سوال کا سلیقہ سیکھیے

سوال کیسے، کب، کس سے اور کس طرح کیا جائے؟ یہ سب سیکھنا، سکھانا بے حد ضروری ہے، شاعر نے کہا ہے۔
منعکس ذہن غور ضرور کرتا ہے
خود سے سوال کرتا ہے
ہمارے سوال ہمارے سوچنے کے طریقے کو ظاہر کرتے ہیں۔چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔
آگ پھیلنے کے بعد اس علاقے کے مکینوں کا پریشانی، دکھ اور رنج سے بڑا حال تھا۔. پوچھا گیا؛ ”آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟” جواب کیا ہوگا؟، کیا یہ سوال اس موقع پر کیا جانا چاہئے؟
جوان بیٹے کی حادثاتی موت کی وجہ سے گھر والے گہرے صدمے میں تھے۔. سوال کیا گیا؛ ”آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟” کیسا محسوس کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے؟
پانی کی نکاسی کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ کئی دفعہ شکایات درج کروانے پر بھی کسی مثبت ردعمل کا شائبہ تک نہیں تھا، وہ لوگ مایوس ہوچکے تھے۔ان افراد سے کیا سوال کیا جاسکتا ہے؟
وہ تو خود سوالی ہیں۔
کسی کا گھر چھن جائے،کسی کے گھر والوں کو اس کے سامنے ختم کردیا جائے.کہیں کسی کو تشدد کا نشانہ بنا کر کے مردہ سمجھ کر پھینک دیا جائے. لمحہ بہ لمحہ بدلتی زندگی میں مختلف طرح کے حالات و واقعات سے لوگ گزر رہے ہیں اور ان تمام واقعات کے بعد سوال کیا جائے، تو وہ سوال کس نوعیت کا ہو؟ الفاظ کا استعمال کس طرح کیا جائے؟ اور کس سے کیا سوال کیا جانا چاہیے؟ یہ سب جاننا نہایت ضروری ہے،, بجائے اس کے کہ چھوٹتے ہی پوچھا جائے، آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟
درجہ بالا تمام واقعات، حادثات کے بعد انسان کیسا محسوس کرے گا؟ کیا سہما ہوا بچہ بتا سکتا ہے کہ وہ کیا محسوس کررہا ہے، والدین کے انتقال کے بعد؟
کیا والدین صدماتی کیفیت میں کوئی جواب دے سکتے ہیں؟
ڈاکٹر حضرات یہ سوال پوچھیں، تو مناسب و جائز ہے۔وہ فرد کی موجودہ حالت کو پچھلی حالت کے مقابلے میں رکھ کر پوچھ رہے ہوتے ہیں۔اس کی اندرونی کیفیت اور سوچ و احساسات سے آگاہی چاہ رہے ہوتے ہیں۔
لیکن ایک صحافی کا اس طرح کے سوالات کرنا بعید از قیاس ہے. مگر حقیقتاً ہر بات، سانحہ، صدمے، رنج و غم کے بعد یہی سوال پوچھا جا رہا ہوتا ہے کہ، ”آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟”
”ریٹنگ کے چکر” میں انسانی قدروں کو بالائے طاق رکھنا ”ویوز کی دھن” میں دکھوں کا احساس نہ کرنا، یہ کس طرح کی صحافت کی نشوونما کی جارہی ہے؟
صحافت کے اصولوں کو جس قدر پاکستانی نیوز چینلز اور خود صحافی برادری کے ناتجربہ کار اور بے حس افراد پامال کر رہے ہیں، کوئی اور نہیں کرسکتا۔
اس لیے ذمہ دار، مہذب معاشرے کے فرد کا ثبوت دیتے ہوئے اس طرح کے سوالات ترتیب دیں، جو غمزدہ لوگوں کے دکھوں پر مرہم ثابت ہوں، ملزموں کو سامنے لائیں اور سوال کی طاقت کو ظاہر کریں۔

حصہ
mm
مریم وزیرنے جامعہ کراچی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا ہے اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے،جب کہ جامعہ المحصنات سے خاصہ کیا ہے/ پڑھا ہے. گزشتہ کئی سال سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔تحریر کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔مختلف بلاگز میں بطور بلاگرز فرائض انجام دے رہی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں