دنگل تو اب لگا ہے

مقبوضہ جموں کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں ایک کمپنی میں ایگزیکٹو مینیجر کے فرائض انجام دینے والے جناب زاہد وسیم صاحب کے ہاں 23 اکتوبر سن 2000کو بیٹی کی ولادت ہوئی۔

 بیٹیاں ویسے بھی اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور اس بچی کے تو شاید ہاتھ اور ماتھے دونوں پر ہی خوش نصیبی روز روشن کی طرح جگمگا رہی تھی۔ مشورے کے بعد زرقہ اور زاہد وسیم صاحب نے اپنی بیٹی کا نام زائرہ رکھ دیا ۔ گھر میں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی، والد مینجر اور والدہ کسی اسکول میں ٹیچر تھیں۔ بچی نے جب ذرا چلنا، پھرنا اور تُتلانا شروع کیا تو اس کا داخلہ سرینگر کے مشہور و معروف ایلیٹ کلاس اسکول سینٹ پال انٹرنیشنل اکیڈمی میں کروادیا گیا۔

 2015 میں نتیش تیواری نے مہاویر سنگھ پھوگاٹ اور اس کی پہلوان بیٹی پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کے پروڈیوسر عامر خان خود تھے،نتیش تیواری نے بڑی جدوجہد کے بعد کو- اسٹار کے لیے زائرہ وسیم کو تلاش کیا تھا، اداکاری اور فنکاری اس بچی کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔

 اسی دوران ادویت چندن نے اپنی فلم “سیکرٹ سپراسٹار” کی سائٹ اور کاسٹ کو فائنل کر لیا تھا بس انہیں ایک پندرہ سولہ سال کی بچی کی تلاش تھی اور اس تلاش کو بھی عامر خان اور نتیش تیواری نے پورا کردیا تھا،  زائرہ کا ٹرائل اتنا شاندار تھا کہ ادویت چندن نے عامر خان  اور نتیش تیواری  سے درخواست کی کہ آپ کو تو کوئی بھی کو-اسٹار مل جائے گا، آپ اس بچی کو مجھے دے دیں لیکن عامراور نتیش دونوں نے صاف انکار کردیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ “سیکرٹ سوپر اسٹار” کے پروڈیوسر بھی عامر خان ہی تھے۔

 دسمبر 2014 میں “دنگل” کی شوٹنگ شروع ہوئی، اگلے سال یعنی دسمبر 2015 میں مکمل ہوگئی اور 2016میں دنگل ریلیز بھی ہوگئی۔ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کے نصیب ایسے بنائے ہوتے ہیں کہ اگر وہ مٹی کو بھی ہاتھ لگائیں تو سونا بن جاتی ہے اور خوش قسمتی سے عامر خان اور اس کے بعد اب زائرہ وسیم کا بھی یہی حال تھا۔

 عامر خان کی ڈبیو فلم ” قیامت سے قیامت تک” کامیاب ترین فلم تھی، ان کی پہلی پروڈکشن “لگان” اس  سے  زیادہ کامیاب اور ان کی پہلی ڈائریکشن “تارے زمیں پر” اس سے بھی زیادہ کامیاب ثابت ہوئی تھی اور آج اسی عامر خان کی پروڈکشن میں بننے والی فلم “دنگل” میں زائرہ وسیم اگرچہ کو- اسٹار کے طور پر گیتا پھوگاٹ کی صورت میں موجود تھیں لیکن اس فلم نے ہندوستان کی فلمی تاریخ کے اگلے پچھلے ریکارڈ چکنا چور کر کے رکھ دیے۔

“دنگل” نے 2000 کروڑ کا بزنس کیا یہ سولہ بلین ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر باکس آفس پر موجود تھی۔ عامر خان نے اگلے ہی سال یعنی 2017 میں دوسری فلم “سیکریٹ سُپر اسٹار” مارکیٹ میں لانچ کر دی، اس فلم میں زائرہ وسیم مرکزی کردار ادا کر رہی تھیں اور پھر فلم نے بھی دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان میں ایک اور تاریخ رقم کردی۔یہ فلم نو بلین ڈالر کے بزنس کے ساتھ تیسرے نمبر پر باکس آفس پر موجود تھی جبکہ سلمان خان کی “بجرنگی بھائی جان” دوسرے پر۔

 مارچ 2019  میں زائرہ وسیم نے تیسری فلم “دی اسکائے  از پنک”  کی شوٹنگ مکمل کی لیکن اس بار اللہ تعالی نے ان کی آزمائش کا فیصلہ کر رکھا تھا 30 جون2019 کی صبح پانچ بج کر دو منٹ پر زائرہ وسیم کے آفیشل ٹوئیٹر سے یہ پیغام نشر کیا گیا کہ:

“آج سے پانچ سال پہلے میں نے ایک فیصلہ کیا تھا، جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی تھی اور آج میں ایک اور فیصلہ کر رہی ہوں جو دوبارہ میری زندگی بدل دے گا اور اس دفعہ کا یہ فیصلہ ان شاءاللہ زیادہ بہتر ہوگا”۔

 اس ٹویٹ کے بعد 18 سالہ زائرہ وسیم نے بالی وڈ کو خیرباد کہنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ:

 “اگرچہ انڈسٹری میں مجھے بے پناہ عزت، شہرت اور سپورٹ میسر آئی لیکن بہت خاموشی کے ساتھ میرے کیرئیر نے میرے ایمان کو ختم کرنا شروع کردیا، جب کہ اس کی وجہ سے میرا اپنے اللہ کے ساتھ تعلق بھی کمزور ہوگیا ہے۔اس لیے میں نے بالی ووڈ فلم انڈسٹری چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے”۔

 انہوں نے “دی اسکائے  از  پنک”کے ڈائریکٹر کو یہ بھی کہا کہ مجھے اس فلم کی پروموشن کے لیے مدعو نہ کیا جائے۔ یہ جملے یہ الفاظ اور احساسات بلکہ اگر کہا جائے کہ یہ انداز ہندوستان کی جنتا سمیت ان کی فلم انڈسٹری پر پاکستان کے ایٹم بم سے بھی زیادہ شدید تھا تو غلط نہ ہوگا۔

 عامر خان کی “دنگل” سے کہیں زیادہ اس فیصلے نے پورے ہندوستان میں دنگل بجا کر رکھ دیا ہے۔ اس فیصلے نے تو ایک دفعہ پھر “دو قومی نظریہ” کو صیح ثابت کیا ہے۔ نوجوان بچیوں اور کچے ذہنوں کی معصوم لڑکیوں کو بے حیائی اور فحاشی کی طرف اتنی محنت کے ساتھ کھینچ کر لے جانے والی اس فلم انڈسٹری کی خوبرو جوان اور وہ بھی مسلمان اداکارہ نے جو دھماکہ کیا تھا وہ تو اس حیا باختہ کرنے والی، جسم پر سے کپڑوں کو نوچ کر پھینک دینے اور عورت کو کھلونا بنا کر دنیا کے ہوس زدہ مردوں کے سامنے پیش کرنے والی انڈسٹری کے منہ پر تھپڑ تھا اور یہ تھپڑ اتنی آرام سے تو بہرحال برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا۔

دنیا کی 70 فیصد انڈسٹری خواتین  اور ان کی اشیاء سے متعلق ہے۔ صابن کی ٹکیہ سے لے کر شیمپو کی بوتل تک اس پوری “تصویر کائنات میں رنگ” اسی “حسن زن” سے ہی تو ہے۔ کبھی آپ نے سوچا جب کوئی لڑکی سر پر ڈوپٹہ اوڑھتی ہے اور جب کسی نامحرم سے خود کو چھپاتی ہے تو اس انڈسٹری پر گھڑوں پانی گرجاتا ہے۔

 زیادہ تکلیف اس بات پر نہیں ہے کہ محض 3 فلمیں کرنے والی اٹھارہ سالہ بچی نے انڈسٹری چھوڑ دی کہ اس انڈسٹری میں روز صبح سے لے کر شام تک ہزاروں لڑکے لڑکیاں آتے ہیں اور جاتے ہیں لیکن جس طرح “چھوڑی” وہ  ان  کے لئیے  زیادہ تکلیف دہ ہے۔ یہ “ایمان”،  “اللہ”، “رسول” کہاں سے بیچ میں آ گیا؟ یہ کیسے مسلمان ہیں؟ کہ تین تین فلمیں کرنے کے بعد بھی ان کا ایمان اچانک کہیں سے جاگ جاتا ہے۔ اقبال نے اسی لئے تو کہا تھا کہ:

سُنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

 زائرہ وسیم کہ اس طرح انڈسٹری چھوڑ دینے پر مرحوم جنید جمشید کی یاد آگئی۔ پیپسی سی ایک کروڑ کا کانٹریکٹ ختم کرکے بچوں کو مہنگے ترین اسکولوں سے نکلوالینا اور جیب میں صرف   100 روپے لے کر اپنی بیوی کے سامنے جا کر بولنا “بس یہ آخری سو کا نوٹ ہے” کتنی ہمت اور دل گردے کا کام ہوگا۔

 وہ ابلیس جس نے حضرت آدم علیہ سلام کو ورغلا کر چھوڑا تھا جنید جمشید کے پیچھے کس کس طرح نہیں لگا ہوگا اور آج ہندوستان جیسے “انتہا پسند” ملک میں ہاتھ میں انگارہ پکڑ لینے والی زائرہ وسیم کے دل میں کیسے کیسے وسوسے، خوف اور اندیشے پیدا نہیں کر رہا ہوگا۔

ہم برصغیر کے مسلمان بھی عجیب و غریب ہیں ہم ساری فلمیں، سارے گانے اور ڈرامے سب کچھ دیکھتے ہیں۔ اداکاروں اور اداکاراؤں کے فیشن، اسٹائل اور کپڑے بھی کاپی کرتے ہیں لیکن اگر وہ دین کی طرف آجائیں تو اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور سراہنے میں بھی پیچھے نہیں ہٹتے۔

 سید ابواعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا “ہماری قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسلام پر مرنے کے لیے تیار ہے لیکن اسلام پر جینے کے لیے تیار نہیں ہیں”۔ کاش کہ میری قوم کی بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کو زائرہ وسیم کے الفاظ، احساس اور رویے سے یہ سمجھ  آجائے کہ ان کی عزت اللہ نے ان کی شرم، حیا اور خود کو چھپانے میں رکھی ہے۔

 یاد رکھیں کہ راز بھی اسی وقت تک راز رہتا ہے جب تک چھپا ہوا ہو، جب سب کے سامنے آجائے تو پھر فاش ہو جایا کرتا ہے اور اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

حصہ
mm
جہانزیب راضی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں،تعلیمی نظام کے نقائص پران کی گہری نظر ہے۔لکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں۔مختلف اخبارات و جرائد اور ویب پورٹل کے لیے لکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں