پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کی “شرمناک سیاست” اور “المناک ورثہ”۔

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے، چنانچہ کم از کم پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو ’’نظریاتی‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، چنانچہ کم از کم پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو اخلاقی اصول کے تابع ہونا چاہیے تھا اور ان کی قیادت پر ’’صداقت‘‘ اور ’’امانت‘‘ کا سایہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہماری بڑی سیاسی جماعتوں پر ’’کاذب‘‘ اور ’’خائن‘‘ غالب ہیں۔ پاکستان ایک ’’مزاحمتی روح‘‘ کا حاصل ہے، چنانچہ کم از کم ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کا جذبہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہماری بڑی سیاسی جماعتیں امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کا حاصل تھا چنانچہ کم از کم ہماری بڑی جماعتوں کو ’’جمہوری‘‘ ہونا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے ہماری تمام بڑی جماعتوں پر موروثیت کا غلبہ ہے۔ پاکستان قائداعظم کے حوالے سے ’’اہلیت‘‘ کی علامت ہے، چنانچہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں ’’اہلیت‘‘ کی فراوانی ہونی چاہیے تھی، مگر ہماری بڑی سیاسی جماعتوں میں ہر سطح پر ’’نااہلیت کی گنگا‘‘ بہہ رہی ہے۔
20ویں صدی نظریات کی صدی تھی، نظاموں کی کشمکش کی صدی تھی، اس کا اثر پاکستان کی سیاست پر بھی پڑا۔ چنانچہ 1960ء اور 1970ء کی دہائیاں پاکستان کی سیاست میں بھی نظریات کی دہائیاں تھیں۔ 1960ء کی دہائی جنرل ایوب کی دہائی تھی، اور جنرل ایوب سیکولر تھے۔ چنانچہ معاشرے میں ایک حد تک سہی، اسلام اور سیکولرازم کی کشمکش برپا تھی۔ 1970ء کی دہائی بھٹو کی دہائی تھی اور بھٹو خود کو سوشلسٹ کہتے تھے، چنانچہ پاکستان کی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش موجود تھی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کی آمد نے پاکستانی سیاست سے نظریات کا صفایا کردیا۔ جنرل ضیاء الحق کی آمد کے بعد پاکستانی سیاست ایک سطح پر جنرل ضیاء اور بھٹو کی ’’شخصی کشمکش‘‘ بن گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے سندھ کے شہری علاقوں پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو مسلط کردیا، اس کی وجہ سے سندھ کی سیاست پہلے سے کہیں زیادہ ’’لسانی‘‘ ہوگئی۔ معاشرے میں تعصب کا زہر پھیل جائے تو پھر نظریے کی اپیل کم ہوجاتی ہے۔ جنرل ضیاء کی ’’غیر جماعتی سیاست‘‘ نے ملک کے سیاسی کلچر کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جماعتوں کے پاس پھر بھی کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے، مگر شخصیات کی گرفت میں آکر سیاست نظریے سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب کے بعد پیپلز پارٹی نے کبھی نظریات کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ پیپلز پارٹی کی قلبِ ماہیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ بھٹو صاحب ’’اینٹی امریکہ‘‘ تھے اور امریکہ ہی نے انہیں پھانسی تک پہنچایا۔ مگر جس امریکہ نے بھٹو صاحب کو پھانسی تک پہنچایا، بھٹو کی بیٹی اور بھٹو کی پارٹی اسی امریکہ کی ’’ڈارلنگ‘‘ بن گئی۔ پیپلزپارٹی آج بھی بھٹو کو پھانسی دینے کے حوالے سے جنرل ضیاء کو کوستی ہے، مگر جس امریکہ نے جنرل ضیاء کو پھانسی کے لیے استعمال کیا پیپلز پارٹی اُس امریکہ کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہتی۔ ہمیں یاد ہے جب امریکہ سے واپسی پر لاہور میں بے نظیر کا بے مثال استقبال ہوا تو پیپلزپارٹی کے کارکنان کے ایک گروہ نے امریکہ کے خلاف نعرے بلند کرنے شروع کردیے، مگر یہ سلسلہ ڈیڑھ دو منٹ ہی جاری رہ سکا۔ اس لیے کہ ٹرک پر چڑھی ہوئی پیپلزپارٹی کی قیادت نے کارکنوں کو امریکہ مخالف نعرے لگانے سے روک دیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی نے اپنے بانی کا کفن بیچ کھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جن پارٹیوں کے نظریات ہوتے ہیں اور نظریات سے ان کی وابستگی حقیقی ہوتی ہے، وہ انقلابِ زمانہ سے گرگٹ کی طرح رنگ نہیں بدلتیں۔
بدقسمتی سے جنرل ضیاء کے بعد پاکستان کی سیاست کا غیر نظریاتی تشخص نہ صرف یہ کہ باقی رہا بلکہ مستحکم سے مستحکم ہوتا چلا گیا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جنرل ضیاء اور بھٹو کے بعد پاکستانی سیاست ’’پرو پیپلزپارٹی‘‘ اور ’’اینٹی پیپلزپارٹی‘‘ ہوگئی۔ بدقسمتی سے نہ پیپلزپارٹی کی حمایت کی پشت پر کوئی نظریہ تھا، نہ اس کی مخالفت کی پشت پر کوئی نظریہ تھا۔ آج ملک میں پی ٹی آئی اور نواز لیگ اور پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی کشمکش برپا ہے۔ اس آویزش کی پشت پر بھی کوئی نظریہ نہیں ہے۔ ان جماعتوں کا ٹکرائو شخصیات اور مفادات کا ٹکرائو ہے۔ اس ٹکرائو سے شریفوں، زرداریوں اور عمران خان کو تو فائد ہورہا ہے، مگر اس ٹکرائو سے ملک و قوم کے سیاسی ارتقا میں کوئی مدد نہیں مل رہی، بلکہ یہ ٹکرائو ملک و قوم کے سیاسی ارتقا کے خلاف ایک سازش بن گیا ہے۔
جنرل ضیاء اور بھٹو میں درجنوں خرابیاں تھیں، مگر دونوں شخصی اعتبار سے کرپٹ نہیں تھے۔ مگر جنرل ضیاء الحق اور بھٹو کے وارثوں نے پاکستانی سیاست کو بدعنوانی کا سمندر بنادیا۔ شریف خاندان پاکستان کی سیاست میں بدعنوانی کے قطب مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح زرداری اینڈ کمپنی پاکستان کی سیاست میں بدعنوانی کے ایفل ٹاور کی حیثیت رکھتی ہے۔ عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے کے بالائی طبقات پہلے خراب ہوتے ہیں، پھر ان کو دیکھ کر عوام میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ’’شریفوں‘‘ اور ’’زرداریوں‘‘ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کروڑوں ووٹرز اور ہمدردوں کے لیے بدعنوانی کو ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے قابلِ قبول بناکر ان لوگوں کو ذہنی و نفسیاتی سطح پر کرپٹ بنادیا ہے۔ اصول ہے: ایک ایمان دار آدمی کسی کرپٹ رہنما اور کسی کرپٹ پارٹی کو نہ کبھی نوٹ دے سکتا ہے نہ ووٹ دے سکتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتے ہیں وہ بھی ذہنی و نفسیاتی طور پر کرپٹ ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف کے درجنوں حمایتی ہم سے کہہ چکے ہیں: سر جی، ٹھیک ہے نوازشریف کھاتا ہے تو دوسروں کو بھی کھلاتا ہے۔ زرداری میاں صاحب سے زیادہ کرپٹ ہے، وہ تو سب کچھ خود ہی کھا جاتا ہے۔
بلاشبہ عمران خان مالی اعتبار سے کرپٹ نہیں، لیکن ان پر اخلاقی کرپشن کے اتنے بڑے بڑے الزامات ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ رہی پی ٹی آئی، تو اس کے رہنمائوں میں مالی اعتبار سے کرپٹ عناصر موجود ہیں۔ اس صورتِ حال نے ملک میں ’’صداقت‘‘ اور ’’امانت‘‘ کے تصورات کو مذاق بنادیا ہے، اور بڑی جماعتیں چیختی رہتی ہیں کہ آئین میں ’’امین‘‘ اور ’’صادق‘‘ کے تصورات موجود ہی نہیں ہونے چاہئیں۔
