یوم الحاق پاکستان

لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور پوری دنیا میں بسنے والے کشمیری 19جولائی کو ”یوم الحاق پاکستان“ مناتے ہیں۔19 جولائی1947 ء کو سری نگر میں کشمیریوں کی نمائندہ تنظیم مسلم کانفرنس کے تاریخی اجلاس میں پاکستان سے الحاق کی قرارد پیش کی گئی، جسے اجلاس کے تمام شرکاء نے متفقہ طور پر منظور کیا، اور اسی قرارداد کی بنیاد پر برطانوی حکمرانوں نے برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کے تحت یہ آزادی دی تھی کہ کشمیری جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں۔ لیکن اکتوبر1947 ء میں بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرلیا اور کشمیر میں مسلمانوں پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن کشمیری آج بھی الحاق کی خواہش سے دستبردار نہیں ہوئے، اور پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے19 جولائی کو یوم الحاق پاکستان مناتے ہیں۔ اس سلسلے میں آزاد کشمیر پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں تقاریب، سیمینارز اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں جن کا مقصد اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا ہے کہ کشمیر کے بارے میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کیا جائے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کر سکیں۔ آج مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی فوج کی سفاکیت انتہاء پر ہے، اور ارض کشمیر میں بسنے والے نہتے کشمیری بھارتی فوج کے خطرناک اسلحہ کا مقابلہ محض پتھروں سے کر رہے ہیں۔تمام آزادی پسند تحریکیں سیاسی اور عوامی میدان میں بھارتی ناجائز تسلط سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے برسرپیکار ہیں۔ مرد و زن عورتیں اور بچے آزادی کے نام پر مر رہے ہیں، کٹ رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں، جیلوں میں سڑ رہے ہیں تو صرف اس لئے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ان کی آواز پر توجہ دے۔ انہیں بھی دارفر اور مشرقی تیمور کی طرح علیحدگی کا رائے شماری کا حق دیا جائے جس کا اقوام متحدہ وعدہ کر چکی ہے۔ مگر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیر کے مسئلے سے مسلسل آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔
ان حالات میں وہاں پرپتھروں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرنے والے کشمیریوں میں غصہ اور اشتعال مزید بڑھ رہا ہے۔ بلاشبہ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جو کسی بھی انسان کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اور کوئی بھی قو م اپنی ثقافت روایات اور مذہبی آزادی کے تحت اپنی زندگی بطور آزاد شہری گزار سکتی ہے، اور آزاد قومیں ہی دنیا میں اپنی نسل در نسل شناخت کا باعث بنتی ہیں۔ اور جب کسی قوم کو زبر دستی زیر کرنے یا پھران کے حقو ق سلب کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ہتھیار تو کیا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہیں یہ کیفیت ہر انسان کی ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی نے کسی سے آزادی جیسی نعمت کو چھیننے کی کوشش کی تو اس کا کیا انجام ہوا؟۔ کشمیر کے معاملے پر حکومت پاکستان نے یہ معاملہ اقوام متحدہ میں کئی بار پہنچایا اور ہر بار اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اس کے حل کے لئے بھارت پر زور دیا گیا۔ لیکن کیا وجوہات ہیں کہ اقوام متحدہ بھی اپنی قرار دادوں پر عملدر آمد کروانے میں بے بس ہے؟۔ لاکھوں کشمیری عوام حق خود اردایت کے حصول کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ پاکستان بھارتی فوج کے کشمیریوں پر مظالم کے72 سال گزرنے کے بعد بھی اس مسئلے کے حل کے لئے مصروف عمل ہے، لیکن بھارت کبھی اس معاملے کے حل میں سنجیدہ نہیں رہا، اور اپنی ہٹ دھرمی اور طرح طرح کے الزامات اور دھمکیوں سے مسلسل مسئلہ کشمیر سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جبکہ آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی وحشیانہ کاروائیوں کی مدد سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،اور بھارتی میڈیا منفی پراپیگنڈہ پر عمل پیرا ہے۔
پاکستان کو شدید ضرورت ہے کہ وہ اپنے میڈیا کے ذریعے بھارتی ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی پامالی کی اصل صورتحال سے اقوام عالم کو آگاہ کرے، تاکہ بھارتی میڈیا کا مقابلہ کر کے کشمیری عوام کے موقف کی صحیح ترجمانی کی جاسکے۔ اس کے لئے صرف پی ٹی وی ہی نہیں بلکہ پرائیوٹ ٹی وی چینلز اور اخبارات کو اس معاملے میں سنجیدگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ مسئلہ کشمیر ہی پاکستان بھارت کشیدگی کی بنیادی جڑ ہے، اس کے باوجود جب بھی پاک بھارت مذاکرات کا آغاز ہوا بھارت نے پیشگی شرائط عائد کرکے دوطرفہ مذاکرات کی راہیں مسدود کردیں۔ اگر بھارت نے اپنی دیرینہ ڈھٹائی کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تو اسکے یہ عزائم علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے خطرات بڑھانے والے ہیں۔ اگر ان عزائم کو بھانپ کر بھی خطے کی سلامتی کو لاحق خطرہ کو محسوس کرنیوالے ممالک بھارت کیساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے اور جدید ایٹمی اسلحہ کی فراہمی میں اسکی سرپرستی کررہے ہیں تو اسکے جنگی جنون میں اضافہ کرکے وہ اسکے ہاتھوں امن و سلامتی کیلئے خطرات کو خود بڑھا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوجی مبصروں کو شکایات درج کرانے کے باوجود عالمی ادارہ بھارت سے نجانے کیوں سہما کھڑا ہے۔پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ممالک ہیں، کنٹرول لائن پر ایٹمی ممالک میں کشیدگی اگر بڑھ گئی تو تباہی کی ہولناکی دیکھنے والا شاید ہی ان دونوں ممالک میں کوئی بچے گا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے اور بر صغیر میں امن واستحکام کے قیام اور بقاء کے لئے کشمیر میں مسلمانوں پر سنگین ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کو روکتے ہوئے، مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنا انتہائی ضروری ہے، بھارت اب اندھی طاقت کے استعمال سے کشمیریوں کو محکوم بنا کر نہیں رکھ سکتا۔
٭…٭…٭

حصہ
mm
رانا اعجاز حسین ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں وہ مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں