اولاد کی تربیت اور مثالی معاشرے کا قیام

چھٹی کلاس کا بچہ پرنسپل صاحب کے سامنے سرجھکائے بیٹھا تھا۔ اس کے ہم جماعت چار پانچ بچے اس کی حرکت کے شاہد تھے اور اس کے پاس سوائے اس کے کوئی راہ فرار نہیں تھی کہ وہ سچ بتائے۔ بچے نے آنسو بھری آنکھوں سے پرنسپل کو دیکھا اور بولا: ”سر! اس میں میری غلطی نہیں ہے۔ میرے والد نہیں ہیں اور ہم چچا کے گھر رہتے ہیں۔ چچا کہتے ہیں زندگی انجوئے کرنے کا نام ہے، لہٰذا، اس سے جتنا لطف اٹھاسکتے ہو اٹھالو۔ چچا نے ماحول ہی ایسا دیا ہے۔ وہ خود بھی سیگرٹ پیتے ہیں، مجھے بھی دیتے ہیں۔ اس شوق کے پورا کرنے میں میرے چچا کا بڑا ہاتھ ہے اور انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی ہے۔ جس کی وجہ سے میں سیگرٹ کی لَت میں ایسا جکڑا کہ سکول لانے لگا اور آج پکڑا گیا۔“
یہ چند دن پہلے اس وقت کی بات ہے جب میں اپنے کسی کام سے اسکول کے دفتر میں موجود تھا۔ بچے کی باتیں سن کر ہم سوچ رہے تھے کہ یہ ہمارے معاشرے کا وہ آئینہ ہیں جسے ہم دیکھ کر گزر جاتے ہیں۔ ہم ایسے بہت سے خوفناک مسائل اور واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر ان سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے کی رگوں میں کئی زہریلی برائیاں سرایت کرچکی ہیں، لیکن ہم اس کے علاج کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ ہمارے ہاں وہ تمام نشانیاں پائی جاتی ہیں جن سے کسی بھی معاشرے کا وجود مٹتا ہے۔ اولاد نافرمان ہے، بوڑھے والدین بے آسرا ہیں، تعلیم کا گورکھ دھندہ چل رہا ہے، اشرافیہ کی من مانیاں عروج پر ہیں اور غریب کے استحصال جیسے ان گنت مسائل نے ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ اگر ہم نے معاشرے کی سمت صحیح نہ کی اور یہ غلط رستے پر چلتا رہا تو اس کا خمیازہ نسلوں کی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوگا۔
اولاد اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، جس کے حصول کے لیے انسان جانے کتنے جتن کرتا ہے۔ آسمان وزمین کے قلابے ملادیتے ہیں، دعائیں کروائی جاتی ہیں۔ وظائف، تعویذات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اللہ والوں سے مناجات کی التجا کی جاتی ہے۔ کوئی صاحب حیثیت ہو تو مقدس مقامات کی حاضری سے بھی نہیں ہچکچاتا، لیکن کبھی سوچیں کہ اگر اولاد کی نعمت تو ملی مگر اس کی صحیح تربیت نہ کرسکے تو پھر یہ نعمت کی ناقدری نہیں ہوگی؟ والدین غور وفکر نہیں کرتے کہ انہوں نے کِن کِن اسلامی اصولوں کے تحت بچوں کی تربیت میں چشم پوشی کی ہے،جس کی وجہ سے اولاد بے راہ روی اور کیچڑپن ماحول کی دلدادہ ہوتی جارہی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اپنی ہیئت تب بدلتا ہے جب اس کی نئی نسل اپنے آباء واجداد کی تعلیمات بھول جائے اور اپنے اقدار سے منہ موڑلے۔ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ماحول بن گیا ہے۔
والدین کی اولاد بارے بے توجہی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ بچے بہت بڑے نقال ہوتے ہیں۔ یہ جیسا دیکھتے ہیں ویسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بچپن سے ہی والدین، گھر کے ماحول، بڑوں کی عادات واطوار کو دیکھتے آرہے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ ویسا کرتے ہیں، جیسا ہم انہیں دیکھاتے یا عملی طور پر کرکے بتاتے ہیں۔ افسوس ان والدین پر جو اپنے بچوں کی ڈانس وغیرہ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ویرل کرکے خوشی کا اظہار کرتے ہیں، انہیں احساس بھی نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو کون سا زہردے رہے ہیں! اولاد کے اچھے مستقبل کے بارے ان کو کبھی اس بات کی فکر نہیں ہوئی کہ ہمارے بچوں کی گیدرنگ کیسی ہے؟ اسکول، کالج، یونیورسٹی میں ان کے دوست کون ہیں؟ ان کو وہاں ماحول کیسا ملتا ہے؟ ان جیسے بے شمار مسائل ہیں جن پر والدین کو چاہیے کہ غور وفکر کریں۔
اس کے علاوہ کچھ معاشرتی مسائل ایسے بھی ہیں جن پر مکمل گرفت کے باوجود،ہماری بے توجہی سے وہ معاشرے کی خرابی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ مثلاََ؛ ون ویلنگ کرنا، موٹر سائیکل یا کار سے ریس لگانا، ڈارامے یا فلمی کردار کی نقل اتارنا یا کسی ڈانسر کے انداز میں ڈانس کرنا، گلوکاروں کی آواز میں گانے گانا، مشہور فلمی ایکٹرز جیسے حلیے بنانا۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد کے ساتھ کم سن بچوں کی اچھی خاصی کھیپ اس گندگی کا شکار ہورہی ہے۔ یادرکھیے! بچے کا پہلا اسکول ومدرسہ والدین، پہلی کلاس گھر کا ماحول ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کو پہلا اسکول ومدرسہ بہترین دیا، اس کی پہلی کلاس سے اسلامی ماحول میں تربیت کی تو وہ بچہ غیراخلاقی سرگرمیوں کا شکار نہیں ہوگا۔ وہ بچہ دنیا میں والدین کے لیے سرمایہ فخر اور معاشرے کے لیے مثالی بنے گا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ظاہری خودنمائی کی جو چیزیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہم بچوں میں منتقل کررہے ہیں، دراصل وہ ایسا دیمک ہے جو ان کے روشن مستقبل کو چاٹ جائے گا۔
موجودہ دور کے لیے وقت کا بہت بڑا تقاضہ ہے کہ ہم اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے بچوں کی اسلامی ماحول میں پرورش کریں۔ گندی گفتگو، اول فول باتوں سے خود بھی بچیں اور بچوں کو بھی دور رکھیں۔ اولاد کی نافرمانی کی بڑی وجہ والدین کا انہیں یکسر نظرانداز کردینا ہے۔ غلطی کرنے پر غصے میں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور تشددپر اتر آتے ہیں جس کی وجہ سے اولاد سمجھتی ہے کہ ان کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا ہے۔ ہمیں ان کی عزت نفس کا خیال رکھنا ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اولاد کو اپنے قریب کریں، ان کے اور اپنے بیچ فاصلوں کی دیواروں کو توڑ دیں، انہیں اچھے برے کی تمیز سکھائیں،ا نہیں محبت سے سمجھائیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ یہ سب کچھ وہاں لٹانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جہاں اسے پیار محبت ملتا ہے کیوں کہ پیار میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ آپ بھی اپنے بچوں کو محبت دے کر دیکھیں یہ کبھی آپ سے جدا نہیں ہوں گے۔ ہمیں مثالی معاشرہ بنانے کے لیے بچوں کی تربیت پر بھرپور محنت کرنا ہوگی۔

حصہ
mm
محمد عنصر عثمانی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات و عربی کیا ہے،وہ مختلف ویب پورٹل کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں