جیسا ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ بزرگ لوگ تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ اولادیں اپنی روزگار میں مصروف ہیں، جو ابھی روزگارسے منسلک نہیں ہوئے وہ اپنی پڑھائی میں مصروف ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے پڑھائی کے نام پر وہ موبائل اور دوسری خرافات میں الجھے ہوئے ہیں۔ آج کے جوبزرگ جب بچے تھے تو خرابیاں تو اس وقت بھی تھیں لیکن موبائل جیسی چیز نہیں تھی۔ تو اس وقت ہمارے پاس بزرگوں کے دکھ سکھ دیکھنے اوراور ان کا دل لگانے کے لئے وقت ہوتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی ترقی ہماری نئی نسل کررہی ہے کہ اب اس سے بزرگوں کی دل آزاری اور دکھ بڑھتے جا رہے ہیں۔
مشاہدہ میں آیا ہے کہ اب بچے اپنے بڑوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اگر ایک گھر میں چار افراد ہیں تو سب کے سب اپنے موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ اپنے بزرگوں کی باتیں نہ ایک مرتبہ میں سن پاتے ہیں اور نہ انکی مدد کرسکتے ہیں ۔ اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کسی بھی بزرگ کو نہ تو پیسہ چاہئے ہوتا ہے اور نہ کوئی آسائش۔ صرف اور صرف اسے اپنے بچوں کی محبت چاہئے ہوتی ہے اور سامنے رہنا پسند ہوتا ہے۔ انہیں اپنا خیال رکھنے والے یا ان سے باتیں کرنے والوں کی ضروت ہوتی ہے۔
جیسا کہ لوگوں نے آج کل صبح تاخیر سے اٹھنے کا رواج بنا لیا ہے۔ تقریبا ً آدھا دن گزار کر ان کی صبح ہوتی ہے۔ان چیزوں سے انہیں یہ نہیں پتہ کہ بزرگوں کی کتنی دل آزاری ہوتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو بزرگ صبح اٹھتے ہیں اور ان کے گھر والے سوتے رہتے ہیں وہ لوگ جو اکثر کسی بیماری کا شکار بھی ہوتے ہیں وہ علی الصبح کسی چائے کے ہوٹل یا حلوہ پوری کی دکان پر ، خاص طور پر چھٹی والے دن ناشتہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اگر شوگر کی بیماری لاحق ہے تو اس بیماری میں دوپہرتک خالی پیٹ رہ نہیں سکتے اور پھر دوائیں بھی وقت پر لینا ہوتی ہیں۔لیکن اس بات کا کون خیال رکھے گا۔ ظاہر ہے اپنے بچے ۔ لیکن وہ خواب و خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔یہ ہمارا المیہ ہے۔
کچھ دن پہلے میرے مشاہدے میں آیا کہ بزرگوں کے ساتھی پالتو جانور بہت بہتر رہتے ہیں ۔ پہلے مجھے گھر میں کسی بھی قسم کا پالتو جانور رکھنا پسند نہیں تھا۔ لیکن ایک موقعہ ایسا آیا کہ ہمارے گھر میں ایک پرندوں کا جوڑا آگیا۔ کچھ دن تو زندگی ایسے ہی گزری ، لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہ پرندے بہت اچھے ساتھی ہوتے ہیں۔ان کے سامنے بیٹھ کر اچھا وقت گزر جاتا ہے، وہ پرندے ہمارے آنے جانے کے وقت اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہماری ہر بات سن بھی رہے ہیں اور جواب بھی دے رہے ہیں۔ جبکہ بچوں کو اس کی عادت نہیں رہی۔
ہماری نسل اور باقی لوگ اسے کس انداز سے پڑھتے ہیں یہ تو معلوم نہیں ، لیکن مجھے یہ تحریرکرتے ہوئے ایک کرب محسوس ہورہا ہے۔