دکانوں کے آگے شیر خوار اطفال

کل رات میں اپنے شوہر کے ساتھ عباسی شہید کیمسٹ پر جارہی تھی تو وہی متعدد بار دیکھے ہوئے مناظر دوبارہ نظر آئے۔ راستے میں آنے والی تقریباً تمام ہی دکانوں اور خا ص کر دوا ئیوں کی دکانوں کے آگے بہت ہی چھوٹے شیر خوار بچے بستروں پر چادروں میں لپٹے ہوئے اور کچھ بڑے 2سے5سال تک کے بچے جا بجا سوتے ہوئے پائے گئے اور ان کے اردگرد آٹھ سے اٹھائیس سال تک کی عورتیں ادھر ادھر مانگتی تانگتی نظر آئیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ دکان والوں سے معزوروں کا سامان بیڈ پین، کموڈ نما کرسیاں، چلنے کی ٹرا ئی پاٹ، فٹ اسٹک اور دیگر سامان الگ باہر تک پھیلا ہوتا ہے۔ اسکے بعد موٹر سائیکلز کی قطاریں اور پھر ہزاروں چلنے پھرنے والے۔ جن کو آنکھ کا مسئلہ ہو، ٹانگوں کا مسئلہ ہو وہ محض دوا لینے کی خاطر کیمسٹ کے پاس جانا چاہتے ہوں تو ایک عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پھر سر راہ چلتے پھرتے مختلف کیفیتوں کے فقیر! کس کس سے نظر ہٹا ئیں۔ حکومتی ادارے اور سڑکوں فٹ پاتھوں پر کیا کوئی دیکھنے والا روکنے ٹوکنے والا نہیں؟ کیا یہ بھی کوئی بھتہ مافیا ہے جو تیزی سے سر اٹھا رہا ہے؟ میں نے ایک کیمسٹ سے پوچھا کہ بھائی صاحب یہ کیا لگا یا ہوا ہے۔ پریشان بندہ دوا خریدے یا ان کو دیکھے اور آپ لوگوں کی دکانوں کے آگے کچرا الگ پڑا رہتا ہے۔ جانوروں کے بچے کتا بلی کے بچے بھی اتنے نظر نہیں آتے اللہ معاف فرمائے وہ بھی انہیں گا ڑیوں کے دیواروں کے پیچھے چھپائے پھرتے ہیں اور ہم اشرف المخلوقات ان ننھے فرشتوں کو یوں سڑ کوں پر رلتے ہیں۔ سر راہ کوئی ان کو عزت اور تحفظ دینے والا نہیں؟ یہ کیسے عام ہو تے جارہے ہیں ان کی خبر گیری کس کا کام ہے؟ میں اس اخبار کے توسط سے ذمہ داران کے احساس کو جھنجوڑتی ہوں کہ خدارا اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیجئے۔ یہ بچے ہمارے آپ کے بچے ہیں۔آپ کی پہچان ہیں اس ملک کا مستقبل ہیں۔ زمانہ جہالت میں لوگ لڑکیوں کو زندہ دفنا دیتے تھے۔ یہ تو سرعام کاروبار کرکے ان سے بھی برا سلوک کر رہے ہیں پھر مزید درندگی الگ کہانی ہے۔ برائی کی تشہیر منع ہے تو پھر کس طرح یہ ہر جگہ ہر محلے بازار میں یہ گھناؤنا انداز لاوارثی چل رہا ہے۔ پولیس، ویلفیئر ادارے کو ئی کسی کا پرسان حال نہیں۔ یہ تو بہت دکھ اور تکلیف کی بات ہے۔ بچے سب پھول ہو تے ہیں۔ ان پھولوں کو کیوں روندا جارہا ہے ان کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ ان کا تدارک کیا جائے انتظامیہ اپنا اہم کام اور مرتبہ سمجھتے ہوئے ذمہ داری کو نبھائے۔ پہلے تو کچرا نہیں ٹھکانے لگتا نہ کہ اب بچے اللہ کی پناہ!! اللہ پاک ہمیں انسانیت کا حق ادا کرنے اور اپنا منصب پہچاننے کا اہل بنائے۔ ہر فرد اپنا جائزہ لے احساس جگائے یہ بچے معصوم ہیں بے بس بے یار و مددگار آپ کے سامنے آپکے ہاتھوں کیسے برباد ہو رہے ہیں سوچیں؟ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ اس اسلامی ملک پاکستان میں یہ تو بڑی ہی بے قاعدگی اور بے ایمانی کی بات ہے۔ اس مسئلے کا فوری حل نکالا جائے۔ اگر مجرم ہیں تو باقاعدہ انہیں پکڑ کر طریقے سے اچھی طرح تربیت سزا کے ساتھ کی جائے اور واقعتاً ضرورت مند ہیں تو ارد گرد ہزاروں لاکھوں کی دکانوں والوں کو سوچنا چاہئے کہ آپ کے یہ پڑوسی کیسے؟ انوکھے اچھوت بن مول اور آپ ان سے لاتعلق! کیونکہ ان دکان دار صاحب نے مجھے کندھے اچھلاکر یہی جواب دیا تھا۔ ہمیں کیا؟ توکل کیا اللہ کو بھی یہی جواب دو گے؟ بہر حال اس صورت حال پر جلد ازجلد قابو پا کر معاشرے کو برائی سے بچایا جائے۔

حصہ

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں