عدالتیں کسی کی جاگیر نہیں

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ فلاحی مملکت اور مہذب معاشروں کی اساس ریاست میں قائم کردہ عدالتوں کا معیار انصاف ہوتا ہے،جو کسی تعصب اور جانبداری کے بغیر میرٹ پر فیصلے سناتی ہیں۔مبنی برحقائق فیصلوں کی بنا پر ہی عدل کرنے والے کو امام عادل کہا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ امام عادل کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی کیونکہ اللہ کے نزدیک ایسے افراد کی قدرومنزلت اور عزت ہوتی ہے۔حضرت ابو ھریرہؓسے روائت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین قسم کے افراد کی دعا کبھی اللہ کے ہاں رد نہیں ہوتی۔امام عادل،روزہ دار جب وہ افطار کر رہا ہو اور تیسرا مظلوم، جس کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مظلوم کی دعا عرش ہلا دیتی ہے۔پاکستان کے موجودہ عدالتی نظام اور اس نظام پر مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے نکتہ چینی سے یقینا امام عادل کے ہاتھوں میں تھاما ہوا قلم ضرور لغزیدہ ہوگا اور وہ ضرور سوچتے ہونگے کہ ہم کس کو جوابدہ ہیں۔خدا کو یا عوام کے ان منتخب کردہ نمائندوں کو،یہ بات صحیح ہے کہ جمہوری اداروں میں عدالتوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے عناصر بھی اسی نظام کا حصہ ہوتے ہیں جو ان اداروں کو مرکز سے نکال باہر کرنے کے درپے رہتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو جمہوری لبادہ میں آمرانہ نظام کو ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔لیکن جمہوری ممالک ہمیشہ انصاف کے علمبردار رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں اگر غربت و افلاس کو ختم کر کے انصاف کا بول بالا اور معاشی استحکام لانا ہے تو پھر نیلسن منڈیلا کے اس فلسفہ کو جمہوری اداروں میں پنپنے کی گنجائش رکھنا ہوگی کہ”غربت،خیرات سے نہیں انصاف سے ختم ہوتی ہے“

دوسری جنگ عظیم کا زمانہ ہے محوری فوجوں کا پلڑا بھاری ہے،جاپان برما اور پرل ہاربر پر بھرپور حملہ کر کے دشمن کو پسپا کر چکا ہے ایسی صورت حال میں برطانیہ کے وزیر اعظم سر ونسٹن چر ل کے پاس اس کا ایک وزیر آ کر کہتا ہے کہ سر کیا ہم یہ جنگ جیت جائیں گے؟سر ونسٹن چرچل عجب جواب دیتے ہیں کہ ”کیا میرے ملک کی عدالتیں انصاف نہیں کر رہیں؟۔جواب معمول سے ہٹ کر تھا کہ کہاں میدان جنگ اور کہاں ملک کا ایک ایسا ادارہ جو لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے،دونوں کا کیا ربط مگر وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ اگر ملک میں عوام کو ان کے در پر انصاف مہیا ہو رہا ہے تو وہ اپنے ملک پر ہونے والے کسی بھی قسم کے ظلم کو کبھی برداششت نہیں کریں گے،بالکل ویسے ہی جیسے کہ اشوک نے اپنی زندگی کے آخری معرکہ جسے کلنگہ کا معرکہ کہا جاتا ہے اس کو فتح کرنے کے بعد ایک اعلان کیا کہ آج کے بعد میری کوئی فوج نہیں ہوگی،وزیروں نے کہا کہ جناب اگر ہماری اپنی فوگ نہیں ہوگی تو دشمن ملک ہماری عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر کھا جائیں گے۔اشوک نے بھی ونسٹن کی طرح عجب جواب دیا کہ پہلے میرے پاس چار لاکھ فوج تھی آج کے بعد میری ریاست کا ہر فرد یعنی چالیس لاکھ افراد اپنے ملک کا دفاع سپاہی بن کر کریں گے۔لیکن تمام باتوں کے لئے ضروری ہے کہ ملک کی عدالتیں آزاد۔خودمختار اور سیاسی اثر رسوخ سے مبرا ہوں۔سیاسی مداخلت عدالتی نظام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے جو انصاف کے پہئے کو کسی طور صحیح سمت گھومتا نہیں دیکھنا چاہتے،ان سب باتوں کا حل ان دو باتوں میں مضمر ہے،ایک کہ معاشرتی بگاڑ کے سدھار کے لئے قانون کے آہنی سے کام لیا جائے یعنی قانون کا اطلاق کرتے ہوئے امیر وغریب اور اشراف ورذیل کی پرواہ کئے بغیر صرف میرٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف کیا جائے تاکہ کسی کو بھی عدالتی نظام اور فیصلوں پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔دوسرا امام عادل کو دائرہ اختیار میں رکھنے کے لئے وہی اقدامات کئے جائیں جو کسی ملزم یا مجرم کو سدھارنے کے لئے ذکر کیا گیا ہے۔ایک مثال سے وضاحت کرتا چلوں کہ ملک فارس کا ایک عادل حکمران تھا جس کا نام کمپوچیا تھا اس کے دربار نے ایک فریادی نے فریاد کی کہ آپ کے ملک کی سب سے اعلی عدالت کے جج نے قاتل سے رشوت لے کر مقتول کے خاندان سے زیادتی کی ہے،تحقیق کرنے پر جج واقعی رشوت لینے میں ملوث پایا گیا۔کمپوچیا نے بھی اس کا عجب فیصلہ کیا کہ جج کو معزول کر کے اس کے بیٹے کو جج کے عہدہ پر فائز کردیا جائے وزیر خاص نے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت یہ کیسا انصاف ہے کہ باپ کو معزول کیا اور اسی کے بیٹے کو اسی عہدہ جج پر فائز بھی کردیا تو اس پر کمپوچیا نے مزید حکم صادر فرمایا کہ باپ جج کے جسم کی کھال اتروا کر بیٹے کی کرسی کی پوشش کر دی جائے کہ جب بیٹا کوئی غلط فیصلہ کرنے لگے تو اسے اپنے باپ کی کھال دیکھ کر عبرت حاصل ہو کہ باپ کی جگہ میری کھال کی پاشش بھی کروائی جا سکتی ہے۔میرے ملک میں بھی عدالتوں کے نظام،نظام کو ڈسٹرب کرنے کے لئے سیاسی و سرکاری اثر و رسوخ کا سلسلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ کمپوچیا کے فارمولا انصاف کا اطلاق ضروری ہو گیا ہے۔کیونکہ عدالت آزاد اور خود مختار ادارہے کسی کی ذاتی جاگیر نہیں  اور عدالتوں میں اس وقت تک انصاف ہوتا رہیگا جب تک یہ ہمہ قسم کے اثر رسوخ سے آزاد ہو۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں