بجٹ میزائل کا 5500 ارب کا ہدف

جو بات پرویز مشرف کے دور میں جنرل پر ویز مشرف سے پوچھنی چاہیے تھی، وہ بات نہ پوچھنے کی وجہ شاید “جان کی امان پاؤں تو عرض کروں” رہی ہو لیکن اگر کوئی بھی بات وضاحت طلب ہو تو اس کے پوچھے بغیر زبان میں ہونے والی کھجلی کبھی دور نہیں ہو سکتی اور یہی وہ کھجلی ہی ہوتی ہے جو کسی نہ کسی کے سامنے زبان چلانے پر اکساتی رہتی ہے۔ کسی بھی آزاد ملک کی حدود میں دنیا کا کوئی ملک بھی مداخلت کا حق نہیں رکھتا چہ جائے کہ وہ اس کی زمینی، بحری یا فضائی حدود کی خلاف ورزی کرے البتہ بد معاشی کی اور بات ہے۔ امریکا سے بڑا بدمعاش فی الحال اس موجودہ دنیا میں کوئی اورہے ہی نہیں لیکن اس کی بدمعاشی پر مکمل خاموشی کے دو ہی اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اتنے کمزور ہیں کہ جواب دینے کی طاقت ہی نہیں رکھتے اور دوئم یہ کہ ایسا سب کچھ ہونے میں ہماری اپنی اجازت بھی شامل رہی ہو۔ بعد الذکر بات یوں درست ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں حکومتی حلقوں کی جانب سے متعدد بار یہ بات کہی جاتی رہی کہ کچھ ایسے علاقے جہاں پاکستان کی افواج کی رسائی بہت دشوار تھی اور وہاں وہ افراد جن کو امریکا اپنا دشمن سمجھتا تھا، ان علاقوں میں نہ صرف یہ کہ ڈرون حملوں کی اجازت دیدی گئی تھی بلکہ ایسا مشترکہ طور پر کیا جاتا رہا تھا اور حملے سے پہلے ایک دوسرے کے ساتھ باقائدہ خفیہ اطلاعات کا تبادلہ بھی کیا جاتا تھا۔ ان ساری وضاحتوں کے باوجود بھی اخباری نمائندوں کی زبان میں مسلسل اٹھنے والی کھجلی ان کو اس بات پر ورغلا تی رہی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں میں داخل ہونے والے ڈرونز نہیں گراتا۔ “جان کی امان پاؤں” کے رخصت ہوتے ہی اس وقت کے پی پی پی کے چیئر پرسن جو ملکِ پاکستان کے صدر بنا دیئے گئے تھے، صحافیوں کو ان سے یہ سوال کرنے کا موقع مل ہی گیا کہ امریکا کے جو ڈرونز افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہونے کے باوجود ان کو گراتا کیوں نہیں؟، کیا پاکستان کے پاس ان ڈرونز کو گرانے کی صلاحیت نہیں ہے؟۔ پوچھنے والوں کا سوال بہت ہی ٹیڑھا تھا اور لہجہ بھی کافی تلخ، لیکن اس وقت کے صدرِ پاکستان نے نہایت خوش گفتاری کے ساتھ جواب دیا کہ پاکستان کے پاس ڈرون گرانے کی مکمل صلاحیت ہے۔ ان ڈرونزکو گرایا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد پھر کیا ہوگا؟۔ جواب سن سوال کرنے والوں کی زبان کی خارش نہ صرف دور ہوگئی بلکہ اس کے بعد ساری گفتگو کے دوران ڈرونز کے بارے میں کسی ایک نے بھی کوئی دوسرا سوال نہیں اٹھایا۔

بجٹ میں ٹیکسوں کی مد میں وصول کی جانے والی رقم کا حدف 5500 ارب روپے رکھا گیا ہے جوکہ کل بجٹ کے تخمینے کا آدھا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ٹیکسوں کی مد میں جو وصولی ہوئی تھی وہ اس ہدف سے نصف تھی اس لئے کسی نے مجھ کچ فہم و عقل سے یہ سوال کر لیا کہ کہ بجٹ میں 5500 ارب روپے کی وصولیابی کا جو ہدف رکھا گیا ہے، کیا حکومت اتنی بڑی رقم ٹیکسوں کی مد میں وصول کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ان کے اس سوال کے جواب میں میں نے کسی توقف کے بغیر کہا کہ حکومت نہ صرف یہ ہدف حاصل کرلے گی بلکہ ممکن ہے کہ وہ مقررہ ہدف سے بھی کہیں زیادہ ٹیکس وصول کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

ٹیکسوں کے مقررہ ہدف کے پورا وصول ہوجانے کے بارے میں زیادہ ترماہرین کا خیال یہی ہے کہ ایسا ناممکن ہے۔ ان کے خیال میں اول تو ٹیکس نیٹ میں لاکھوں افراد کا اضافہ کرنا ہی امر محال ہے اور دوئم یہ کہ ٹیکسوں کی “پرسنٹیج” کو مزید بڑھانے سے صارف باغی ہو جائے گا جو ایک جمہوری حکومت کیلئے زہر قاتل ثابت ہوگا۔ میری بات شاید اسی لئے ہضم نہیں ہو سکتی تھی کہ میں نے بلا تامل ہدف کو پورا کرنے کی بات نہایت یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ دی تھی جس کی وجہ سے سوال کرنے والے کیلئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ سوال کے جواب میں پھر سوال کرے چنانچہ وضاحت طلب کی گئی جس پر میں نے کہا کہ کمال یہی تو ہوگا کہ ٹیکسوں کی مدآت میں اضافہ بھی نہیں ہوگا پھر بھی ہدف حاصل ہو جائے گا۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے میں کہا کہ حکومت جو بھی ٹیکس وصول کرتی ہے وہ آمدنی پر ہوتا ہے۔ اگر بیچنے والے کی آمدنی میں اضافہ ہوگا تو وہ بڑھی ہوئی آمدنی کے مطابق ٹیکس ادا کرے گا۔ آمدنی میں اضافہ دوہی صورت میں ممکن ہے اور وہ صورتیں یہ ہیں کہ خریدنے والے یا تو جو کچھ خریدیں وہ پہلے سے زیادہ یا دوگناہ خریدیں یا دوسری صورت یہ ہوگی کہ وہ لے تو اپنی ضرورت کے مطابق لیکن جو شے بھی  خریدیں وہ پہلے سے زیادہ دام ادا کرکے لینے پر مجبور ہوں۔ جب حکومت روپے کی قدر گھٹائے گی، تو اشیا کی قیمت خود بخود آسمان کی جانب جائے گی۔ اشیا مہنگے داموں فروخت ہونگی تو تاجر کو زیادہ آمدنی حاصل ہوگی اور جب تاجر کی آمدنی میں اضافہ ہوگا تو ٹیکس کی رقم بھی از خود بڑھ جائے گی۔

ہر وہ مال جو باہر کی دنیا سے خریدا جاتا ہے وہ ڈالر(غیر ملکی کرنسی)  کی ادائیگی کر کے ہی خریدا جاتا ہے پہلے اگر ایک ڈالر 100 روپے کا تھا تو اب 160 روپے میں ملتا ہے۔ گویا پہلے ہم ایک ڈالر والی کوئی بھی شے 100 روپے میں خرید لیا کرتے تھے لیکن اب ایک ڈالر والی وہی شے 160 روپے سے کم میں خریدی ہی نہیں جا سکے گی۔ اگر اس ایک ڈالر کی خریداری پر حکومت کا ٹیکس 10 روپے بنتا تھا تو اب وہی ٹیکس 16 روپے کا بنے گا۔ 10 روپے کے مقابلے میں 16 روپے کی وصولیابی کا مطلب ٹیکس میں 60 فیصد اضافہ۔ یہ تو محض اشیائے ضروریہ کی مد میں ہی ہو گیا، باقی گیس، بجلی اور پٹرول کی مد میں اضافے کے بعد تو سمجھو کہ حکومت کی چاندی ہی چاندی ہوئی۔ ملک کے اندر ہر شے کی قیمت اسی نسبت سے بڑھ جانے کی وجہ سے ہر فرد کو زندہ رہنے کیلئے بہر صورت خریداری تو کرنی ہی ہے خواہ وہ اس کیلئے چوری کرے، ڈاکے ڈالے یا کسی کا خون بہائے، حکومت کو تو اپنے ہدف سے مطلب ہے جس کو حاصل کرنے کے عزم کا اظہار موجودہ وزیر اعظم مسلسل کر تے چلے آ رہے ہیں۔

میری باتیں سوال کرنے والے کیلئے کیا تاثر چھوڑ رہی ہونگی وہ تو سوال کرنے والا ہی جانتا ہوگا لیکن وہ یہ بات پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ مہنگائی کے اس طوفان اور روپے کی قدر میں ہوش ربا گراوٹ کی وجہ سے غریب کا کیا بنے گا؟۔ میرا جواب اس سلسلے میں زرداری کے جواب کی طرح بہت ہی سادہ سا تھا کہ”ڈرونز گرانا مسئلہ نہیں مسئلہ یہ ہے کہ پھر اس کے نتائج کیا ہونگے”۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کے نتیجے میں بنا ٹیکس ریٹ میں اضافے کئے حکومت ٹیکس وصولیابی کے ہدف کو بآسانی حاصل کر لے گی لیکن حکومت اس بات پر غور کرنے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ کتنا بھیانک ہوگا۔ غربت کی لکیر سے نیجے وہ طبقہ بھی آجائے کا جو آج متوسط کہلاتا ہے اور غریب غربت کی لکیر سے بھی کہیں نیچے چلاجائے گا۔ یہ صورت حال لوگوں کو چوری چکاری اور ڈاکا زنی ہی تک محدود نہیں رکھے گی بلکہ پیٹ بھرنے کیلئے اگر دوسرے کی زندگی بھی جھینا پڑی تو چھین لی جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری ملیں اور کارخانے اشیا تیار کرنا ہی چھوڑ دیں اس لئے کہ ان کی اصل قیمتیں دنیا میں تیار ہونے والی اسی معیار کی اشیا سے بڑھ جائیں گی اور انھیں باہر کے ممالک میں فروخت کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔ لوگوں کی قوت خرید کم ہوجانے کی وجہ سے مارکیٹ میں ان کی اشیا کی مانگ کم ہوجائے اور خود ان کے اپنے ہی ملک میں انھیں خریدنے والا کوئی نہ رہے۔ ملیں اور کارخانے تو ابھی ابتدا ہی میں بند ہونے کی جانب بڑھتے نظر آ رہے ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگاری کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کہیں 5500 ارب روپے کے میزائل کا یہ ہدف اپنی ہی ملک میں تابکاری پھیلا کر پورے پاکستان کیلئے لئے قیامت برپا کرتا ہے یا پھر جن آنکھوں میں دودھ اور شہد کی نہروں کے بہنے کے خواب سجائے گئے ہیں، ان آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوتا ہے۔ یہ موجودہ حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس پر فی الحال اس کے پورا اترنے کا امکان ذرا کم ہی نظر آتا ہے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں