ہمارا حکمران چور ہے؟

گزشتہ روز کراچی کے مختلف علاقوں میں ٹھیلے اور پتھارے والوں کے خلاف بھرپور آپریشن کیاگیا۔ جہاں جہاں ٹھیلے اورپتھارے نظرآئے انہیں اٹھا کر لے جایاگیا اور 5ہزار روپے رشوت کے عوض رہائی دی گئی ساتھ ہی ضبط مال بھی واپس نہیں کیاگیا۔ اس آپریشن کے بعد ان گلی محلوں کی مارکیٹیں تو کشادہ ہوگئیں مگر ساتھ ہی ان مارکیٹوں میں ویرانی بھی چھا گئی۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے لوگ ان ہی ٹھیلے اورپتھاروں والوں سے اپنی ضروریات زندگی پوری کررہے تھے،کیوں کہ انہیں دکان کا کرایہ ادا نہیں کرنا ہوتا(سوائے بھتے کے) اور سبزی ودیگر اشیائے خورد ونوش بھی سستے داموں مل جایا کرتی تھیں جس سے دونوں طبقات اپنی زندگی کی گاڑی کو کسی نہ کسی طرح گھسیٹ رہے تھے۔
تبدیلی سرکار کا بجٹ جس طرح امیروں کو پسند نہیں آیا وہیں غریب کی تو جان ہی لے گیا۔ عوام بے روزگاری اورمہنگائی سے پہلے ہی مری جارہی تھی رہی سہی کسر اشیائے خورد ونوش پر ٹیکس کی بھرمار نے پوری کردی جس سے غریب آدمی زندہ لاش بن چکا ہے۔ تبدیلی کے دعوے اور فلاحی ریاست کے خواب دکھا کر ووٹ مانگنے والوں نے مملکت خداداد کو ظلم کی ریاست میں تبدیل کردیا۔ 6ماہ میں سب کچھ بہتری کے دعوے اپنی جگہ لیکن عوام کی حالت بد سے بدتر کرنے میں حکومت نے پوری ایمانداری سے کام لیا۔ وزیراعظم صاحب ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر قوم سے الٹا یہ مذاق بھی کرتے رہتے ہیں کہ بس تھوڑی سی مشکلات ہیں جس کا ہمیں صبر اورہمت سے مقابلہ کرنا ہوگا،لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک غریب جس کی تنخواہ 15سے 20ہزار روپے ماہانہ ہو وہ کس طرح اپنے اخراجات کنٹرول کرے۔ آٹا 46روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے،صرف سوکھی روٹی بھی کھائے تو بھی وہ بیس ہزاروپے میں مہینہ نہیں نکال سکتا۔ جس تیزی سے ڈالر اوپر جارہاہے اتنی ہی تیزی سے مکان کے کرائے بھی بڑھائے جارہے ہیں، جنہیں روکنے اورپوچھنے والا ملک میں کوئی نہیں۔ صاحب حیثیت لوگوں نے اپنا سرمایہ اب کسی اور کام میں انویسٹ کرنے کے بجائے پراپرٹی کے کاموں میں لگا رہے ہیں۔ دو تین بلڈنگ بناکر ان سے وہ ماہانہ لاکھوں روپے کرایہ وصول کرر ہے ہیں جس کاکوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔وزیراعظم کا سارا دھیان اس طرف ہے کہ ٹیکس کہاں کہاں سے لینا ہے مگر اس پر کسی کا دھیان نہیں جا رہا کہ ایک غریب سے ایک مالک مکان کتنا کرایہ وصول کررہا ہے اوروہ کس طرح امیر سے امیر تر ہوتا جارہاہے؟
کچی آبادیوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری سے سرمایہ کارماہانہ اربوں روپے وصول کررہے ہیں اوریہ سب پیسہ کیش میں وصول کیاجاتا ہے جو بعدازاں تجوریوں کی نذرہورہاہے ایسے میں کیسے اورکس طرح معلوم ہوگا کہ کس کے پاس کتنی دولت ہے۔ ایک شخص نے ایک بلڈنگ اپنے نام کر رکھی ہے جس میں یہ ظاہرکیاگیا ہے کہ اس بلڈنگ میں اس کی فیملی رہائش پذیر ہے،رہائشی عمارت پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔ ساتھ ہی اس شخص نے چار پانچ بلڈنگیں اپنے بچوں کے نام کر رکھی ہیں جس سے وہ ماہانہ کرایہ وصول کررہا ہے،ایک عیاشی والی زندگی گزاری جارہی ہے،لیکن ٹیکس کے نام پرکچھ بھی نہیں نکلتا۔ تاہم غریب ہر قسم کی مصبیتوں سے دوچار ہونے کے باوجود ہر چیز پر ٹیکس دینے کا پابند ہے۔
