اصلاحی تدریس(REMEDIAL TEACHING)

آج کے ترقی پذیر تعلیمی دور میں فلسفیانہ اقدار پر قائم، نفسیاتی اسلوب سے لیس،سائنسی طرز پر استوار اورسماجی اسا س پر مبنی و تسلیم شدہ حقائق کو تعلیم سے معنون کیا گیا ہے۔ طلبہ کی ذہنی استعداد،رجحان اور میلان کے مطابق طریقہ تدریس کو وضع کرنا جدید تعلیم کا  سب سے نمایا ں وصف ہے۔ ذہنی و جسمانی تفاوت کے علاوہ طلبہ میں پائے جانے والے انفرادی تغیرات میں مضامین کی تفہیم و  استحضار کے طریقہ کار، حصول علم و اکتساب سے رغبت و آمادگی کی شرح کے علاوہ جذباتی، سماجی اور ثقافتی اقدار میں بھی نمایا ں فرق پایا جاتا ہے۔ طلبہ کی ذہنی،جسمانی، جذباتی،سماجی و ثقافتی اختلافی حیثیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم فراہم کرنا نہ صرف ہر اسکول کا اولین فریضہ ہے بلکہ ہر طالب علم کا بنیادی حق بھی ہے۔طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کے فروغ میں اساتذہ کا محتاط اور ذمہ دارانہ کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔  دوران  تدریس کمرۂ جماعت میں سست متعلمین (slow learners)سے  ہر استا دکا سامنا ہوتاہے۔سست اکتسابی کیفیت کے حامل طلبہ کو غبی،بدھو اور احمق کہہ کر نظر انداز کر نا یا پھر ان کی تحقیر  و تذلیل درس و تدریس کے فرائض کے مغائر ہے۔اکستابی سست روی کے حامل طلبہ سے اساتذہ کا جارحانہ برتاؤ کسی بھی طور نتائج کو بہتر نہیں بنا سکتا۔ اساتذہ کا یہ عمل(slow learners) کو تعلیمی عمل سے نہ صرف کو سوں دورکر دیتا ہے بلکہ ان میں تعلیم سے نفرت کے جذبے کو فروغ دیتا ہے۔  سست متعلمین کو عام طلبہ سے علیحدہ کرتے ہوئے بھی اساتذہ بہتر  نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔گروہی درجہ بندی کی وجہ سے سست متعلمین تعلیم سے متنفر ہوکر احسا س کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ اختراعی تدریسی طریقوں سے سست متعلمین میں علمی ذوق و شوق کو  پروان چڑ ھا سکتے ہیں۔اساتذہ کا مشفق رویہ اور لگاتار حوصلہ افزائی سست متعلمین کو عام تعلیمی دھار میں شامل کرنے میں نہایت معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔بہتر کارکردگی پیش کرنے سے چوک جانے والے طلبہ میں اعتماد و ایقان کی فضاء کی بحالی میں استاد کا ہمدردانہ اور مشفقانہ رول بہت اہم ہوتا ہے۔ بہتر مظاہرے کے مطالبے وتلقین کے بجائے اساتذہ سست متعلمین کے لئے مختلف طریقہ ہائے تدریس کو اپنائیں تاکہ سست متعلمین کو اکتساب کی طرف مائل و راغب کرنے میں کامیابی حاصل کر سکیں۔ اساتذہ کی جانب سے اختیار کرنے والے ہمددرانہ اور منتخب طریقہ تدریس کو اصلاحی تدریس (Remedial Teaching)کے نام سے منسوب کیاگیا ہے۔  اساتذہ کی سست معتلمین کے بارے میں تشویش اور ان کو اصل تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کا عزم ہی اصلاحی تدریس کی بنیا د ہے۔ اس مضمون میں اصلاحی طریقہ تدریس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

طلبہ کے شخصی تفاوت (individual difference)کی شناخت اور اور اس کے مطابق اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا تعلیم کے جدید جمہوری مقاصد میں سے ایک اہم مقصدہے۔اس تعلیمی مقصدکے حصول میں سب سے پہلے سست متعلمین(Slow learners) کی نشاندہی و شناخت بے حد ضروری ہوتی ہے۔ تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ کی محتاط نشاندہی کے بعد اصلاحی طریقہ تدریس پر عمل پیرائی کے ذریعہ بہتر نتائج کے حصول کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔مدارس اصلاحی تدریس پر لگاتار عمل کرتے ہوئے تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ(سست متعلمین) کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں فعال کردار انجام دے سکتے ہیں۔اگر اساتذہ تعلیمی طور پر سست متعلمین سے لاتعلقی،بیزاری اور عدم تعاون کا برتاؤ روا ں رکھیں اور ان سے جارحانہ اور تادیبی رویہ اختیار کر یں تب وہ خود کو غیر اہم تصور کرتے ہوئے منفی احساسات میں گھر جاتے ہیں اور ان سے خراب رد عمل کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ایسے نامساعد حالات میں خراب تعلیمی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور وہ اپنی صلاحیت سے بھی کم ترمظاہر ہ پیش کرتے ہیں۔ میل جول اور تال میل کے فقدان کے سبب متعدد مسائل سر اٹھانے لگتے ہیں۔ تعلیمی طور پر پسماندہ طلبہ کے حق میں بہتر اقدامات کے ذریعے، ان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا سد باب کرتے ہوئے اساتذہ دیگر طلبہ کی طرح ان کوبھی تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔مستعدد اور فرض شناس استاد کی توجہ،شفقت اور ہمدردی کے باعث حصول علم میں سرگرداں تمام طلبہ چشمہ تعلیم سے نہ صرف اپنی پیاس بجھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ کامیابی کی نئی روایتوں کے امین بھی بن جاتے ہیں۔

اصلاحی تدریس کے مطلوبہ شرائط؛۔اصلاحی تدریس (Remedial Teaching)کی انجام دہی میں معاون چنداہم شرائط کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔

(1)اساتذہ اکتسابی نقائص اور اکتسابی کمزوری کے حامل طلبہ کی شناخت و نشاندہی  پر توجہ دیں۔عام طور پر ہر کلاس میں اساتذہ کا ذہنی تحدید ات یا اکتسابی نقائص و اکتسابی دشواری کے حامل طلبہ سے سامنا ہوتا ہے جو اپنے ہم جماعت ساتھیوں کی طرح بہتر تعلیمی مظاہر ہ نہیں پیش کرنے کی وجہ سے دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔یہ بچے سبق کو سمجھنے میں تذبذب اور الجھن کا شکار رہتے ہیں یا پھر لکھنے پڑھنے (تحریری اور مطالعہ) میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔اساتذہ کے لئے ایسے طلبہ کی تفصیلات کو اکٹھا کرنا ضروری ہوتا ہے۔(2)اساتذہ اکتسابی دشواری کی اصل وجہ جیسے پڑھنے(مطالعہ) میں دشواری،لکھنے میں دشواری،اظہارمیں دشواری،کام کی رفتار میں کمی،تعلیمی سرگرمیوں کی انجام دہی میں دشواری،ناقص مطالعہ یا پڑھائی کی عادت،بنیادی معلومات کا فقدان،سبق کی مشکل و ادق زبان کو سمجھنے میں دشواری یا ناکامی اور دباؤجیسے مسائل کو ڈھونڈ نکالیں۔(3) اصلاحی تدریس کو انجام دینے والے اساتذہ دیگر اساتذہ کے مشاہدات اور ان کی جانب سے ترتیب شدہ اکتسابی نقائص اور کمزوریوں کی تفصیلات کو حاصل کریں۔اکتسابی نقائص اور کمزوری کی جانچ کے لئے اگر ضروری ہوتو امتحانات منعقد کرنے سے بھی اجتناب نہ کریں۔امتحان کے انعقاد کے ذریعے اصلاحی تدریس کے لائحہ عمل کو بھی مرتب کیا جاسکتا ہے۔ (4)دیگر اساتذہ اور ماہرین سے رابطہ قائم کرتے ہوئے اکتسابی نقائص و کمزوری کے حامل طلبہ  کے اکتساب کو فروغ دینے والے مناسب و موزوں تدریسی تکنیک،مواد،سرگرمیاں،طریقے اور تدابیر کو بروئے کار لائیں۔(5)اکتسابی نقائص و کمزوری کے حامل طلبہ میں اعتماد کی فضاء پیدا کریں۔ ان کی تعلیمی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔بہتر مظاہرے اور کارکردگی کے لئے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔تاکہ ان میں بے ہمتی کا سد باب ہو اور اعتماد کی بحالی کے ذریعہ اصلاحی تدریس کے مقاصد کے حصول کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔(6)اصلاحی تدریس کا دوسرا اہم مرحلہ مناسب وقت پر اصلاحی تدریس کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔منصوبے میں شامل تما م تعلیمی سرگرمیاں طلبہ میں ترغیب و تحریک پیدا کرنے والی ہونے کے ساتھ مناسب طریقہ سے نافذ کی جانے چاہیئے۔اگر ایک سرگرمی معاون ثابت نہ ہوتو متبادل سرگرمیوں کی تشکیل پر توجہ مرکوز کریں۔(7)اساتذہ وقتا فوقتا بچوں کی جانچ کرتے ہوئے  ان کی ترقی کو ریکارڈ کریں۔ہر جامع جانچ کے بعد ان کو اغلاط سے واقف کرتے ہوئے اصلاح کریں اور ان کی مسلسل حوصلہ افزائی بھی کرتے رہیں۔

سست اکتساب (slow learning)کی وجوہات؛۔ایسے کئی معروف و غیر معروف وجوہات ہیں جس کی وجہ سے بچے سست اکتساب کا مظاہر ہ کرنے لگتے ہیں۔منصوبہ کی موثر اور بہتر کارکردگی کے لئے اساتذہ کو اپنیمعلنہ تدریسی اوقات سے زائد وقت صرف کرتے ہوئے ایک مبسوط لائحہ عمل پر کاربند رہنا ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ کے اکتساب میں سستی اور نقص پیدا کرنے کے اسباب کا فوری جائزہ لیا جاسکے۔بعض اساتذہ سست اکتساب کی وجوہات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر طلبہ میں سست اکستاب کی نشاندہی نہ کرنے کی وجہ سے اصلاحی تدریس سے گریز کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ذیل میں سست اکتساب کی چند وجوہات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔

(1)طلبہ میں سست اکتساب کی اہم وجوہات میں سے ایک اہم وجہ متعلقہ مضمون یا موضوع کی بنیادی و اساسی معلومات کا فقدان ہوتا ہے۔مبادیا ت و بنیادی معلومات سے لاعلمی کی وجہ سے ان کو مضمون ہمیشہ مشکل اور پیچیدہ معلوم ہوتا ہے۔اگر اساتذہ اس حقیقت سے لاعلم رہیں اور بنیادی معلومات کی فراہمی کے بغیر ہی مضمون کی تدریس انجام دینے لگیں تب سست اکتساب کے حامل طلبہ ہمیشہ پڑھائے جانے والے مضمون سے متعلق اعلی معلومات کی تفہیم میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ (2)کمرۂ جماعت میں حد سے زیادہ طلبہ کی تعدا د کی وجہ سے ہر طالب علم پر انفرادی توجہ دینا مشکل ہوجاتا ہے اور طلبہ کو احساس ہوجاتا ہے کہ ان کی حرکات و سکنا ت اور سرگرمیاں استا د کی نظراور توجہ سے باہر ہے تب وہ تعلیم سے لاپرواہی کرنے لگتے ہیں،علم کے حصول اور ترقی کی جانب ان کی توجہ نہیں رہتی ہے جس کی وجہ یہ سست اکتساب کا شکار ہوجاتے ہیں۔(3)تدریسی فرائض کی انجام دہی میں مختلف مرحلوں پر اساتذہ کی لاپرواہی کے سبب بچوں میں سست اکتساب کی کیفیت در آتی ہے۔استاد کا دلچسپی سے عاری طریقہ تدریس اور جارحانہ طرز عمل بچوں میں تحریک اور ترغیب پیدا کرنے سے قاصر رہتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ اکتسابی ناکامی کا شکار ہوجاتے ہیں۔(4)والدین کا بچوں کی تعلیم سے لاتعلق ہونا،یا پھر والدین کی بچوں سے وابستہ حد سے زیادہ توقعات کی وجہ سے اکتسابی دباؤ بھی سست اکتساب کی ایک اور وجہ ہے۔والدین اپنے بچے کی اکتسابی صلاحیت سے عد م واقفیت کی وجہ سے جب اس کو سخت و سست کہتے ہیں یا پھر لاتعلقی کا اظہار کرنے لگتے ہیں تب بچے کی اکتسابی صلاحیتوں پر کار ضرب لگتی ہے اور وہ اکتسابی نقائص اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔(5)ناقص مطالعہ کا طریقہ و عادت، اپنی ذہنی صلاحیت پر عدم اعتماد،جذباتی اور دوسروں سے ہم آہنگی پیدا کرنے (میل جو ل/تال میل)کا فقدان،مناسب اوقات پر رہبیری و رہنمائی کا فقدان،اور حوصلہ افزائی کے فقدان کی وجہ سے بچے منفی اثرات کے تابع رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اکتساب  صلاحیتوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

اصلاحی تدریسی پروگرام؛۔اصلاحی تدریس کی اہمیت کا جب علم ہوجاتا ہے اور اکتسابی دشواریوں اور مشکالات کی تشخیص بھی عمل میں آجاتی ہے تب ”اصلاحی تدریسی پروگرام“کے لئے مبسوط منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔ذیل میں اصلاحی تدریس سے متعلق چند سرگرمیوں کو پیش کیا جارہاہے۔

(1)اصلاحی تدریس جماعتوں کا انعقاد؛۔امتحانات و جانچ کے ٹسٹ کے نتائج کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے یا اساتذہ کے مشاہدے و تشخیص  کے بعد سست اکتساب کے حامل طلبہ کا  مناسب وقت پر  اصلاحی تدریسی جماعتوں کے لئے انتخاب عمل میں لایا جاتاہے۔ سست اکتساب کے حامل طلبہ کو اساتذہ اسباق کے نکات و نظریات عام فہم آسان اور ترتیبوار پڑھائیں۔جہاں کہیں کسی نکتہ کی وضاحت مطلوب ہو تشریح و وضاحت سے گریز نہ کریں۔اساتذہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ صرف مضمون کو دوبارہ پڑھادینے سے اصلاحی تدریس کا مقصد پورا نہیں ہوجاتا ہیبلکہاصلاحی تدریسی جماعت میں ان تمام نکات و تصورات کو آسان اور عام فہم اندازمیں سمجھانا ضروری ہوتا ہے جس کو بچے عام جماعت میں سمجھ نہیں پاتے ہیں۔اصلاحی تدریس کو دلچسپ اور موثر بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ سرگرمیوں اور دلچسپ مواد کو درس و تدریس میں شامل کرنی کی ضرورت ہوتی ہے۔مسلسل جانچ اور رہبری و رہنمائی کے ذریعہ طلبہ کی اصلاح کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اساتذہ بچوں کے معمولی سے معمولی مظاہرہ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں۔اپنی آرا سے طلبہ کو واقف کروائیں تاکہ ان کی اصلاح کا کوئی پہلو باقی نہ رہے۔

(2)اصلاحی تدریس پر مبنی سرگرمیوں کی تفویض(Remedial Assignment)؛۔اساتذہ طلبہ کو اصلاحی تدریسی سرگرمیاں تفویض کریں تاکہ معلوم ہوسکے کہ سرگرمیوں کی انجام دہی میں ان کو کس قدر دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ہؤرہا ہے۔تفویض کردہ سرگرمی طلبہ کی ذہنی استعداد اور اکتساب کی صلاحیت کو مد نظر رکھ کر دی جانی چاپیئے تاکہ طلبہ سرگرمیوں کی انجام دہی میں دلچسپی لیں اور سرگرمی ان کے لئے اکتسابی عمل میں ایک محرکہ کا کام انجام دے۔طلبہ کی ذہنی استعداد کو سامنے رکھ کر تیار کی جانے والی سرگرمی کے لئے اساتذہ کو زیادہ کوشش کر نی پڑتی ہے لیکن اس سے طلبہکی اکتسابی ترقی کی شرح کو نمایا ں طور پردیکھاجاسکتا ہے۔طلبہ کو سرگرمی تفویض کر تے وقت سرگرمی کی غرض و غایت اور اس کی انجام دہی کے لئے معاون طریقہ سے  واقف کیا جانا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ کسی الجھن کے اور اطمینان کے ساتھ اسے انجام دیں۔ اساتذہ کے لئے  ضروری ہے کہ وہ اصلاحی تدریسی پر مبنی  سرگرمیوں میں لگاتار تبدیلی و تنوع کے ذریعہ طلبہ کی دلچسپی کو برقرار رکھیں۔

(3)مشقوں گیری(Drill Exercise)؛۔ایک دانشور استاد سست اکتسابی کیفیت کے حامل طلبہ کو دوسروں طالب علموں کے ساتھ رکھتے ہوئے علیحدہ،آسان مشقوں کی سربراہی کے ذریعہ ان کو تعلیم کی طرف موثر طریقے سے راغب و مائل رکھتا ہے۔متواتر مشقوں کی تفویض کے ذریعہ سست اکتساب کے حامل طلبہ کے ذہن معلوماتگھر کر جاتے ہیں۔مشقوں کو دلچسپ اور معیاری بنانے کے لئے اساتذہ کو سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اساتذہ جن صلاحیتوں اور استعدادوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں اس مواد کومشقوں میں ضرور شامل کریں تاکہ اصلاحی تدریس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے۔

مطالعہ کے لئے بہتر تکینک کا استعمال؛۔طلبہ کو مطالعہ کے دوران اہم نکات اور اختتام پر سبق کا خلاصہ لکھنے کے گر سکھائے جائیں تاکہ سبق کے  اعادے میں آسانیہو۔صرف لگاتار مطالعہ سے فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ سوالات تشکیل دیتے ہوئے ان کے جوابات تحریر کرنے سے اسباق اور نفس مضمون ازبر ہوجاتا ہے۔طویل وقفے تک لگاتار پڑھتے رہنے کے بجائے  چھوٹے چھوٹے وقفو ں میں پڑھائی کوجاری رکھنا فائدہ مند ہوتا ہے۔صرف ایک ہی مضمون اور موضوع کے مطالعہ سے بوریت پیدا ہوجاتی ہے لہذا طلبہ کو چاہیئے کہ اپنے مطالعہ میں تنوع پیدا کریں تاکہ وہ بوریت کا شکار ہوئے بغیر اپنے مطالعہ کو جاری رکھ سکیں۔امتحان سے قبل گزشتہ سال کے امتحانی  پرچوں کے مطالعے سے سوالات کے پرچے کی نوعیت کا پتہ چلتا ہے اسی طلبہ گزشتہ امتحانات کے پرچوں کا مطالعہ کریں تاکہ امتحان میں آنے والے سوالات کی نوعیت کا انہیں علم ہوجائے۔

رہنمائی اور حوصلہ افزائی؛۔اساتذہ سست اکتساب کے حامل طلبہ کی باقاعدہ نگرانی اور جانچ کا کام انجام دیں۔ان کو مختلف اور متنوع اکتسابی تکنیک سے آراستہ کرتے ہوئے ان کو بروئے کار لانے کی تلقین کریں۔مناسب اہداف کا تعین کرتے ہوئے ان کے حصول کے لئے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرے۔اساتذہ ایسی تعلیمی سرگرمیوں کو ترتیب دیں جس سے بچوں کی شخصیت کے نقائص کو دور کرنے میں مدد مل سکے۔طلبہ کو ایسی تمام اکتسابی اور تعلیمی مہارتوں کے استعمال میں طاق کرد یں کہ ان کا مظاہرہ پہلے سے بہتر ہوجائے۔طلبہکو ان کی کارکردگی پر مناسب مشورے دیتے ہوئے  مظاہروں میں بہترپیدا کریں۔ذیل کی چند تجاویز کے ذریعہ طلبہ کے تعلیمی و اکتسابی مظاہر وں کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

اساتذہ ا ن طلبہ پر توجہ دیں جواپنے خیالات کے اظہار اور ان کو تحریر شکل دینے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔یہ دشواری طلبہ میں فرہنگ(الفاظ و معنی) کیکمیکی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔تحریر میں دشواری کی وجہ جملوں کی بندش سے عدم واقفیت بھی ہوتی ہے۔ایسے بچوں کو فرہنگ(الفاظ و معنی)کے خزانے کو بہترکرنے کی ترغیب دینا ضروری ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو تحریر ی سرگرمیوں تفویض کرتے ہوئے تحریری صلاحیتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔طلبہ کی ریاضی میں کمزوری کا سبب بنیادی معلومات کا فقدان یا پھر ریاضی کے تصورات و نکات کی غیر مناسب تعبیر و تشریح ہوتی ہے۔اصلاحی تدریس کے ذریعہ بنیادی معلومات کی فراہمی اور بہتر تعبیر و تشریح کے ذریعہ ریاضی کے صلاحیت کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔بعض طلبہ کو بلند آواز سے پڑھنے کی عادت ہوتی ہے اور متن کی تشریح و تفہیم میں ان کو بہت ہی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خراب تلفظ اور املے (Spelling)کی خرابی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ایسے بچوں کو مطالعہ کی وسیع مشق کرواتے ہوئے نہ تلفظ کی خامیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ بین السطور پیش کردہ مطالب و مفاہیم کو اخذ کرنے کے لائق بنایا جاسکتا ہے۔مسلسل مطالعہ کے ذریعہ طلبہ میں پائی جانے والی عدم توجہ کی کیفیت پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔کسی بھی تعلیمی و اکتسابی سرگرمی کی انجا م دہی پر طلبہ کو خوش ہونے اور اپنے آپ پر فخر محسوس کرنے کا عادی بنا نے سے وہ اپنے کا م کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لائق ہوجاتے ہیں۔یہ عادت ایک طرح سے اندرونی محرکے کا کام انجام دیتی ہے۔اساتذہ ہر طالب علم سے بہتر برتاؤ،شفقت،ہمددری اور رہبری و رہنمائی کے ذریعہ اکتسابی عمل کو فروغ دے سکتے ہیں۔ایک بہتر استاد نہ صرف طلبہ کی اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے بلکہ اس کو تشکیک اور خوف کے دلدل سے نکال کر اعتماد اور اطمینان کے عظیم سرمائے سے مالامال کر دیتا ہے۔طلبہ کی مختلف خامیوں کی آڑ میں اساتذہ اپنے تدریسی عیوب کو چھپا نے کو کوشش نہ کریں بلکہ ماہرین کے تدریسی مشاہدات وتجربات کی روشنی میں ہر بچے کے قلب و ذہن کو روشن و منور کریں۔

حصہ
mm
فاروق طاہر ہندوستان کےایک معروف ادیب ،مصنف ، ماہر تعلیم اور موٹیویشنل اسپیکرکی حیثیت سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ایجوکیشن اینڈ ٹرینگ ،طلبہ کی رہبری، رہنمائی اور شخصیت سازی کے میدان میں موصوف کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ ہیں۔ایم ایس سی،ایم فل،ایم ایڈ،ایم اے(انگلش)ایم اے ااردو ، نفسیاتی علوم میں متعدد کورسس اور ڈپلومہ کے علاوہ ایل ایل بی کی اعلی تعلیم جامعہ عثمانیہ سے حاصل کی ہے۔

جواب چھوڑ دیں