بڑی سیاسی جماعتیں معاشرے کی مزاحمتی قوت ہوتی ہیں، مگر ہماری بڑی جماعتیں اس حوالے سے بلی کے گو کی طرح نہ لیپنے کے قابل ہیں نہ پوتنے کے قابل ہیں۔ امریکہ تو بڑی بات ہے، ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمت پر بھی آمادہ نہیں ہوتیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ میاں نوازشریف اور ان کی جماعت نے ایک عدد ’’خلائی مخلوق‘‘ ایجاد کی تھی، مگر اب اس خلائی مخلوق کا دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ مریم نواز کے ’’انقلابی ٹوئٹس‘‘ ملاحظہ کیے ہوئے مدت ہوگئی۔ میاں نوازشریف کہتے ہیں نواز لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ بالکل ٹھیک، مگر آخر یہ کیسی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے جو اپنے رہنما کے جیل جانے پر اپنی سیاسی طاقت کے مرکز لاہور میں پانچ لاکھ لوگ جمع نہیں کرپاتی! پیپلزپارٹی بڑے فخر سے خود کو سندھ کی سب سے بڑی جماعت کہتی ہے، مگر سندھ کی یہ سب سے بڑی جماعت آصف علی زرداری کی گرفتاری پر کراچی یا لاڑکانہ میں پچاس ہزار افراد کا احتجاجی جلوس نہیں نکال پاتی! اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ایسی بڑی بھینسوں کی طرح ہیں جو ’’انتخابی کامیابی کے گوبر‘‘ کا ’’ہمالیہ‘‘ تو تخلیق کرسکتی ہیں مگر مزاحمت کرنے والے پچاس ہزار کارکن پیدا نہیں کرسکتیں۔ ایسی جماعتیں معاشروں اور ریاستوں کے لیے بوجھ اور لعنت ہیں۔ مگر اصول ہے: جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسی نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت، ویسے ان کے کارکن اور متاثرین۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ نواز لیگ کے عابد شیر علی ہر طرف دھاڑتے پھرتے تھے، مگر اب لگتا ہے کہ عابد شیر علی، عابد گیدڑ علی بن چکے ہیں۔ دانیال عزیز گم نام عزیز بن چکے ہیں، پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان کا طنطنہ کیا ہوا؟ منیر نیازی کی نظم کے مصرعے ہیں:

محبت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ اُن کی یاد میں ہو گی

نواز لیگ کا حال یہ ہے:

بغاوت اب نہیں ہو گی
یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
گزر جائیں گے جب یہ دن
یہ اُن کی یاد میں ہو گی

۔’’شریفوں‘‘ اور ان کی جماعت، ’’زرداریوں‘‘ اور ان کی جماعت نے بڑی جرأت کی کہ انہوں نے عمران خان کو تواتر کے ساتھ “Selected” کہنا شروع کیا۔ ہم ’’شریفوں‘‘ اور ’’زرداریوں‘‘ کی جرأت کو سلام کرتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی “Selected” ہے تو اس کا کوئی “Selector” بھی ہوگا۔ مزید برآں “Selected” ہونا ’’جرم‘‘ ہے تو “Selector” ہونا اس بھی بڑا ’’جرم‘‘ ہے۔ چنانچہ ’’شریفوں‘‘ اور ’’زرداریوں‘‘ کو “Selected” سے زیادہ بڑا حملہ “Selector” پر کرنا چاہیے، مگر ’’شریفوں‘‘ اور ’’زرداریوں‘‘ کی ’’اخلاقی جرأت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ “Selected” پر تو بار بار حملہ کرتے ہیں مگر “Selector” پر حملے کے خیال سے بھی ان کا پیشاب خطا ہوجاتا ہے۔ ایسے بزدلوں، ایسے گیدڑوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو “Selected” کہیں۔ کمزور کی مزاحمت، مزاحمت نہیں ہوتی… طاقت ور کی مزاحمت، مزاحمت ہوتی ہے۔ کمزور پر تو سبھی حملے کرلیتے ہیں۔
نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی ’’جرأت‘‘ اور ’’مزاحمت‘‘ کا ایک پہلو یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ عمران خان کی پالیسیوں بالخصوص ان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات نے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے، ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا ہے، غریب کا جینا حرام ہوگیا ہے، معاشرے کا ہر طبقہ عمران خان کی حکومت سے ناراض ہے۔ بالکل ٹھیک، یہ ساری باتیں درست ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاملات طے کیے ہیں وہ معاملات ان کی ’’ایجاد‘‘ نہیں۔