ہمارے وزیراعظم صاحب ہر تقریر میں یورپ کی مثالیں دینے کے عادی ہیں لیکن اس طرح کے قوانین کب بنائیں جائیں گے جو یورپ میں ہیں؟ کرایہ داری ایکٹ پر آج تک عمل نہیں ہوسکا تو باقی معاملات پر کیا امیدیں وابستہ رکھیں۔ پڑھے لکھے بے روزگارنوجوانوں نے غربت سے تنگ آکرجب اپنی روزی روٹی ٹھیلے اور پتھارے کے ذریعے حاصل کرنا شروع کردی،مگریہ بھی ہمارے حکمران کو پسند نہیں آیاکہ وہ روزانہ 3سے 5سو روپے منافع کیوں کما رہا ہے،اس لییاس سلسلے کو بھی جرم قرار دے کر بند کردیاگیا۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایک پتھارے والا کتنا کما لیتا ہوگا جس پر ٹیکس لگانے اوربلاوجہ گلی محلوں سے ہٹایا جارہاہے۔؟ 5سو روپے روزانہ بھی اگر وہ کما رہا ہے تو یہ ماہانہ 15ہزار بنتے ہیں،کیاوہ 15ہزار روپے ماہانہ سے اپنا گھر چلا سکتاہے؟ اگر چلا سکتا ہے تو برائے مہربانی ہمیں بھی وہ ترکیب بتا دیں تاکہ ہم بھی اس پر عمل کرکے اپنا گھر چلا سکیں۔
وزیراعظم صاحب آپ فوج کی تعریف کرتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے بجٹ میں اضافہ نہ لے کرجہاں حب الوطنی کا اظہار کیاوہیں قوم پر احسان بھی کیا۔مگر یہ بھی دیکھ لیں کہ بجٹ میں اضافہ نہ کرنے باوجود عوام کو کیاملا؟۔ وہ تو پہلے سے زیادہ مہنگائی اور بے روزگاری کے اژدھے سے ڈسی جارہی ہے۔ پھر آپ کوپریشانی بھی اگر دکھائی دیتی ہے تو وہ بھی صرف سرکاری ملازمین کی۔اگر ملازمین کا موازنہ ایک عام آدمی سے کیاجائے تو سرکاری ملازمین کے پاس پکی نوکری ہے وہ اگر دفتر نہ بھی جائے تو بھی اسے ہرمہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ مل جاتی ہے۔ پھر سالانہ 10اور 20فیصد اضافہ الگ دیاجاتا ہے،ہاؤس رینٹ اور فیول کی مد میں بھی الگ سے پیسے ملتے ہیں،ریٹائرمنٹ پر گریجویٹی اوربعد میں پنشن کا سلسلہ الگ سے لگا رہتا ہے۔ لیکن ایک غریب محنت کش کو کیا ملتا ہے؟ وہ جب تک زندہ رہتا ہے اسے محنت کرکے دو وقت کی روٹی کھانی پڑتی ہے لیکن سرکاری ملازمین کے ساتھ ایسا نہیں۔ سرکاری ملازم 60سال کی عمر میں ریٹائر ہوکر ایک اچھی زندگی گزار رہا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کی خدمت صرف سرکاری ملازمین کررہے ہیں باقی عوام نہیں کررہی؟ آپ کے لوگ بجٹ بناتے وقت بھی اگر کسی کا خیال کرتے ہیں تو صرف اور صرف سرکاری ملازمین کا ہی کرتے ہیں کیوں کہ وہ خود سرکاری ملازمین جوہیں،لیکن کسی فیکٹری میں دھاڑی پر کام کرنے والے کا بجٹ میں کبھی احساس نہیں کیاگیا۔ حکومت نے کبھی اس کے گھر کے چولہے کے بارے میں بجٹ میں کچھ سوچا، کیا کبھی کسی ٹھیلے والے یا ریڑھی والے کے بارے میں بجٹ میں کچھ رکھاگیا؟ مدینے کی ریاست کا کہہ کرظلم اور کفر کی ریاست میں عوام کو جھونکنے والی حکومت ان سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے۔
وزیراعظم صاحب جب آپ وزیراعظم کی سیٹ پر نہیں بیٹھے تھے تب آپ کہا کرتے تھے کہ وی آئی پی پروٹوکول نے ملک کا بیٹرا غرق کردیا ہے،اشرافیہ ملک کو کھاگئی ہے،ہم ایسا نظام لائیں گے جس سے ہر طبقے کے لوگ مستفید ہوں گے۔ کیاآپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ جب ڈالر اوپر جائے اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھیں اورقرضے بڑھیں تو سمجھ لینا آپ کا حکمران چور ہے۔تو کیا اب ہم یہ نہ سمجھیں کہ ہمار ا حکمران بھی چور ہے۔ اس نے ہمارے ووٹ پر ڈاکا ڈالا،ہمیں سنہری خواب دکھا کر مہنگائی اور بے روزگاری کے دلدل میں مزید دھکیل دیا۔؟چلیں سب باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں صرف یہ ہی بتا دیں کہ وہ پیسا کہاں گیا جو آپ باہر سے لارہے تھے؟ یہ بھی بتا دیں کہ وہ سستے 50لاکھ مکان کہاں گئے؟ وہ ایک کروڑ نوکریاں کہاں گئیں؟ وہ پانی دینے کا وعدہ کہاں گیا؟ ڈیم بنانے کی باتیں بھی یاد ہیں یا نہیں؟ چلیں ان سب کو بھی تھوڑی دیر کے لیے ایک سائڈ پر رکھ دیتے ہیں، کم از کم یہ ہی بتا دیں کہ ایک غریب کا چولہا 15،20ہزار میں کیسے چل سکتا ہے؟ ان پڑھ شخص کے لیے گورنمنٹ کے پاس کیا پالیسی ہے؟ اسے کس طرح کا روزگار ملے گا؟ کیا مدینے کی ریاست میں ایک مڈل پاس کو 50ہزار روپے کی نوکری مل سکتی ہے؟ کیا مدینے کی ریاست میں کسی بیوہ کی ماہانہ کفالت کا بندوبست بھی ہے یا نہیں؟ اگر آپ یہ کہیں گے کہ اس کے لیے بیت المال ہے تو پھر صرف یہ ہی کاجاسکتا ہے افسوس آپ اپنے سرکاری ملازمین کی رشوت خوری سے واقف نہیں۔ یا پھر ان کی بے ایمانی آپ کو نظرنہیں آتی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ بھی صاحب حیثیت لوگوں کے پاس ہی دیکھے گئے ہیں۔
وزیراعظم صاحب آخر میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گاکہ غریب سے جینے کا حق مت چھینیں۔ غریب کی آہ میں بہت اثر ہوتا ہے اور اگر یقین نہ آئے تو پھر خاتون اول سے ہی پوچھ لیجیے گاشاید آپ کو معلوم ہوجائے۔ ورنہ آپ کے ساتھ اور آپ کے نیچے کام کرنے والوں کو اس کا ذرا بھی احساس نہیں۔ اگر ہوتا تو کم از کم ملک میں غریب کے لیے بھی کوئی قانون ضرور ہوتا۔یاد رکھیے گا آپ اسلامی ملک کے سربراہ ہیں اورخدا کی قسم اسلامی ملک کا سربراہ رعایا کی ذمے داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔

حصہ
mm
روزنامہ جسارت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف بلاگز ویب سائٹس پر بلاگ ‘فیچرز اور تاریخی کہانیاں لکھتے ہیں۔ روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں بھی لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ جناح کراچی میں بطور سندھ رنگ میگزین کے انچارج کے طورپر اپنی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔ زیادہ تر معاشرتی مسائل پر لکھنے کا شوق ہے۔ اس کے علاوہ کراچی پریس کلب کے ممبر اورپاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے بھی ممبرہیں۔

جواب چھوڑ دیں