اصول نصاب سازی اوردورِحاضر کاطالب علم

عصرالاقدام سے دورِ جدید تک حصول علم اور تعلیمی معیار متعین کرنے میں نصاب اور نصاب سازی کو مرکزی کردار رہا ہے۔کیونکہ نصاب ہر دورمیں قلب تعلیم متصور ہوتا رہا ہے۔نصاب وہ واحد راستہ اور لائحہ عمل ہوتا ہے جس پر چل کر متعینہ مقاصد تعلیم کے حصول کو ممکن بنایا جاتا ہے۔اس لئے ہر دورمیں ماہر تعلیم اور ارباب فکر ونظر کی یہ کوشش رہی ہے کہ نصاب بہتر سے بہترین ہو،کیونکہ اسی نصاب کی بنیاد پر ہم نے آنے والی نسلوں کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں استوار کرنا ہوتی ہیں۔میری نظر میں نصاب سازی میں جب تک چند اصول نہ رکھے جائیں ہمارا معاشرہ اور طلبا کبھی بھی فلاح اور کامیابی کی طرف نہیں بڑھ سکتے،جیسے کہ نصاب بناتے ہوئے،معلم،تعلم اور معاشرہ کو مدنظر رکھا جائے،عملی سرگرمیوں اور طلبا کے میلان طبع کا بھی خاص خیال رکھا جائے،نصاب سخت ضرور ہو،تاہم اس میں لچکداری کا عنصر بھی بہت ضروری ہو،یہ سب تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب نظم وضبط کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ہم نے دیکھا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں تعلیم موثر اور فعال سماجی فریضہ ثابت نہیں ہوئی اس کی بنیادی اور بڑی وجہ نصاب کی غلط تدوین یا نصاب سازی میں ایسے اصول وضع کر دئے گئے جن کا تعلق اس متعین معاشرہ سے متصادم تھے۔اسی لئے نصاب سازی میں ہمیشہ ہی یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ نصاب اور معاشرہ آپس میں ہم آہنگ ہوں۔
نصاب سازی میں جس پہلے اصول کو مدنظر رکھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ نصاب انسانی ز ندگی کے فلسفہ سے ہم آہنگ ہو۔اس لئے کہ تمدنی معاشرہ میں ہی فلسفہ حیات کی تشکیل اور نمو ہوتی ہے،انسان اپنی انفرادی زندگی سے اجتماعیت کے اصولوں پر کاربند ہونا شروع ہوتا ہے یعنی انسانوں کے اندر انتظام،نظم وضبط،اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور احساس کا جذبہ بیدار ہوتا ہو، جو کسی بھی مہذب معاشرہ کا اہم جزو سمجھا جاتا ہے۔زندگی کے یہی اصول دراصل فلسفہ حیات ہیں کہ انسان میں انسانیت جنم پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔اس لئے جب بھی اس قوم کے لئے تعلیمی معیارات اور نصاب تشکیل دینے کی بات ہوگی تو ان کے فلسفہ حیات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،نصاب کی فلسفہ حیات سے وابستگی اور ہم آہنگی ہی بنیادی طور پر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں سماجی عمل کی بڑھوتی کا کام کرتی ہے۔فلسفہ حیات اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہیں پہچ پاتا جب تک کہ طالب علم کی نفسیات،رجحانات،میلانات اور دلچسپی کو مد نظر نہ رکھا جائے،گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ طالب علم کو اس سارے عمل میں مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔لہذا ان کی نفسیات کو سمجھے بغیر نصاب کی تشکیل دراصل اس کنویں جیسی ہوگی جس میں پانی نہ ہو۔نصاب سازی کے اصول میں ایک اور نکتہ کی بہت اہمیت ہوتی ہے جسے ہم مذہبی اقدار کانام دیتے ہیں کیونکہ تعلیم صرف تدریس کا ہی نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو خود شناسی اور خدا شناسی کا درس دیتی ہے،اور خدا شناسی اس وقت ممکن نہیں ہو سکتی جب تک آپ کی ذات کا محور و مرکز اخلاقیات نہ ہو۔عقیدہ تعلیم،عقیدہ توحید سے مربوط ہو ایسی تعلیم چہ معنی کہ جو طالب علم کو زمانہ شناس تو بنا دے مگر خدا شناس نہ بنائے۔یعنی تعلیم ایک طالب علم میں ایسا احساس پیدا کرے جس کا تعلق عمل سے ہو محض نعرہ بازی اور دکھاوا نہ ہو۔نصاب سازی میں ایک آخری بات کہ تعلیم کا مقصد طلبا کو بدلتے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کا نام ہے اور یہ تب ممکن ہوتا ہے جب تعلیمی ادارے اور ماہرین نصاب سازی کرتے ہوئے جدید تعلیم کے تقاضوں کو مدنظر رکھے۔بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ ایک زندہ معاشرہ کے فرد ہیں۔بصورت دیگر معاشرہ معکوس اور انحطاط پزیر ہو جاتا ہے۔
دوڑو کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نصاب سازی کا یہ تانا بانا جس کردار یعنی طالب علم کے لیے بنا یاجاتا ہے وہ اس سارے عمل میں عملیت پسند بھی ہے کہ نہیں۔زمانہ بدل گیا،اصو ل بدل گئے،نصاب بدلے گئے،تکنیکی مہارتوں اور ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہو گیا سب ہو چکا مگر جس کے لئے ہوا کیا وہ ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہے کہ نہیں۔معاشرہ میں استحکام آچکا،معیشت مضبوط ہونا شروع ہو گئی،انقلابی اقدامات اٹھا لئے گئے،مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا طالب علم نے بھی اپنی سوچ کو بدلا ہے کہ نہیں؟کیونکہ آج کا طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ اسے سمجھنے والاکوئی نہیں،جب اسے کوئی سمجھنے والا نہیں تو ہمارا تشکیل دیا ہوا نظام اسے کیسے سمجھ میں آئے گا۔استاد کا شکوہ ہے کہ طلبا میں اب وہ حیا اور عزت احترام باقی نہیں رہا جو ہماے معاشرہ اور مذہب کا کبھی خاصہ ہواکرتا تھا۔مغربی انداز حیات اور روایات اپنا کر اپنے آپ کو نام نہاد ماڈرن خیال کر کے وہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنتے جا رہے ہیں،پھٹی جینز اور پیوند لگی شرٹ کو جدید فیشن کا نام دے کر طلبا اپنے مذہب اور روایات سے دوری اختیار کرتے جارہے ہیں۔معلومات کا مکمل ذخیرہ اور سند آج کے طالب علم نے ”انکل گوگل“کو سمجھ رکھا ہے۔ایسے میں نصاب سازی کے وہ اصول جو اخلاقیات،مذہب،تمدن اور فلسفہ حیات کو بنیاد بنا کر وضع کئے گئے ہیں ان کا عملی شکل میں اطلاق کیسے ممکن ہو سکے گا۔میری رائے میں نصاب اور کتاب کے ساتھ ساتھ طلبا کو انسانوں میں بیٹھنے کی تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ،
کورس تو لفظ سکھاتے ہیں
آدمی۔آدمی بناتے ہیں

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

2 تبصرے

  1. کورس لفظ سکہاتے ہیں آدمی ،،آدمی بناتے ھیں، حقیقت ھے

  2. سب ہو چکا مگر جس کےلئے ہوا وہ ان اصولوں پر چلنے کے لئے تیار ہے کہ نہیں ،اصل نقطہ ہی یہ ہے بطور استاد اور بطور ماں میں میرا المیہ بھی یہی ہے ۔

جواب چھوڑ دیں