ہدایت بہ حکایت

زمانہ بدلتے دیر کتنی لگتی ہے،یک جنبش ِمژگان اور ملکہ بلقیس کا پلنگ بادشاہ سلیمان کے پاس،یا ساریۃ الجبل کا کہنا اور جنگ کا پانسہ ہی بدل دینا،انگشت ِ مقدس کا اٹھنا اور معجزہ شق القمر کا ہونا،ایک ناقابل بیان خواب کا دیکھنا اور تعبیر میں نہرِ زبیدہ کا رواں ہو جانا،ایک مرد قلندر کی صدائے حق بصورت اذان بلند کرنا اور امیر تیمورکے دل کی دنیا کا بدل جانا،نوجوانان ِ جنت کے سردار کی نگاہِ رحمت و شفقت کا اٹھنا اور حضرتِ حر کا قافلہ حق میں شمولیت فرما کر شہدائے کرب و بلا میں بطور شہیدِاول اپنا اسم مبارک جنت کے اعلیٰ درجات میں لکھوانا مگر یہ سب مشیتِ ایزدی کے ہاں قبول ہوکر ممکن ہوتا ہے۔نگاہِ مرد قلندر کا کسی گنہگار کے لئے وا ہونا تبھی سرچشمہ ہدائت بنتا ہے جب برضائے الہیٰ کسی کو انسانیت کی معراج پہ فائز کرنا ہو،یہ معاملات عشق ہیں جو صرف محبوب و محب کے درمیان ایک رازِابد ہے۔یہ سب انسان کی قسمت میں داخل کر دیا جاتا ہے جب انسان طلب،تلاش،جستجو اور پالینے کی تڑپ کو اولین مقصدِ حیات بنا لے۔چونکہ زمانہ اور زندگی پیہم روانی کا نام ہے تو زمانہ کے بدلنے سے زندگی کے طور اطوار اور انداز بھی بدل جاتے ہیں یعنی روایات اور رواجات بھی بدلنا شروع ہو جاتے ہیں،اگر فی زمانہ دیکھا جائے تو انسان نے عمل کو علم پر فوقیت عطا کر کے علم کو ہی باعثِ نجات خیال کر لیا ہے، اللہ کی بجائے اہلِ ثروت کو تقدیروں کے بدلنے کا ضامن سمجھ لیا ہے۔زن وبادہ،عیش و عشرت اور اخلاقی بے راہ روی کو ہی نجات اور راہِ مستقیم کو راہِ ہدائت مان لیا ہے۔
ایسے میں عاشقانِ واقف ِ حال نے تعلیم و تربیت اور تبلیغ کا نیا طریقہ ایجاد کیا جسے ہدائت بہ حکائت کا نام دیا جا تا ہے۔جس کی ابتدا کا تو کسی کو پتہ نہیں کہ یہ قصہ اور کہانی کب شروع ہوئی تاہم رومی و سعدی کو ہماری کتب میں اس کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔حکایات کے انداز میں بات کرنے کا طریقہ بہت پرانا ہے،والدین اپنے بچوں کو قصے کہانیاں سنا کر ہی تربیت کرتے اور اسی طرح سے انہیں تعلیم بھی دیتے تھے،لوک گیت بھی حکایات کی ایک قسم ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی تاریخ اور ابتدا کا کسی کو پتہ نہیں،آج بھی ہمارے گاؤں میں اتنی حکایات بیان ہوتی ہیں کہ اگر ایک ہزار میل کی حکایات،داستان یا روایات کو جمع کیا جائے تو کئی جلدیں مرتب ہو جائیں۔بڑے بزرگ اگر آپ کو یاد ہو تو رات کو سب بچوں کو اپنے ارد گرد جمع کر لیتے اور پھر بادشاہوں،جنوں اور پریوں کی کہانیاں ایسے سناتے کہ سب بچے نقطہ انجماد کی طرح ایک ہی جگہ ساکت اور جم کر بیٹے رہتے اور عین کلائمکس پر بزرگ حضرات بچوں کو کہانی کے اندر ہی کوئی ایسی نصیحت کر جاتے جس کا نقش تاحیات بچے کے ذہن پرقائم و دائم رہتا۔بڑے بزرگوں کی باتیں،چوپال،ترنجن،تکیہ اور گھروں کے باہر تھڑے دراصل سماج کی اصلاح،بھائی چارہ اور اخوت کے امین ہوتے تھے جو کہ بد قسمتی سے آجکل ناپید ہو گئے ہیں۔اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بقراط جیسا عظیم فلسفی ایسے ہی تھڑے(چبوترے) سے علم،حکمت ودانائی کی باتیں سیکھ کر بڑا دانشور بنا اور اسلام کی پہلی یونیورسٹی صفہ کا آغاز بھی ایسے ہی ایک چبوترے سے ہوا تھا۔
تاریخ الحکما اُمیرس سے دو حکایات پیش خدمت ہے کہ کس طرح سے دانشمند حضرات ایک کہانی سے دوسروں کو درس دے دیا کرتے تھے۔آج سے ساڑھے چار ہزار سال پہلے دو شاعر یونان کے شاہی دربار میں رہتے تھے،ایک کا نام امیرس تھا جو کہ غالب کی طرح آفرین ونکتہ سنج اور دوسرا ذوق کی طرح لاف زن۔ایک دن بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں میں سے بڑا شاعر کون ہے تو وہ تک بند اور لاف زن شاعر فورا بولا کہ ظاہر ہے کہ میں کیونکہ ایک سال کے دوران میرے دو دیوان شائع ہو چکے ہیں اور اُمیرس نے صرف دو یا تین نظمیں ہی لکھی ہیں،میرا اور امیرس کا کیا مقابلہ جس پر امیرس نے ایک کہانی سنائی کہ سنا ہے کہ ایک مرتبہ انطاکیہ کے جنگلوں میں ایک سورنی ایک شیرنی کے پاس گئی اور کہنے لگی کہ اے ملکہ جنگل،نہ جانے کیا بات ہے کہ تم سال میں صرف ایک بچہ ہی جنتی ہو اور میں اتنے کہ گھر کا وسیع دالان بھر جاتا ہے۔جوابا شیرنی نے کہا میرے لئے یہ ناز کم ہے کیا کہ میرا ایک بچہ بھی شیر ہوتا ہے اور تمہارے سب بچے ہی سور کے بچے ہوتے ہیں۔ایسے ہی ایک مرتبہ امیرس سے کسی نے کہا کہ فلاں شخص ہر جگہ اور ہر محفل میں آپ کو برا کہتا ہے تو امیرس نے جواب دیا کہ”ایک مرتبہ ایک بندر اور ایک کتا کہیں سفر پر جارہے تھے راہ میں ایک ٹیلہ آیا اور بندر اس پر چڑھ گیا اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگا،کتے نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو تو بندر کہنے لگا کہ یہ ایک قبرستان ہے جس میں کئی شیر اورچیتے دفن ہیں یہ تمام کے تمام میرے خانسامے،بیرے اور خاکروب ہوا کرتے تھے ان پر فاتحہ کر رہا ہوں اس پر کتے نے جواب دیا کہ ”کاش یہ سب زندہ ہوتے اور تم یہ سب ان کی زندگی میں اس کے سامنے کہتے“
آج زمانہ بدل گیا روایات اور حکایات کہ جگہ ٹیکنالوجی نے لے لی ہے اور اس دورجدید میں جدید سائنسی ایجادات نے انسان کو سہولیات کی فراہمی میں تو کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن افسوس صد افسوس کہ ہماری نسل کو جو کہانیاں اور حکایات ایک جگہ جمع ہو کر سر جوڑ کر سنا کرتی تھی اب اپنے اپنے کمروں میں چوہوں کی طرح ایک بل میں گھسے اپنے اپنے موبائل میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ انہوں دوسروں کی کیا اپنی بھی خبر نہیں ہوتی،کاش قصے،کہانیوں اور حکایات کا زمانہ واپس آجائے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں