخص کو 60 سال تک کا دکھا سکتا ہے جبکہ ‘فیس ایپ’ کے اس اولڈ فلٹر کا استعمال دنیا بھر سے اب تک150ملین افراد کر چکے ہیں جبکہ اس ایپ میں ایک دلچسپ بات قابل ذکر ہے کہ تصاویر حقیقت سے بے حد قریب دکھائی دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں مانی جانے والی کیمبرج اینالیٹکیس کے مطابق گوگل پلے سے اب تک 100ملین افراد اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرچکے ہیں جبکہ 121ممالک میں اس ایپ کو استعمال کیا گیا ہے، اس ایپ کو بنانے والے کا تعلق روس سے ہے ۔میں یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ فیس ایپ کو صرف ایک طبقہ فکر نے نہیں بلکہ ہالی ووڈ دے لے کر بالی ووڈ ، کھلاڑیوں سے لے کر سیاستدانوں تک ، غریب سے لے کر امیر تک اور بچے سے لے کر بوڑھے تک جس کے پاس اسمارٹ فون ہے وہ اس شیطانی کھیل کے جھانسے میں پھنستا جارہا ہے ۔
فیس ایپ استعمال کرنے والوں کی زیادہ تر تعداد 20سال سے لے کر 40سال تک کے درمیان ہےجنھوں نے اس ایپ کو دل کھول کر استعمال کیامگر !یہ جانے بغیر استعمال کیا ہے کہ ان کا یہ ڈیٹا محفوظ نہیں ہے جبکہ ڈیجٹل معاشرے میں ایسی بے وقوفی کسی بھی المیے کو جنم دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ہمارے معاشرے میں ایک چیز بلکل ناپید ہوتی جارہی ہے اور وہ ہےـ ” تحقیق”،ہم کسی کے بھی جھانسے میں آکر ہر وہ کام کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں جس کی ہمیں قطعا کوئی معلومات نہیں ہوتی ۔
فیس ایپ نامی موبائل ایپلیکشن مضر صحت نہیں لیکن جس ایپ کا مقصد ہی نامعلوم ہو اسکا ٹیکنا لوجی کے دور میں اعتماد کرنا ایسا ہی ہے جیسے ‘اندھے سے دیکھنے کی امید لگانا’ میرا کام صرف اتنا ہے کہ لوگوں اس بات کا علم ہو کہ ان کی تصاویر کسی ایسے مقصد کیلئے استعمال نہ ہوں جس کا ان کو خمیازہ آنے والے دور میں بھگتنا پڑے ۔

حصہ
mm
موسیٰ غنی ایک مقامی روزنامہ کی ویب سائٹ پر سب ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ مختلف اخبارات میں بھی کالمز لکھتے ہیں۔مطالعے سے خاص دلچسپی اور بلاگ لکھنے کا شوق رکھتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں