شیطانی بوسہ‎

1998 میں جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں غیر وابستہ ممالک کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیوبا کے صدر فیڈرل کاسترو نے کہا تھا کہ ” آئی ایم ایف ایک شیطانی بوسہ ہے ، اسے لینے والا ہلاک ہو جاتا ہے۔ ” فیڈرل کاسترو کے اس بیان سے تقریبا تیسری دنیا کے تمام ممالک بشمول پاکستان سب اتفاق کریں گے کیونکہ عالمی ساہوکاری نظام کے دو بڑے ستون آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اپنے قیام کے دن سے آج تک ترقی پذیر ممالک کی معاشی بد حالی کا باعث بنتے رہے ہیں ۔ انسانیت کی فلاح کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ان اداروں نے تیسری دنیا کے غریب ممالک پر جس طرح عالمی استعماریت قائم کی اس نے ان کی غربت اور معاشی و معاشرتی مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا ۔
عالمی بینک اور آئی ایم ایف نے ساٹھ کی دہائی میں اقتصادی امداد اور قرضوں کے ضمن میں ترقی پذیر ممالک کے لئے مختلف قسم کے پیکجز تیار کئے ۔ متعدد ممالک نے ان اداروں سے قرضوں کے حصول کے لئے رجوع کیا مگر بعد میں سود کی تباہ کاریوں نے انہیں ترقی کی بجائے ہلاکت کے راستے پرڈال دیا ۔ عالمی اداروں نے قرض خواہ ممالک کی معاشی پالیسیوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ان پر ٹیکس بڑھانے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ۔ ان ممالک میں ایسے منصوبے شروع کئے گئےجن سے صرف عالمی مالیاتی اداروں کو نفع حاصل ہو سکے۔ قرضوں کی صورت میں بھاری منافع حاصل کرنے کی ضمانتیں حاصل کی جائیں ، اس کے علاوہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے قرض خور ممالک کی تجارتی منڈی کھولنے کا مطالبہ کیا جاتا ۔ اس صورت میں یہ کمپنیاں مطلوبہ ممالک میں زراعت اور صنعتوں کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتیں اور پیداوار کے وقت سب سے زیادہ منافع حاصل کرتیں جس کی وجہ سے ان ممالک میں اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا جاتا نتیجتا مہنگائی بےقابو ہو جاتی ۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی جارحانہ پالیسیوں کی بدولت ہی تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا جس نے بہت سے ممالک کا دیوالیہ نکال دیا۔ ان عالمی اداروں کی وجہ سے تیسری دنیا میں تمام ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہوئے اور بہت سے ملکوں نے قرضوں کی ادائیگی سے معذوری ظاہر کر دی۔ ان میں میکسیکو ، برازیل او ارجنٹائن وغیرہ شامل تھے ۔
اگر بڑی طاقتوں کے پس منظر میں جھانکا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی طاقتوں کو احساس ہوا کہ دنیا پر استعماریت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے مروجہ تقاضوں سے انحراف کرتے ہوئے دیگر اقوام کو معاشی ہتھیاروں سے ہی قابو میں رکھنا پڑے گا ۔ اس لئے مئی 1944 میں عالمی جنگ کے دوران ہی عالمی بینک کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے تقریبا پانچ سال بعد جولائی 1949 میں آئی ایم ایف کا قیام عمل میں آیا ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ان اداروں نے امریکہ و برطانیہ کی جغرافیائی ضروریات کو سامنے رکھ کر ایشیاء، شرق اوسط ،شرق بعید اور افریقی ممالک کے متعلق اقتصادی پالیسیاں وضع کیں جہاں یہ طاقتیں ان خطوں میں سیاسی طور پر مفادات حاصل کرنے میں ناکام رہیں وہاں یہ دونوں مالیاتی ادارے اقتصادی طور پر ان ممالک کو بلیک میل کر کےاور ان ممالک کی پالیسیوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر بڑی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے ۔ گذشتہ چند دہائیوں سے یہی کھیل جاری ہے ۔
ستم ظریفی یہ کہ بے پناہ سیاسی اور اقتصادی مفادات حاصل کرنے کے باوجود عالمی طاقتوں کی ہوس ختم نہیں ہوئی اور انھوں نے اس دنیا کو جنگ کی دلدل میں بھی پھنسا دیا ۔ جی ہاں! یہ حقیقت ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے راس المال کے طور پر جہاں ڈرگ کی کمائی بھی استعمال کرتے رہے وہیں مغرب کے بہت سےاسلحہ ساز اداروں کے مالکان بھی ان مالیاتی اداروں کے ڈائریکٹران رہے ہیں ۔ لازمی بات تھی کہ اسلحہ ساز اداروں کو چلانے کے لئے دنیا میں جنگ کے حالات پیدا کئے گئے اور کئے جاتے رہیں گے ۔ بے چارے غریب ممالک سلامتی کی خاطر عسکری معاہدے کرتے ہیں اس کے لئے انھیں مغرب سے بھاری تعداد میں اسلحہ خریدنا پڑتا ہے جس کی ادائیگی بھی حاصل شدہ قرض سے کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غریب ممالک اس کے لئے سالانہ 155 بلین ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔ ان میں شرق اوسط کے عرب ممالک سب سےآگے ہیں ۔ پچھلی دو دہائیوں کے درمیان ورلڈ بینک کا اصل زر 182 فی صد اضافے کے ساتھ تقریبا 1.6ملین ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ یہ دولت زیادہ تر افریقی ممالک سے حاصل کردہ سود کی بنیاد پر جمع کی گئی لیکن یہ عالمی ادارے اپنا نفع سمیٹنے اور سیاسی و اقتصادی کنٹرول کے علاوہ زیردست ملک کی معیشت میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے ۔
آج جب کہ پوری دنیا کساد بازاری کا شکار ہے اور امریکا جو واحد سپر پاور اور عالمی سرمایہ داری کا محافظ ہونے کا دعویدار ہے خود سب سے بڑا مقروض ہے لیکن اسے قرضوں کی عدم ادائیگی کےمسائل سے دوچار ہونا نہیں پڑتا ۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک دیگر طاقتوں کو چھوڑ کر پاکستان اور اس جیسے دیگر اسلامی ممالک کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ یہ مالیاتی ادارے ہر سال پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اسلامی ممالک کی رگوں سے خون نچوڑ کر ان ممالک کو اقتصادی مسائل سے دوچار کرتے ہیں اور دوسری جانب عوام کو حکومتوں کے خلاف ابھار کر ملکوں کو عدم استحکام کاشکار کرتے ہیں ۔ نئے قرضوں پر شرح سود میں اضافے کے ساتھ انتہائی ناقص اور اپنی مرضی کی پالیسیوں کو ملک میں نافذ کرنے کی شرائط پر قرضے دیتے ہیں ۔
اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی حالات سے گذر رہا ہے ۔ ملک کی اقتصادی آزادی و خود انحصاری کو عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں اور مقتدر طاقتوں کی مداخلت کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت بدعنوانوں اور نااہلوں کے حوالے ہو جانے سے شدید ٹھیس پہنچی ہے۔ صورت حال یہ ہےکہ بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ چینی پر ٹیکس اور چاول، دال ،آٹے کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے بتا دیا ہے کہ پاکستان کی بنیادی غذائی اشیاء کی پیداوار اور تجارت پر ایسے سفاک عناصر کا تسلط ہے جو عوام کو بھوکا مارنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ صنعتی، تجارتی، زرعی اور عام سماجی زندگی کے لئے بجلی ضرورت بن گئی ہے لیکن مصنوعی طور پر بجلی کا بحران پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں میں آئے دن اضافوں نے صنعت و حرفت کو کافی نقصان پہنچایا ہے ۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی ہونے کے باوجود پاکستان میں اس کے نرخ ناقابل برداشت بنا دیئے گئے ہیں ۔ صورت حال یہ ہے کہ مقامی صنعت و تجارت کو گذشتہ عشروں میں تباہ کر دیا گیا ہے اس لئے عام اشیائے ضروریہ درآمد کی جاتی ہیں ۔ گھریلو اشیائے ضرورت کا کاروبار ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کے مقامی نمائندوں کے پاس چلا گیا ہے ۔ روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گر رہی ہے جس نے قرضوں کا بار تو دگنا کیا ہی ہے دوسری جانب ہر درآمدی شے کی لاگت میں اضافہ کر دیا ہے ۔ پھر صنعت و تجارت پر دشمن انداز حکمرانی نے ذرائع روزگار محدود سے محدود تر کر دیئے ہیں ۔ جب کہ مہنگائی نے قوت خرید پر واضح اثر ڈالا ہے ۔
ظاہر ہے جب ملک کی اقتصادی پالیسی کی تشکیل عالمی ساہوکاروں کے حوالے کر دی جائے جن کا ہدف صرف یہ ہو کہ عوام کی رگوں سے کس طرح زیادہ خون نچوڑا جاسکتا ہے تو ایسے حالات میں بہتری کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے ۔ بہتری کی توقع صرف اس صورت میں کی جا سکتی ہے جب تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلاتخصیص قومی خزانہ لوٹنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے اور حاصل شدہ دولت سے قرضوں کو بے باق کر کے عالی ساہوکاروں سے جان چھڑائی جائے ورنہ تو نہ صرف ملک و قوم بلکہ ان حکمرانوں کے لئے بھی جو لوٹ مار سے دولت جمع کرنے والوں کو محض سیاسی قوت اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں کسی المئیے سے کم نہ ہو گا ۔

حصہ

16 تبصرے

  1. بجا فرمایا ، اللہ ارباب اقتدار کو عقل اور غیرت عطا فرمائے

  2. بہترین تحریر ہے ہمیں تو سمجھ بھی آگیا اور نظر بھی آرہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف ایک جال ہے جس میں مسلم ممالک کو پھنسا کر ان کا شکار کیا جاتا ہے کاش حکمرانوں کو بھی یہ سمجھ آجاے

  3. حکمران پھر بھی نہیں سمجھتے ۔۔افسوس !
    👍بہت خوب لکھا 👌

  4. عالمی ساہوکار پہلے اپنے نماٸندےاقتدار میں پہنچاتے ہیں پھر اپنے ایجنڈے ایک کے بعد ایک پورے کرتے ہیں ۔
    بہترین تحریر

  5. Hey there! I know this is kinda off topic but I was wondering if you knew where
    I could find a captcha plugin for my comment form?
    I’m using the same blog platform as yours and I’m having trouble finding one?

    Thanks a lot!

  6. Heya just wanted to give you a quick heads up
    and let you know a few of the images aren’t loading correctly.
    I’m not sure why but I think its a linking issue. I’ve tried it in two different internet browsers and both show the same results.

  7. Hi there, just became aware of your blog through Google, and found that it is really informative. I’m going to watch out for brussels. I’ll be grateful if you continue this in future. Many people will be benefited from your writing. Cheers!|

  8. When some one searches for his essential thing, so he/she wants to be available that in detail, therefore that thing is maintained over here.|

  9. Hello there! This article could not be written any better! Reading through this article reminds me of my previous roommate! He constantly kept preaching about this. I will forward this post to him. Pretty sure he’ll have a very good read. I appreciate you for sharing!|

  10. Wow! This blog looks just like my old one! It’s on a totally different subject but it has pretty much the same page layout and design. Outstanding choice of colors!|

  11. Hello there! Would you mind if I share your blog with my twitter group? There’s a lot of folks that I think would really enjoy your content. Please let me know. Many thanks|

  12. Howdy would you mind letting me know which web host you’re using? I’ve loaded your blog in 3 different internet browsers and I must say this blog loads a lot faster then most. Can you recommend a good hosting provider at a honest price? Cheers, I appreciate it!|

جواب چھوڑ دیں