ان معاملات کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کھڑی ہے۔ عمران خان کی معاشی ٹیم تو اسد عمر اینڈ کمپنی پر مشتمل تھی، اچانک اسٹیبلشمنٹ نے اُن کی جگہ حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر کو لا بٹھایا۔ ان لوگوں نے معیشت کے حوالے سے جو سخت ترین فیصلے کیے آرمی چیف نے کھل کر ان کا دفاع کیا ہے۔ آئی ایس ایس آر اے کے تحت سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا:
’’مشکل حکومتی فیصلے کامیاب بنانا سب کی ذمہ داری ہے۔ مشکل فیصلے نہ کرنے سے مسائل بڑھے۔ ملک مشکل معاشی حالات سے دوچار ہے، معاشی پالیسیوں اور مالیاتی نظم و ضبط میں عدم تسلسل کے باعث موجودہ معاشی صورتِ حال کا سامنا ہے، کوئی فردِ واحد قومی اتحاد کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ موجودہ حکومت نے طویل مدتی فوائد کے حصول کے لیے مشکل اور نتیجہ خیز فیصلے کیے‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی۔ صفحہ اول۔ 29 جون 2019ء)
اتفاق سے جنرل باجوہ نے یہ باتیں صرف سیمینار میں نہیں کہیں، انہوں نے 3 جولائی کو کورکمانڈرز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے سخت اقتصادی فیصلوں کا دفاع کیا اور انہیں ’’ناگریز‘‘ قرار دیا۔
(روزنامہ ڈان کراچی۔ 4 جولائی 2019ء)
جنرل باجوہ کی ان باتوں کے دو ہی معنی ہیں، ایک یہ کہ وہ حکومت کے فیصلوں کو درست سمجھتے ہوئے ان کا دفاع کررہے ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ عمران خان نے معیشت کے حوالے سے وہی کچھ کیا ہے جو اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بتایا، اور جسے اسٹیبلشمنٹ نے ملک کے لیے ضروری سمجھا۔ عمران خان اور ان کی حکومت کی مجموعی اہلیت کو دیکھا جائے تو دوسری بات زیادہ قرین قیاس نظر آتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’شریفوں‘‘ اور ’’زرداریوں‘‘ پر ’’واجب‘‘ ہے کہ وہ معیشت کی تباہی، مہنگائی کی لہر اور عوام کی حالتِ زار کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ پر بھی تنقید کریں، لیکن ہمیں یقین ہے کہ جس طرح یہ ’’بہادر لوگ‘‘ “Selected” پر حملے کرتے ہیں اور “Selector” کو چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح وہ معاشی تباہی کے حوالے سے عمران خان پر حملے جاری رکھیں گے اور اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ کا نام بھی نہیں لیں گے۔
’’شریف لوگ‘‘ اور ’’زرداریانِ سندھ‘‘ عمران خان کی معاشی پالیسیوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا نام بھی لے رہے ہیں، مگر آئی ایم ایف خود کچھ بھی نہیں، اُس کی پشت پر امریکہ کھڑا ہے۔ چنانچہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو صاف کہنا چاہیے کہ امریکہ آئی ایم ایف کے ذریعے ہماری معیشت کو تباہ و برباد کررہا ہے۔ مگر ہمیں یقین ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے لبوں پر اس حوالے سے کبھی امریکہ کا نام نہیں آئے گا۔ جہاں تک آئی ایم ایف کے نام کا تعلق ہے تو اصولاً نواز لیگ اور پی پی پی کو آئی ایم ایف کا نام بھی نہیں لینا چاہیے، اس لیے کہ ان جماعتوں کی حکومتیں ایک سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرچکی ہیں۔
پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کا حاصل تھا، مگر بدقسمتی سے نہ نواز لیگ جمہوری ہے، نہ پیپلزپارٹی اور نہ تحریک انصاف۔ نواز لیگ شریفوں کی باندی ہے۔ اس باندی پن کو خود شہبازشریف نے جیو پر حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہہ کر عیاں کیا کہ نوازشریف رہبر ہیں، میں صدر ہوں اور مریم نائب صدر۔ چونکہ حامد میر کے انٹرویو کا مقصد شریفوں کو ’’مسٹر مجبور‘‘، ’’مسٹر عوامی‘‘، مسٹر بیچارے‘‘ اور ’’مسٹر انقلابی‘‘ بنانا تھا، اس لیے انہوں نے یہ پوچھا ہی نہیں کہ جس پارٹی کے سارے اہم عہدے ایک ہی خاندان کے پاس ہوں وہ پارٹی کیسے جمہوری کہلا سکتی ہے؟ پیپلزپارٹی بھٹو خاندان کا جوتا ہے۔ بھٹو نہیں رہے تو اُن کی بیٹی آگئی، بیٹی نہ رہی تو بیٹی کے شوہر پارٹی کے گاڈ فادر بن گئے، اور اب بلاول کو آصف زرداری کا ’’خلا‘‘ پُر کرنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ عمران خان کی جمہوریت پسندی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے خود جسٹس وجیہ کو انتخابات کا نگراں بنایا۔ انہوں نے پارٹی انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا، تو عمران نے جسٹس وجیہ ہی کو ہٹا دیا، یعنی انہوں نے دھاندلی کی نشاندہی کرنے والے کو ’’ولن‘‘ اور خود ’’دھاندلی‘‘ کو ہیرو کا درجہ دیا اور اسے سینے سے لگالیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی سیاسی جماعتیں ملک و قوم کے سیاسی اور جمہوری کلچر کو کیا دے سکتی ہیں؟
میاں نوازشریف اور ان کی جماعت عمران خان پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگارہے ہیں، مگر بدقسمتی سے میاں نوازشریف اینڈ کمپنی نے ماضی میں ہارس ٹریڈنگ بھی دل لگا کر کی ہے۔ ’’چھانگا مانگا‘‘ کا قصہ ہماری سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس قصے میں میاں صاحب نے نہ صرف یہ کہ ہارس ٹریڈنگ کے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے بلکہ انہوں نے جن منتخب نمائندوں کا ضمیر خریدا تھا اُن کے لیے ہوٹل میں شراب اور طوائفوں کا بندوبست بھی کیا تھا۔ دائیں بازو کے کئی ممتاز بے ضمیر صحافی میاں صاحب کی ہر چیز کو ’’اسلامی‘‘ باور کراتے رہے ہیں، اس لیے گمان ہے کہ میاں صاحب کی شراب بھی ’’اسلامی‘‘ ہوگی اور ’’طوائفیں‘‘ بھی اسلامی ہوں گی۔
اہلیت کے تصور میں روحانی اہلیت بھی شامل ہے، اخلاقی اور علمی اہلیت بھی، اور تکنیکی اہلیت بھی۔ بدقسمتی سے ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر ان میں سے کوئی اہلیت بھی موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان جماعتوں نے قوم کو بھی روحانی، اخلاقی، علمی اور تکنیکی حوالے سے “Stunted” بنادیا ہے۔ بدقسمتی سے ہونا بھی یہی تھا۔ آخر شریفوں، زرداریوں اور عمرانوں سے قوم کون سے روحانی، اخلاقی اور علمی اصول سیکھ سکتی ہے؟ ان لوگوں نے قوم کی معیشت کو تباہ کردیا، ان لوگوں نے ملک کے تعلیمی اور عدالتی نظام کی چولیں ہلا دیں۔ بلاشبہ ایسی جماعتیں قوم کے لیے انعام نہیں، سزا ہیں۔
یہ سطور لکھی جاچکی تھیں کہ مریم نواز نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کا دھماکہ کردیا۔ اس ویڈیو کا لبِ لباب یہ ہے کہ ارشد ملک نے میاں نوازشریف کو میرٹ کے بجائے دبائو پر سزا سنائی ہے۔ یہ ویڈیو میاں نوازشریف کے فرنٹ مین ناصر بٹ اور جج ارشد ملک کی مبینہ گفتگو پر مشتمل ہے۔ ارشد ملک نے ایک بیان میں ویڈیو کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں موجود ان کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ارشد ملک کے بقول انہوں نے فیصلہ آزادانہ طور پر دیا ہے اور شریف خاندان نے ویڈیو کے ذریعے ان کی ذات اور ملک کے عدالتی نظام کو بے توقیر کرنے کی سازش کی ہے۔ حقیقت کیا ہے یہ بات تو ویڈیو کے فرانزک تجزیے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گی، لیکن ویڈیو کے حوالے سے دو تین باتیں بالکل عیاں ہیں، ایک یہ کہ نواز لیگ ویڈیو مایوسی اور بے تابی کی حالت میں منظرعام پر لائی ہے، اس کا خیال ہے کہ شاید اس ویڈیو کے ذریعے ہی نوازشریف کی رہائی ممکن ہوسکے۔ شریف خاندان کا بہت پرانا اور “Establish” مسئلہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں بھی اعلیٰ ترین عدالتوں کو بے توقیر کرتا رہا ہے۔ اس نے جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں سپریم کورٹ پر حملہ کرایا، جسٹس قیوم کی آڈیو بدنام زمانہ ہے، اس آڈیو میں شہبازشریف جسٹس قیوم پر من مانے فیصلے کے لیے دبائو ڈالتے ہوئے پائے گئے۔ اب ارشد ملک نے بھی کہا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران نواز لیگ نے انہیں کئی بار خریدنے کی کوشش کی اور انہیں دھمکیاں دیں۔ نواز لیگ کا ماضی عدالتوں کے حوالے سے اتنا داغ دار اور بھیانک نہ ہوتا تو مریم نواز کا ویڈیو دھماکہ غیر معمولی اثرات مرتب کرسکتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے شریف خاندان ملک کے بڑے سیاسی شیاطین میں سے ایک ہے، چنانچہ تحقیق سے پہلے نواز لیگ کے ویڈیو دھماکے پر اعتبار ناممکن ہے۔ بدقسمتی سے شہبازشریف نے ویڈیو دھماکے کے بعد ’’اعلیٰ عدالتوں‘‘ اور ’’مقتدر حلقوں‘‘ پر زور دیا کہ وہ ویڈیو کا نوٹس لیں۔ جو لوگ شریفوں کی تاریخ سے آگاہ ہیں انہیں معلوم ہے کہ شہبازشریف نے یہ بیان دے کر ملک کی اعلیٰ عدالتوں، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو تقسیم کرنے کی سازش کی ہے۔ شریف خاندان جسٹس سجاد کے زمانے میں سپریم کورٹ کو سندھی پنجابی کی بنیاد پر تقسیم کرچکا ہے۔ میاں نوازشریف ملک کے واحد سیاست دان ہیں جو ایک بار فوج کے ڈسپلن کو توڑ کر ’’ضیا الدین بٹ‘‘ پیدا کرچکے ہیں، اور ان میں اب بھی جنرل ضیا الدین بٹ پیدا کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ آصف زرداری لاکھ نعرے بازی کریں مگر وہ فوج کے ڈسپلن کو توڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ بہرحال یہ بات طے ہوگئی ہے کہ ملک کی بڑی جماعتیں بالخصوص نواز لیگ اور پیپلزپارٹی قوم کے سیاسی ارتقا کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ’’کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کے اصول کے تحت یہ جماعتیں نہ کبھی خود بالغ ہوں گی، نہ قوم کو بالغ ہونے دیں گی۔

حصہ
mm
شاہنواز فاروقی پاکستان کے ایک مقبول اورمعروف کالم نگار ہیں۔ آج کل جسارت کے کالم نگار اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کے اسٹاف رائیٹر ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبان، ادب، شاعری، تنقیدکے ساتھ برصغیر کی تاریخ وتہذیب، عالمی، قومی اور علاقائی سیاست ، تعلیم، معیشت، صحافت، تاریخ اور سماجی مسائل شامل ہیں۔ اسلام اورمغرب کی آ ویزش اور امت مسلمہ کے ماضی وحال اور مستقبل کے امکانات کا مطالعہ ان کا خصوصی موضوع ہے۔ اس کے علاوہ سوشلزم اور سیکولرازم پر بھی ان کی بے شمار تحریریں ہیں۔ فاروقی صاحب ’’علم ٹی وی‘‘ پر ایک ٹاک شو ’’مکالمہ‘‘ کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ شاہنوازفاروقی اظہار خیال اور ضمیر کی آزادی پر کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں۔

جواب چھوڑ دیں