زخم وہی کیوں جو مجھے لگے

پانی کی ایک ٹنکی سے چار چار ٹرک بھر بھر کر اسلحہ نکلنے ، قبرستان کی قبروں سے گولہ بارود برآمد ہونے اور کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے دفاتر کے فرشوں اور متصل خالی پلاٹوں یا کچراکنڈیوں سے جنگی ساز و سامان دریافت ہونے اور وہ بھی نیٹو کے کنٹینروں سے لوٹا ہوا، پر یقین کامل رکھنے والوں کے کسی لیڈر کی کار سے صرف 15 کلو ہیروئین بر آمد ہونے پرانکاری کیوں؟۔ کراچی کے متعلق سرکاری اہل کاروں کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنے والے ان ہی جیسے “ذمہ” دار سرکاری اہلکاروں کے رانا ثنااللہ پر لگائے گئے الزام پر چراغ پا کیوں؟۔

یہ ضروری نہیں کہ کوئی خود شکاری نہ ہو تو وہ ایسے مناظر نہیں دیکھ سکے گا جس میں درندے اپنے شکار کو حاصل کرنے کی جد و جہد کر رہے ہوں۔ مجھ جیسا بھی موویوں میں ریکارڈ کئے گئے بہت سارے مناظر دیکھتا رہا ہے۔ شیر جیسے درندے کو بھی کسی غول پر براہ راست حملہ کرتے نہیں دیکھا۔ وہ اکیلا ہو یا کئی، پورے غول پر یک دم حملہ آور کبھی ہوا کرتے۔ وہ ان کے ساتھ مختلف انداز میں چھیڑا چھاڑی کر کے، مختلف سمتوں سے حملے کرکے ان کو ڈر اور خوف میں مبتلا کرکے ان میں انتشار کی اور نفسا نفسی کی سی کیفیت پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی ایک یا چند اپنے غول سے بدک جاتے ہیں۔ بدک کر الگ ہوجانے والا شکار، شکار ہوجاتا ہے اور بچ جانے والے اس فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اب ان کی جان قیامت تک کیلئے بخش دی گئی ہے۔ ایک ایک کرکے شکار کرنے کی جنگی اور انتقامی حکمت عملی صدیوں پرانی ہے لیکن جب جب بھی “شکاری” ایسا کر رہا ہوتا ہے، باقی “جانور” خواہ وہ انسان نما ہی کیوں نہ ہوں، اس فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ وہ دشمن کے ہاتھوں محفوظ رہیں گے۔

پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہورہا کہ “شکاری” سیاسی “غولوں” پر ایک ساتھ حملہ آور ہوا ہو۔ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ کسی بھی بڑے اتحاد میں پہلے رخنے ڈالے جاتے ہیں، پھر ان کو اپنے اندر کسی ایک کے خلاف بدظن کیا جاتا ہے، اس کو اتحاد سے باہر ہی نہیں نکالا جاتا بلکہ اس پر سنگین الزامات لگا کر سب کے دل میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اس کی قربت نہ صرف ان کے اتحاد کیلئے خطرہ ہے بلکہ ریاست تک خطرے میں گھر کر اپنا وجود کھو سکتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ “ریاست” کے ساتھ سارے اتحادی، سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنے ہی ایک بھائی کو اپنے آپ سے نوچ کر اس آس و امید پر دور پھینک دیتے ہیں کہ شاید کالی دیوی کے چرنوں میں اس کی قربانی ان سب کیلئے وجہ نجات بن جائے لیکن ہوتا یہ ہے کہ پھر سارے اتحادی اسی طرح ایک ایک کرکے ڈار سے الگ کئے جاتے ہیں اور پہاڑ جیسا اتحاد رائی کے دانوں کی طرح بکھر جاتا ہے۔

کل تک کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ جو جو کچھ بھی ہوتا رہا اور صاحبانِ اقتدار ان مناظر پر جس طرح اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے رہے اور کارروائی کرنے والوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے آج اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو انتقامی کارروائیاں ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہیں۔ چچا بھی کیا خوب انسان تھے، ایسے ہی کسی منظر کو دیکھ کر فرماگئے

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا اس میں صرف ایک سیاسی پارٹی یا پارٹیاں یا انتظامیہ ہی شریک نہیں رہی ہے بلکہ پاکستان کے طاقتورترین حلقے بھی پوری طرح ملوث رہے ہیں۔ یہ نہیں کہ کراچی میں بنائے گئے منصوبوں کا نتیجہ کیا نکلنے والا تھا، اس کا احساس دیگر سیاسی حلقوں کو نہیں رہا ہوگا، لیکن وہ محض اس امید پر خاموش رہے کہ شاید کسی ایک کی قربانی ان کے گناہوں کا کفارہ بن جائے۔ سندھ کی حکومت پر ایک موقع پر یہ وقت بھی آن پڑا تھا کہ جیسے یہاں منتخب حکومت (صوبائی) کو توڑ کر گورنر راج نافذ کر دیا جائے لیکن جونہی قائم علی شاہ فارغ کئے گئے اور ایک اور شاہ حکمران بنے، ایسا لگا کہ سندھ حکومت سے پوتر، نفیس، پاکیزہ اور اللہ کا ولی دنیا بھر میں کوئی اور حکومت ہے ہی نہیں۔ کیا اس کا پس منظر کسی کے ذہن میں نہیں؟، کیا اس کے بعد حکومت اور مقتدر حلقوں کا سارا رخ کراچی کی ہی کی نہیں، سندھ کی دوسری سب سے بڑی سیاسی سی جماعت کی جانب نہیں موڑ دیا گیا؟۔ سندھ حکومت کے مکمل تعاون کے ساتھ شاید ایسا ہونا ممکن نہیں تھا اور شاید اس سلسلے میں آخری رکاوٹ قائم علی شاہ ہی رہے ہوں کیونکہ ان کے جانے کے بعد سے تا حال حکومت سندھ پر وہ دباؤ ہے ہی نہیں جو قائم علی شاہ کے ہوتے ہوئے ان کے فارغ ہونے کہ ایک گھنٹے پہلے تک دیکھا گیا تھا۔ بات وہیں کی وہیں گھوم کر آتی ہے کہ جب بھی “شکاری” شکار کرے “شکار” کو پہلے اس کے غول سے علیحدہ کرے۔

جن سنگین الزامات کا شکار اس وقت پاکستان کی دو بڑی جماعتیں، پی پی پی اور پی ایم ایل ن، سامنا کر رہی ہیں، یہ سارے الزامات اسی نوعیت کے ہیں جس کا سامنا ماضی کی ساری جماعتوں کو رہا ہے۔ کوئی ایسی  بات اب تک سامنے نہیں آئی جس کو نیا کہا جا سکے۔

پاکستان کے دشمنوں کی سب سے بڑی اور اہم کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی یہی ہے کہ قوم منقسم ہے۔ عقائد کا معاملہ ہو، مذہب کی بات ہو، مسالک یا فرقہ واریت کا مسئلہ ہو، زبان، نسل، علاقہ یا صوبائیت کی عصبیت کے اختلافات ہوں یا سویلین اور اسٹبلشمنٹ کی رسہ کشی، غرض پوری قوم بیسیوں گروہوں میں بٹی نظر آتی ہے۔ یہ تقسیم کوئی غیر متوقع بھی نہیں اس لئے کہ جس پاکستان کے متعلق پاکستانیوں نے آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کیا کہ پاکستان کہاں سے کہاں تک “پاکستان” کا ہے اور کہاں سے دوسرے ملکوں کی حدود شروع ہوتی ہیں، وہاں قوم کا منقسم ہونا چونکا دینی والی بات نہیں۔  ایک ایسا ملک جس کی مستقل سرحدوں کا تعین ہی نہیں ہو اس میں ایسا سب کچھ نا ممکن نہیں۔ یہاں کوئی ڈیوہ ڈنڈ لائن ہے تو کسی کو ایل او سی کہتے ہیں۔

پارٹیاں توڑنا یا ان کو کمزور کر کے رکھ دینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ کسی بھی مقام پر رکنے کا نام نہیں دے رہا۔ جبری مطیع بنانے کا جنون بڑھتا ہی جارہا ہے۔ لیکن ایک ماہر شکاری کی طرح یہ طے کر لیا گیا ہے کہ پانی کا گلاس ایک سانس میں نہیں پیا جائے گا۔ چناچہ جو کراچی میں کی جانے والی ہر کارروائی پر یہ سوچ کر مطمئن تھے کہ ہنوز دلی دوراست، اب وہ ایک ایک کرکے زد میں آتے جا آرہے ہیں اور ان سب کو بھی ایسے ہی من گھڑت الزامات کا سامنا ہے جو ہمیشہ سیاست دانوں پر محض اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ وہ زمین پر ناک سے لکیریں کھینچنے پر مجبور کر دیئے جائیں۔

خبروں کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اینٹی نارکوٹکس فورس نے ان کی گاڑی سے 21 کلو منشیات بر آمد کی ہے جس میں ہیروئین کی مقدار 15 کلو ہے۔ یہ الزام درست ہے یا غلط، رانا ثنا اللہ کو اس بات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ان کی گاڑی عزیزآباد کے 120 گز کے مکان میں بنی پانی کی ٹنکی جتنی نہیں تھی ورنہ حکومت پاکستان کو خوامخواہ 4 ٹرک کرائے پر حاصل کرنے پڑ جاتے۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ ایک ایسا فرد جو ٹی وی یا پریس کانفرنسوں میں مسلسل یہ کہہ رہا ہو کہ کسی بھی وقت اسے گرفتا کیا جاسکتا ہے، وہ ایسی کڑوی حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے بھی ہیروئین اور دیگر منشیات لے کر سڑکوں پر گھومتا پھرے تاکہ گرفتار کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے بعد کوئی پریشانی نہ ہو سکے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بات کی اچھی طرح تصدیق کر لے کہ جس کو پکڑا گیا ہے کیا وہ واقعی رانا ثنا اللہ ہی ہے؟۔

بی بی سی کے رپورٹر شہزاد ملک رپورٹ کرتے ہیں کہ “اتوار کی شب بی بی سی سے گفتگو میں اے این ایف کے ڈائریکٹر ریاض سومرو نے کہا تھا کہ ان کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئی ہیں تاہم جب اُن سے برآمد ہونے والی منشیات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتے کہ کون سی قسم کی منشیات برآمد ہوئی ہیں”۔ یہی کچھ پاکستان میں جیو کے مشہور اینکر حامد میر کا بھی کہنا ہے اور ایک اور آزاد چینل کے جاوید چودھری کا بھی اسی قسم کا بیان ہے۔ ان دونوں کا یہی کہنا ہے کہ جو شخص مسلسل اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کر رہا ہے وہ اپنی گاڑی میں منشیات رکھ کر لیجانے کی کبھی ہمت نہیں کر سکتا۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان جھمیلوں میں الجھنے کی بجائے اصل عوامی مسائل کی جانب آئے۔ یہ کام جن محکموں کے ہیں ان پر چھوڑ دے۔ وزیر اعظم خود اور ان کے وزرا ایسے بیانات سے اجتناب کریں جس سے یہ تاثر مل رہا ہو کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ حکومت کے کہنے پر ہو رہا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دشمنوں کی موت پر جشن منانے سے بہر لحاظ گریز کریں اس لئے کہ سجنوں کو بھی ایک دن مرجانا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف اگر غیر سیاسی اقدامات اٹھائے جارہے ہوں تو ایسے قدموں کی پیش قدمی کو روک لینے کی پوری کوشش کرنا چاہیے ورنہ “شکاری” ایک ایک کرکے سب کو ہی ہڑپ کر جائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں